مطیع الرحمٰن عوف ندوی
کسی بھی ملک میں انتخابات عوام کے حق رائے دہی کا ایک واحد ذریعہ ہوتے ہیں اور ووٹ کی حیثیت انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔ اس حق کے ذریعے ہم اپنے نمائندے کا مقننہ اور دستور ساز کو نسل کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔ وہ ملک کی دستور سازی میں ایک اہم عامل ہوتا ہے، اس لیے ووٹ کے حق کو نہ استعمال کرنا یا ا س میں دور اندیشی کا ثبوت نہ دینا ملک کے عدم استحکام کی دلیل بنتا ہے اور خود اپنے حقوق کی پامالی کا راستہ متعین ہوتاہے لیکن حالیہ دنوں میں ہمارے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے اس قیمتی حق کو استعمال نہیں کرتی ہے، نیز اس حق کے استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد جذباتیت اور مذہبی وفرقہ وارانہ جنون کو فوقیت دیتی ہے،ملکی و ملی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر وہ گروہی مفاد کو مد نظر رکھتی ہے اور یہی نظریہ ہے جو دن بہ دن ملک کو کمزور کرتا جارہا ہے اور ملک نظم و استحکام اور امن و سلامتی کے شعبہ میں صفر نظر آتا ہے جبکہ بد امنی و انارکی اور باہمی منافرت ملک کا مقدر بنتی جارہی ہے۔
موضوع بحث ہے حالیہ دنوں میں دو صوبوں یعنی گجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابات کا عمل۔ ہماچل سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف گجرات کے الیکشن پر گفتگو کرتے ہیں، کیونکہ مرکز کا راستہ گجرات ہوکر گزرتا ہے، ملک میں گجرات ماڈل کی طوطی بول رہی ہے اور ا س کے لیے مرکزی حکومت اپنی بہ کثرت اسکیموں کے نفاذ کے لیے ریاست گجرات کو ترجیح دیتی ہے جبکہ مرکز تک بر سر اقتدار پارٹی کے پہنچنے میں گجرات فسادات کا بہت اہم رول ہے جہاں موجودہ وزیر اعظم کے وزیراعلیٰ رہتے 2002 میں مسلم کش فسادات رونما ہوئے تھے اور ملک کا تشدد پسند طبقہ گجرات کے اس ماڈل کو پورے ملک کے طول و عرض میں نافذ کرنا چاہتا تھا جیسا کہ ا س سرزمین نے مشاہدہ کیا کہ پورے ملک کا ماحول تبدیل ہوگیا اور رفتہ رفتہ اکثر ریاستوں میں شدت پسند حکمراں جماعت کی بالا دستی ہوگئی۔
الیکشن کمیشن نے ہماچل پردیش کے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے، گجرات کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ابھی اسے کرنا ہے۔ اس بار گجرات میں مقابلہ سہ رخی نظر آرہا ہے، کیونکہ میدان میں اروند کجریوال کی پارٹی آپ اور کانگریس پارٹی بھی پورے دم خم کے ساتھ موجود ہے۔ اس سے قبل قومی پارٹیوں میں بی جے پی کے مد مقابل صرف کانگریس پارٹی ہوا کرتی تھی، پنجاب میں آپ کی کامیابی کے بعد پارٹی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور ملک میں بڑھتی غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے خود حکمراں جماعت کا مستقبل متاثر ہونے کا عندیہ اب سامنے آ رہا ہے۔ اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو کانگریس پارٹی بھی گجرات میں ایک مضبوط پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی تھی اور اس نے ووٹ فیصد میں کافی نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ 2017 میں میں کانگریس پارٹی کو 77 سیٹیں اور اتحاد کو 4 نشستیں ملی تھیں، نیز کانگریس کا ووٹ فیصد 41.44 تھا جبکہ بی جے پی کو 16 سیٹوں کا نقصان ہوا تھا۔ اسے 99سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس الیکشن میں راہل گاندھی نے گجرات میں 170 جلاس کیے تھے اور الیکشن میں بڑی سرگرمی کامظاہرہ کیا تھا جبکہ کانگریس نے ابھی گجرات الیکشن کے لیے کسی بڑی مہم کا آغاز نہیں کیا ہے ۔
الیکشن میں آپ کے سر گرم ہونے سے سیکولر ووٹ کے تقسیم ہونے کا اندیشہ ہے اور اس سے کانگریس پارٹی کے نقصان اور بی جے پی کا فائدہ ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ گجرات کی تاریخ میں ہمیشہ نشیب و فراز ہوتے رہے ہیں۔ ا س ریاست کی تشکیل 1960میں ہوئیتھی۔ ا س سے قبل یہ بمبئی ریاست کا ایک حصہ تھا۔ قیام گجرات سے لے کر1967 تک یعنی سات سال انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت رہی۔ 1966 میں اندراگاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ناراض کانگریسیوں نے انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن بنائی اوراس وقت کے وزیراعلیٰ کنہیا لال دیسائی بھی مکمل اکثریت کے ساتھ ا س نئی پارٹی میں شامل ہوگئے اور 3 اپریل 1967 تا 12 مئی 1971 کو گجرات میں صدر راج کا نفاذ ہوا اور 17 مارچ 1972 تک رہا، پھر 1972 کے انتخابات میں دوبارہ انڈین نیشنل کانگریس کو 160 نشستوں کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملا۔ دو سال کے بعد پھر سے صدر راج نافذ ہو گیا۔ جنتا پارٹی کے دور میں 1975 میں وسط مدتی انتخابات ہوئے جس میں کسی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے کانگریس آرگنائزیشن کے بابو بھائی پٹیل وزیراعلیٰ بنے۔ وہ نوماہ 12 دن وزیر اعلیٰ رہے۔ پھر وہی 1980 تک جنتا پارٹی کے رکن کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ رہے۔ اس دوران کل تین ماہ کانگریس پارٹی کے مادھو سنگھ سوانکی بھی وزیر اعلیٰ رہے۔ 1985 میں کانگریس کو پھر اکثریت ملی۔ یہ سلسلہ 5 سال چلا۔ اڈوانی کی رتھ یاترا نے ماحول بدل دیا اور 1995 سے بی جے پی مستقل طور پر گجرات میں حکمراں ہے۔ اسے اس سال بھی 42.51 فیصد ووٹ ملے۔ 2002 میں بی جے پی کو 127 سیٹیں ملیں اور 49.85فیصد ووٹ ملے۔ یہ الیکشن گجرات فسادات کے بعد ہوا تھا۔ اس وقت گجرات فسادات اور بابری مسجد کی وجہ سے ملک میں اشتعال تھا اور مودی ایک ہیرو کی شکل میں نمودار ہوئے تھے لیکن حالیہ الیکشن میں کوئی جذباتی اشتعال نظر نہیں آ رہا ہے اور آپ کی شمولیت کی وجہ سے بی جے پی بھی خوفزدہ نظر آرہی ہے۔ اس وجہ سے مرکزی حکومت نے اب روز گار میلوں کا انعقاد بھی کرنا شروع کر دیا ہے، بلقیس بانو کیس کے ملزمین کی رہائی بھی پولرائزیشن کے لیے مفید ثابت نہیں ہو رہی ہے۔
یہ تو الیکشن کے حقیقی نتائج ہی بتائیں گے کہ کس پارٹی کو ریاست میں کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ گجرات الیکشن اگلے ہونے والے تمام انتخابات کے لیے زبردست رجحان کا کام کرے گا۔ غریبی، بے روزگاری اور معاشی بد حالی کی وجہ سے ملک کا وہ طبقہ جو بی جے پی کو سپورٹ کرتا تھا، ایسا لگتا ہے کہ اب کجریوال کی جانب پر امید نگاہوں سے بڑھ رہا ہے۔ اس وقت جہاں ملک کے موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ مسلسل گجرات کے دورے کررہے ہیں، اروند کجریوال بھی ہر ہفتہ اور اتوار کو گجرات کے دورے کر رہے ہیں اور دہلی اور پنجاب کے اپنے ترقیاتی کاموں بالخصوص سرکاری تعلیم گاہوں کے ماڈل کو ووٹ دہندگان کی تسخیر کے لیے پیش کررہے ہیں جبکہ کانگریس نے ابھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ریاست کے دیہی علاقوں میں کانگریس کی جانب رجحان نظر آرہا ہے تو شہری آبادی آپ کی جانب مائل ہوتی نظر آرہی ہے۔ نتائج کیا ہوں گے، یہ تو کسی کو علم نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آپ کی شمولیت سے اب اس مقابلے میں جان پڑ گئی ہے اور خود بی جے پی حیران وششدر ہے کہ آپ ا س کے ووٹ کاٹنے کا کام کر سکتی ہے اور ا س طرح یہ سہ رخی مقابلہ ہر پارٹی کے لیے بڑی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ اب یہ نتائج ہی واضح کریں گے کہ کون فائدے میں ہے اور کون فائدے میں نہیں!n
(مضمون نگار دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں استاذ ہیں)
[email protected]