نئی دہلی، (پی ٹی آئی) :بی جے پی نے 1980 میں اپنے قیام کے بعد گجرات میں ہونے والے سبھی 9 اسمبلی انتخابات میں صرف ایک مرتبہ ایک مسلمان کو امیدوار بنایا ہے۔ گزشتہ 27 سالوں سے ریاست کے اقتدار پر قابض بی جے پی نے آخری بار 24 سال قبل بھروچ ضلع کی واگرا اسمبلی سیٹ پر ایک مسلمان امیدوار اتارا تھا جسے ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مسلمانوں کو امیدوار بنانے کے معاملے میں بی جے پی کے مقابلے کانگریس کا ریکارڈ بہتر رہا ہے لیکن آبادی کے مطابق انہیں ٹکٹ دینے میں اس نے بھی کنجوسی ہی برتی ہے۔ 1980 سے 2017 تک ہونے والے گجرات اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے مجموعی طور پر 70 مسلمان لیڈروں کو امیدوار بنایا اور ان میں سے 42 نے جیت درج کی۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کانگریس نے 6 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا، ان میں سے 4 نے جیت حاصل کی۔ 2007 کے الیکشن میں کانگریس نے 6 امیدوار اتارے تھے، ان میں سے 3 کو جیت نصیب ہوئی۔ اسی طرح 2002 میں 5 میں سے 3جیتا، 1998 میں 8 میں سے 5کامیاب ہوئے، 1995میں ایک میں ایک کو کامیابی ملی، 1990 میں 11 میں 2 فتحیاب ہوئے، 1985 میں 11 میں سے 8 اور 1980 میں 17 امیدواروں میں سے 12 نے جیت درج کی۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق گجرات میں مسلمان سب سے بڑا اقلیتی فرقہ ہے جن کی آبادی میں 10 فیصد کے قریب حصہ داری ہے اور ریاستی اسمبلی کی کل 182 سیٹوں میں سے تقریباً 30 سیٹوں پر ان کی آبادی 15 فیصد سے زائد ہے۔ اس سال کے اواخر تک گجرات اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ 182 رکن گجرات اسمبلی کی مدت کار 18 فروری 2023 کو ختم ہو رہی ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کبھی بھی اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کر سکتا ہے۔ 90 کی دہائی سے ہی گجرات کی سیاست میں بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے۔ 1990 کے الیکشن میں اسمبلی سہ رخی ہوئی اور بی جے پی – جنتا دل اتحاد کی سرکار بنی۔ اس کے بعد 1995 کے انتخابات سے لے کر 2017 تک سبھی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے جیت درج کی۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے نریندر مودی 2001 سے 2014 تک گجرات کے وزیراعلیٰ رہے۔ بی جے پی نے 1998 کے اسمبلی الیکشن میں واگرا اسمبلی حلقہ سے عبدالقاضی قریشی کو ٹکٹ دیا تھا۔ اس الیکشن میں انہیں کانگریس کے امیدوار اقبال ابراہیم نے شکست دی تھی۔ ابراہیم کو 45,490 ووٹ ملے تھے جبکہ قریشی کو 19,051 ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی نے آج تک کسی بھی مسلمان کو امیدوار نہیں بنایا۔ اس سلسلے میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ بی جے پی نے گزشتہ کئی گجرات انتخابات میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ اس کے آئین میں لکھا ہے کہ وہ انہیں ٹکٹ ہی نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’بی جے پی مذہب اور ذات کی بنیاد پر امیدوار طے نہیں کرتی بلکہ امیدواروں کو مقامی مقبولیت اور ان کے جیتنے کی صلاحیت کی بنیاد پر ٹکٹ طے کرتی ہے۔‘ صدیقی نے بتایا کہ بی جے پی ’اقلیت دوست‘ پروگرام کے ذریعہ بوتھ اور ضلع سطح پر مسلمانوں کو پارٹی سے جوڑ رہی ہے اور یہ یقینی بنا رہی ہے کہ انہیں مرکز اور ریاستی سرکار کی سبھی اسکیموں کا فائدہ ملے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ 2022 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی جیت کی صلاحیت کی بنیاد پر مسلمانوں کو بھی ٹکٹ دے گی۔ 1960 میں گجرات ریاست کے قیام کے بعد 1962 سے لے کر 1985 تک کے انتخابات میں کانگریس کا دبدبہ تھا۔ حالانکہ اس دور میں بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں سیاسی پارٹیوں نے کنجوسی برتی۔ اس دوران اسمبلی پہنچنے والے مسلمان ا میدواروں کی تعداد 3 درجن کے قریب رہی۔ گجرات ریاستی کانگریس کمیٹی کے اقلیتی شعبہ کے صدر وزیر خان پٹھان نے کہا کہ کانگریس کی بدولت ہی مسلمان گجرات اسمبلی کی دہلیز پار کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس بار کے الیکشن میں ہم انہی سیٹوں پر مسلمان امیدوار اتاریں گے، جہاں جیت کا امکان زیادہ ہوگا۔ باقی سیٹوں پر ہماری کوشش بی جے پی کے امیدوار کو شکست دینے کی رہے گی۔ ہم پارٹی پر ٹکٹوں کےلئے غیر ضروری دباﺅ نہیں بنائیں گے۔‘ پٹھان نے کہا کہ جب سے گجرات کے اقتدار میں بی جے پی آئی ہے، مسلمانوں کا الیکشن جیتنا دوبھر ہو گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ’بی جے پی فرقہ پرستی کی سیاست کرتی ہے اور یہ اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اتنے برسوں میں اس نے صرف ایک ہی مسلمان کو ٹکٹ دینے لائق سمجھا۔‘ گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخ میں صرف 2 ہی بار سہ رخی اسمبلی بنی ہے۔ پہلی بار 1975 کے الیکشن میںبابو بھائی پٹیل کی قیادت میں جنتا مورچہ اور دوسری بار 1990 کے الیکشن میں چمن بھائی پٹیل کی قیادت میں کسان مزدور لوک پکش (کے ایم ایل پی)، جنتا دل اور بی جے پی اتحاد کی سرکار بنی۔
گجرات اسمبلی الیکشن : 1980 سے اب تک بی جے پی نے صرف ایک ہی مسلمان کو ٹکٹ دیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS