پروفیسر اخترالواسع
انسانیت کے لیے وہ کتنا مبارک و مسعود لمحہ تھا جب بی بی آمنہ کے بطن سے حضور سرورکائنات، فخر موجودات، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، والدہ کی محبت اور مامتا بھرے جذبات کی آغوش میں آپ پروان چڑھے، گائوں کی کھلی فضا میں پرورش کے لیے گئے تو دائی حلیمہ کی شفقت اور تربیت آپ پر سایہ فگن رہی، اس طرح بچپن میں ماں کا احترام اور ادب کر کے آپؐ نے ماں کو مقامِ عظمت عطا کیا جو نسل انسانی کی پہلی آغوش ہے۔
بے داغ جوانی کے عالم میں آپؐ نے عرب کی ایک معزز لیکن اپنے سے عمر میں بڑی خاتون سے شادی فرمائی،حضرت خدیجہؓ آپ کی پہلی زوجہ تھیں، بیوی کے ساتھ جو سلوک، محبت، تعلق اور لگائو رہا، اس کی اونچائی اور گیرائی کا یہ عالم تھا کہ جس برس وہ آپ سے جدا ہوئیں، آپ نے اس برس کا نام ہی عام الحزن (غم کا سال) رکھا اور پھر زندگی بھر نہ صرف حضرت خدیجہؓ کو یاد کرتے رہے، بلکہ ان کی سہیلیوں اور بہن کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے رہے، بیوی کے ساتھ تعلق اور محبت کی یہ اعلیٰ مثال قائم کر کے اس کے حقیقی مقام کو آپؐ نے واشگاف کیا کہ میاں بیوی کی یہ خوشگوار زندگی ہی خاندان کی پہلی اکائی اور نسل انسانی کی اولین و بنیادی تربیت گا ہ ہے۔
حضرت زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور فاطمہ زہراءؓ کے شفیق باپ نے اپنی بیٹیوں کی تربیت اور ان کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی محبت وشفقت کے نمونے پیش فرمائے۔ اسلام و کفر کی پہلی جنگ جس میں دین و عقیدہ کی خاطر باپ بیٹے اور بھائی بھائی ایک دوسرے کے بالمقابل برسرپیکار تھے، مشرکین کی جانب سے قید ہو کر آنے والوں میں رسول اللہؐ کے داماد ابوالعاص بھی تھے، اپنی رہائی کے لیے فدیہ میں اپنی بیوی کا ہار پیش کیا، یہ وہی ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی زینب کو دیا تھا، بیوی اور بیٹی کی یادگار سامنے تھی، صحابہؓ سے مشورہ کرکے آپ نے وہ ہار بیٹی کو واپس کرا دیا، پھر حضرت زینبؓ کی بیٹی امامہ فتح مکہ کے موقع پر حالت سجدہ میں آپ کی پیٹھ پر چڑھ گئیں تو اپنی پیاری نواسی کو گردن سے اتارنے کے بجائے گود میں لیے نماز میں کھڑے ہوگئے، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کو یکے بعد دیگرے اپنے رفیق حضرت عثمان غنیؓ کی زوجیت میں دیا اور حضرت رقیہؓ بیمارہوئیں تو حضرت عثمانؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ مدینہ میں ٹھہر کر ان کی تیمار داری کریں۔ حضرت فاطمہ زہراؓ تو آپؐ کی محبوب ترین بیٹی تھیں۔سب سے چھوٹی اولاد، وہ آتیں تو آپؐ اٹھ کر انہیں اپنے قریب لاتے، اپنے پاس بٹھاتے، پیار و محبت سے ان کی پیشانی کو چوم لیتے، ان کی شادی اپنے قریبی عزیز اور محبوب چچازاد بھائی حضرت علیؓ سے کرائی، حضرت فاطمہؓ کو خواتین جنت کی سردار بتایا، ان کے بچوں حضرت حسنؓ و حسینؓ کے ساتھ بے انتہا شفقت و محبت فرمائی اور اس طرح دکھایا کہ بیٹیوں کے شفیق باپ کیسے ہوتے ہیں۔
سماج میں عورت اور مرد دونوں کا یکساں مقام ہے، لیکن دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ ہیں۔ دونوں اپنی جگہ ادھورے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مکمل ہوتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں، لیکن جہاں کئی پہلوئوں سے مرد کی ذمہ داریاں دوچند ہیں، کئی دوسرے پہلوئوں سے عورت کامقام مرد سے بلند بنا دیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں دونوں کی فطرت سے عین ہم آہنگ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ اس کے تین بار سوال پر آپؐ نے ہر بار جواب میں فرمایا: تمہاری ماں، اور چوتھی بار سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: تمہارا باپ۔
عورت کی خصوصی اہمیت اور مرتبے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کو تاکید فرمائی کہ وہ عورتو ںکے ساتھ حسن سلوک کی ان کی وصیت اور نصیحت قبول کرے، خواتین کے ساتھ اچھا رویہ اور بہتر سلوک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے بہتر ہونے کی پہچان اور معیار قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھے انسان وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہوں، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اپنی عورتوں کے حق میں تم میں سب سے اچھا ہوں۔
عورت ماں کی گود بلکہ رحم مادر کی پہلی منزل سے لے کر بڑھاپے کی آخری منزل تک ہر ہر قدم پر خصوصی اہمیت اور اچھے سلوک کی مستحق ہے اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اچھے اسلوب، خوب صورت مثالوں اور تاکیدی ہدایتوں کے ذریعہ واضح فرمایا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی بچی سے نجات حاصل کرنے کے طریقو ںکو نہ صرف انسانیت سوز بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر سے گرا ہوا قرار دیا، لہٰذا پیدائش سے پہلے جنس کی تشخیص کر کے بچیوں کا اسقاط گھنائونا جرم اور انسانیت سو ز ذہنیت کا عکاس ہے۔ حضرت عائشہؓ سے رو ایت ہے کہ ان کے گھر پر ایک بھکاری عورت آئی، اس کے ساتھ دو چھوٹی بچیاں تھیں، گھر میں ایک روٹی تھی، حضرت عائشہؓ نے وہ روٹی لاکر دے دی، عورت نے روٹی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے، اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کو دے دیا، خود کچھ نہ کھایا، حضرت عائشہؓ کے دل پر اس منظر کا بڑا اثر ہوا۔ جب حضور سرورکائناتؐ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے پوری کہانی آپؐ کو سنائی، ایک ماں کس طرح خود بھوکے رہ کر روٹی کے دو ٹکڑے دونوں بچیوں کو کھلا کر دل کی راحت محسوس کرتی ہے، رسول اللہؐ نے اس وقت فرمایا:
سنو! عورت کا یہ عمل اللہ کی نظر میں بہت عظیم ہے۔ جس کے گھر میں بھی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح دیکھ ریکھ کرے تو وہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے پناہ بن جائیں گی۔ بیٹیوں اور بچیوں کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بڑا عظیم عمل ہے۔ بچیو ںکی پرورش اور تعلیم و تربیت پر جو بشارت رسول اللہؐ نے دی ہے وہ بچوں اور لڑکوں کے بارے میں نہیں دی ہے، آپ نے فرمایا: جس نے دو بچیوں کی پرورش کی اور اس وقت تک ان کی تربیت کی کہ وہ بالغ ہو گئیں، یعنی خود سمجھدار اور ذمہ دار ہوگئیں تو ایسا شخص قیامت کے روز اپنے اس نیک عمل کی وجہ سے مجھ سے اتنا قریب ہوگا جس طرح ہاتھ کی دو انگلیاں آپس میں قریب ہیں۔ ایک بار ایک سفر میں اونٹنیوں پر خواتین سوار تھیں۔ جو صاحب ان کو تیز ہانک رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹوکا اور فرمایا: دیکھو! یہ آبگینوں کی طرح ہیں، ذرا نرم روی سے چلائو۔
بیوگی کا شکار ہوجانے والی عورتیں سماج میں کیسے گوناگوں مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور ان کی غربت و مفلسی اور مشکلات بسا اوقات انہیں استحصال کا شکار بنا دیتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بیوہ خواتین کو خصوصی توجہ کا مستحق بنا کر ان کے لیے جدوجہد کرنے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی تاکید فرمائی۔ ایسی محروم عورتوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت اور فکرمندی اتنی تھی کہ آپؐ نے فرمایا: جو لوگ بیوہ عورتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ان کی یہ جدوجہد اتنی بڑی ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسا شخص اس آدمی کے برابر ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو اور کبھی روزہ ختم نہ کرتا ہو، اور جو ہمیشہ نماز پڑھتا ہو او رکبھی نماز سے نہ رکتا ہو۔ گویا بڑی بڑی عبادات جتنا نیک عمل ہیں، اتنا ہی نیک عمل یہ ہے کہ انسان بیوہ عورتوں کے دکھ درد کو دورکرے اور ان کے کام آئے۔ عورتوں کی تعلیم کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ ایک مرتبہ کچھ عورتوں نے آکر عرض کیا کہ مرد ہر وقت آپؐ سے سیکھتے رہتے ہیں، اور ہمیں کم موقع ملتا ہے، آپؐ ہمارے لیے علیحدہ دن مخصوص فرمادیں، تو آپؐ نے عورتو ںکی تعلیم کے لیے علیحدہ دن مخصوص کردیا۔ جو عورتیں آپؐ سے مسائل پوچھنے آتیں، آپ تہذیب و وقار کے اسلوب میں ان کی رہنمائی فرماتے اور ان کے مخصوص مسائل کا جواب حضرت عائشہ و دیگر ازواج کے ذریعہ انہیں بتاتے۔ آپؐ نے علمی شوق رکھنے والی خواتین کی ہمت افزائی فرمائی اور کہا کہ انصار کی عورتوں کو دین کے مسائل سیکھنے میں حیا مانع نہیں ہوتی ہے۔
عورتوں کی عظمت، ان کے مقام اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کے اندازے کے لیے اس سے بلیغ اور کیا جملہ ہوسکتا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ یہ دنیا ایک متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع نیک خاتون ہے، گویا دنیا میں نیک خاتون سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں ہے۔
آئیے! ہم ایک ایسا سماجی ماحول پیدا کریں جس میں تمام خواتین نیکی اور حسن اخلاق سے مزین ہوں، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم سے خطاب ہے۔ اور نیکی عمل سے آتی ہے، کیوں کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]