ایتھوپیا – صبح امن کا آغاز

0

ٹھیک دو سال بعد افریقہ کے ایک اہم اور مختلف مذہبی قبائلی شناختوں والے ملک ایتھوپیا میں حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں افریقی یونین کی مصالحت کے بعد یہ معاہدہ نہ صرف یہ کہ علاقے میں خارجی مداخلت کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا بلکہ ایتھوپیا کے لوگوں بطور خاص تھگرے کے لوگوں کے درمیان بھی طویل عرصے سے چلی آرہی رقابت کو ختم کرنے میں کامیابی ملے گی۔
خیال رہے کہ نومبر 2020میں حکومت اور تگرے کے درمیان زبردست جنگ اس وقت شروع ہوگئی جب ابی احمد اور باغیوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع کردیں۔ تگرے کی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑنے والی تنظیم نے سرکاری فوج کے خلاف زبردست جوابی کارروائی کی تھی اور ایتھوپیا کی فیڈر آرمی نے علیحدگی پسند عناصر کے نام پر ہوائی حملے کیے تھے جس کے اوپر اقوام متحدہ کے کئی اداروں اور تنظیموں نے ابی سرکار کی نکتہ چینی کی تھی۔
مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ چاہتے تھے کہ یہ علاقہ جو کہ عیسائی اکثریتی ہے کسی طرح آزاد ہوجائے اور وہاں پر خود مختار عیسائی حکومت وجود میں آجائے جیسا کہ سوڈان کی تقسیم کے بعد وہاں ایک نیا ملک جنوبی سوڈان بن گیا ہے۔ ایتھوپیا کی حکومت جو کہ 2018کے انتخابات کے بعد وجود میں آئی تھی نہیں چاہتی تھی کہ اندرونی معاملات میں مغربی ممالک مداخلت کریں اور اس کے علاقائی یکجہتی کو چوٹ پہنچائیں۔ کئی ممالک کا الزام تھا کہ ایتھوپیا میں اور اس کے آس پاس کے کئی ملکوں میں دہشت گرد جنگجوکام کررہے ہیں جو تگرے میں علیحدگی پسند قبائلی اقلیت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ یہ بات ذہن رہے کہ ایتھوپیا عیسائیوں کی نسلی جڑیں حضرت سلیمانؑ سے ملی ہوئی ہیں اور اس سرزمین کو حضرت سلیمانؑ کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ بہر کیف تگرے لیبریشن فرنٹ کی طویل جدوجہد اور ایتھوپیا میں کئی دہائیوں تک قابض رہنے کے بعد ابی سرکار نہ صرف یہ کہ ملک میں مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان اتحاد پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ انہوںنے انتہائی پیچیدہ ملک میں قیام امن کی امیدیں پیدا کردی تھیں۔
افریقہ کے کسی ملک میں عرصے کے بعد ایک منصفانہ انتخابی عمل کی کامیابی نے امید کی کرن پیدا کردی تھی اور ابی احمد کے پڑوسی ملک ایریٹیریا کے ساتھ جنگ بندی کا راستہ کھولنے کے لیے عالمی برادری نے ان کی پذیرائی کی تھی اوران کی انہیں کی کوششوں کی وجہ سے ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ مگر اہل مغرب نے بہت جلد ہی ان سے منہ موڑ لیا ۔ ابی احمد نہیں چاہتے تھے کہ مغربی طاقتوں کے دبائو میں ایریٹیریا میں کوئی داخلی شورش ہو یا علیحدگی پسندعناصر متحد ہوں۔
شاید یہی بات اہل مغرب کو ناگوار گزاری ۔ بین الاقوامی عیسائی اداروں نے ایتھوپیا کی سرکار کے خلاف جو کہ منتخب ہو کر آئی تھی ، پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا تھا۔ غیر ملکی طاقتوں کی بڑھتی مداخلت کو دیکھتے ہوئے ابی سرکار نے روس کی مدد لینی شروع کردی جس سے اہل مغرب چراغ پا ہوگئے۔ مگر تگرے میں علیحدگی پسند عناصر کی سرکوبی میں ابی احمد کی ان کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہونے شروع ہوگئے تھے۔ گزشتہ روز جنوبی افریقہ میں ہونے والے امن مذاکرات کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے نائجیریا کے صدر اولو سگم عرف سانجو نے بتایا کہ تگرے میں باغیوں کو بہتر طریقے سے غیر مسلح کرنے اور قیام امن کے بعد انسانی ضروریات مہیا کرانے کے لیے کام کیا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ یہ معاہدہ اس ملک میں قیام امن کی راہ ہموار کرے گا۔
ابی احمد نے امید ظاہر کی تھی کہ اس معاہدہ پر عمل کرکے قیام امن کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے گا۔ تگرے باغیوں نے بھی اس سمجھوتے کی پذیرائی کی ہے اور کہا ہے کہ انہوںنے کچھ رعایتیں کی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اس معاہدہ پر تیزی کے ساتھ عمل ہو اور ہمارے لوگ جس کرب سے گزر رہے ہیں اس میں کمی آئے۔ تگرے کی نمائندگی کرنے والے گیٹا چیو ریڈا نے کہاہے کہ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں پر ہمارے لیے سمجھوتہ کرنا ضروری ہوگیاتھا۔ تگرے گروپ کے اس بیان سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ابی احمد نے جس انداز سے کام کیا وہ ان کی دور اندیشی کو ثابت کرنے والاہے۔ انہوںنے علیحدگی پسند مسلح تحریک کو کمزور کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور کیا ۔ پچھلے دنوں ابی احمد نے امن مذاکرات کو موخر کیا تھا جس پر مغربی عناصر ناراض ہوگئے تھے۔ ابی احمد کے رویے سے لگ رہا تھا کہ وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔ مگر ایریٹیریا اوراپنے ہم خیال قبائلی لیڈروں کی حمایت والی ان کی حکمت عملی کار گر دکھائی دے رہی ہے۔ تگرے میں اس خانہ جنگی کی صورت حال سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر لوگو ں کی موتیں ہوئی ہیں۔
تگرے میں تشدد اور جنگ کا اثر آس پاس کے صوبوں میں بھی دکھائی دے رہاتھا۔ ایتھوپیا میں خشک سالی کی وجہ سے انسانی زندگی خطرات سے دوچار ہے اور اس خانہ جنگی میں مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اس سمجھوتہ کا خیرمقدم کیا ہے۔ عدیس ابابا یونیورسٹی کی ایک ماہر سیاسی امور پروفیسر آصفہ میسین بیتھ نے کہا ہے کہ یہ سمجھوتہ اس خطے میں ایک بڑا سیاسی عمل ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس سے لوگ خوش ہیں۔ ایتھوپیا میں اس تنازع کی وجہ سے سماجی ، اقتصادی اور سیاسی بحران پیدا ہوگیاتھا۔ یہ متصادم فریق جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ہیں لیکن اس سمجھوتہ کا ایک پہلو ایریٹیریا بھی ہے۔ ابھی یہ بات باور نہیں ہوپائی ہے کہ کیا ایتھوپیا کا پڑوسی ملک ایریٹیریا سمجھوتے پر خوش ہے یا نہیں۔ اس سے متعلق ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ کئی تنظیمیں الزامات لگاری رہی ہیں کہ ایریٹیریا کی افواج اس علاقہ میں تشدد ، جنسی استحصال اور لوٹ مار میں ملوث رہی ہیں اور ان کی یہ حرکتیں امن مذاکرات کے درمیان بھی نہیں رکی تھیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تنازع میں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ تگرے میں غذائی اجناس اور ضروری سامان کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ دو سال میں جس ا نداز سے تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس سے لگتا نہیں کہ حالات جلد ی سے بدل جائیں۔ افریقی یونین کا کہناہے کہ امن معاہدہ کی نگرانی ہوگی اور افریقی یونین کا ایک اعلیٰ اختیاراتی پینل حالات پر نظر رکھے گا۔ تگرے میں انسانی حقوق کی پامالی کی صورت حال پر اقوام متحدہ نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاتھا کہ ایتھوپیا کی سرکار لوگوں کو جان بوجھ کر فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا رہی ہے اور اس علاقہ کو ایک کھلی ہوئی جیل قرار دیاتھا۔
یہ جنگ بندی اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے کہ امریکہ ستمبر میں جنگ بندی کی کوشش کرا چکا تھا مگر اس کی کوششوں کو کامیابی نہیں ملی۔ کیونکہ ایتھوپیا کی فوج نے تگرے کی گھیرا بندی توڑنے سے انکارکردیا تھا۔ اس کے بعد یوروپی یونین کے کئی ممالک نے زور ڈال کر دوبارہ اس بابت کوششیں کیں۔ لگاتار فوجی کارروائی کے بعد 11ستمبر 2022کو تگرے میں نظم ونسق دیکھنے والی ا نتظامیہ نے مذاکرات شروع کرنے میں اپنی رضا مندی دکھائی تھی۔ افریقہ یونین کی سرگرم کوششوں کے بعد یہ ممکن ہوسکا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت افریقہ کے کئی علاقے خاص طور پر ہارن آف افریقہ کے 66ملین لوگ بدترین قحط سالی کے شکار ہیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ یہ سمجھوتہ کس حد تک اور کتنی دیر تک قائم رہ پائے گا۔
ایتھوپیا کیا ہے تنازع
ایتھوپیا براعظم افریقہ کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ سوڈان صومالیہ اور ایریٹریا اس کے پڑوسی ممالک ہیں، یہ ملک دس صوبوں پر مشتمل ہے۔ ایک زمانے میں اٹلی کے سامراج کاشکار رہا ہے۔ ایتھوپیا 2020سے زبردست جنگ وجدان کاشکار ہے۔ شمالی حصے میں مقیم 5ملین کی آبادی کا بالکل منفرد کلچر اور تہذیب ہے ، اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ ان کی زبان بھی جدا ہے اور رہن سہن تھی۔ اس خطے میں 2020میں انتخابات ملتوی ہرنے کے Tigray’s People hiberation foont (ٹی پی ایل ٹی)نے سرکاری فوج کے خلاف چھاپہ مار فوجی کارروائی شروع کردی۔ ظاہر ہے کہ ایتھوپیا کی حکومت نے اس کارروائی کے خلاف کاکرنا شروع کردیا۔ باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ شروع کردیے گئے اور پورا علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ۔ بہت سے لوگوں نے پڑوسی ممالک خاص طور پر سوڈان اور صومالیہ میں پناہ لینی شروع کردی۔
بین الاقوامی ایجنسیوں خاص طور پر اقدام متحدہ نے عالمی برادری کی اس طرف توجہ دلائی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس بحران اور خانہ جنگی کی وجہ سے 2.3ملین لوگ بدترین بحران سے دوچار ہیں۔ اس آبادی کو فوری مدد کلی ضرورت ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS