ڈاکٹر مہدی علی زادہ
سفیر جمہوری اسلامی ایران کے ثقافتی مشیر نئی دہلی
(مہسا امینی کی موت پر دشمن میڈیا کی پروپگنڈوں کے مد نظر)
مرحومہ مہسا امینی کی وفات جمہوری اسلامی ایران اور ملت ایران کے لئے یک نہایت تلخ اور ناگوار واقعہ تھا۔ حادثہ کے رونما ہوتے ہی پہلی خبر کے ساتھ ملک کے عہدہ داران خصوصا صدر مملکت نے مرحومہ کے گھروالوں سے رابطہ کیا اور ان کی دلجوئی کی اور واقعہ کی فوری تفتیش کا حکم صادر کیا۔ ملک کی پولس اور اعلیٰ حکام نے بھی فوری طور پر بڑی تیزی سے تحقیق کا آغاز کیا اور آخر میں اپنی تحقیقات کو سارے ثبوتوں اور دستا ویزکے ساتھ میڈیا کے سامنے رکھا۔ان پیش کئے گئے دستاویزوں کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ: مرحومہ مہسا امینی حجاب اسلامی کے قانون کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے پولس کے ذریعہ وہاںلے جائی جاتی ہیں جہاں قانون حجاب کے بارے میں خواتین کو اطلاعات فراہم کی جاتی ہے۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر وہاںاس جلسہ میں 20 خواتین اور بھی موجود تھیں مگر متاسفانہ وہاں پر محترمہ مہسا امینی کو سکتہ پڑتاہے اور وہ فوری طور پر اسپتال منتقل کی جاتی ہیں اور وہاں معالجہ کے دوران دارفانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔جابجا لگے ہوئے کیمرے کی ویڈیوز کی رو سے اس پورے معاملہ کے دوران کہیں بھی ان سے کسی بھی طرح کی سختی نہیں برتی گئی۔ حکام اور طبی ماہرین نے بھی پوسٹ مارٹم کی روپوٹ میں یہ اعلان کیا کہ جسم کے کسی بھی حصہ پر زد و کوب کے کوئی نشان نہیں ہیں اور انھیں کسی بھی طرح کی جسمانی تشدد کا شکار نہیں بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ اسپتال کے ڈاٹا کے اعتبار سے یہ بات سامنے آئی کہ چند سال پہلے بچپنے میں ان کے سرکا آپریشن ہوچکا تھا اور اس کے بھی تمام دستاویزات میڈیا پر منظر عام پہ لائے گئے۔
لیکن افسوس، اس کیس کو پوری احتیاط اور باریک بینی سے ہینڈل کرنے کے باوجود، جمہوری اسلامی ایران کے دشمنوں نے ابتدا سے ہی پورے مسئلہ کو برعکس پیش کرنے کی تمام تر کوششیں کیں اور اس حادثہ کو شورش بپا کرنے کا ایک بہانہ بنا لیا انھوں نے مندرجہ چند اہداف و مقاصد کے لیے سامراج کے اشاروں پہ مغربی میڈیا کے توسط سے غلط اور چھوٹی خبریں پھیلائیں۔
پہلا: انھوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ حجاب اسلامی کو پچھڑے پن کا سبب اور عورت کے لئے قید خانہ بتائیں اور اس کے نتیجہ میں اسلام کو ایک عورت مخالف مذہب قرار دیں۔
دوسرا: جمہوری اسلامی ایران کو خواتین کے حقوق کا منکر قرار دیں۔ انہوںنے اس سلسلہ میں یہ جتلانے کی کوشش کی کہ حجاب کے قانون کی وجہ سے ایران میں خواتین پچھڑے پن کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان پر عرصہ حیات تنگ ہے اس سلسلہ میں انھوں نے ایران کی خواتین کے حالات کو بعض سلفی خواتین کے حالات سے مقایسہ کیا۔
تیسرا: انھوں نے یہ پروپگنڈہ کیا کہ جمہوری اسلامی ایران لوگوں کے احتجاجات کے مقابلہ میں بری طرح تشدد کا سہارا لے رہا ہے اور مخالفین کا سر کچل ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کے خلاف جھوٹی میڈیا کی اس طرح کی متعددبڑی بڑی کوششیں پہلے بھی ناکام ہو چکی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دشمن بار بار کسی نہ کسی بہانہ سے جمہوری اسلامی ایران میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دشمن کی دشمنی کی شدت اور ان کی پلاننگ کو سمجھنے کے لئے صرف اس محدود مدت میں نشر ہونے والی خبروں اور ان کی تحلیلوں کی بھرمار پہ نگاہ ڈالئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بغض و کینہ کا کیا عالم ہے اور دشمن کس قدر دشمنی میں غرق ہے۔
دشمن نے ہر طرح سے جمہوری اسلامی ایران کو کمزور اور بے بس بنانے کی کوشش کی لیکن کہیں کامیاب نہ ہوسکا سو اس نے اب میڈیااور اطلاعی جنگ کا رخ کیا ہے۔ آٹھ سالہ زبردستی تھوپی ہوئی جنگ معاشی اور سیاسی شدید ترین پابندیوں نے بھی امریکہ، اسرائیل اور ان کے علاوہ کسی بھی ایران کے دشمن کو ان کے مقاصد میں کامیابی عطا نہیں کی۔
اس لئے اب یہ جنگ بہت بڑے پیمانہ پہ شروع ہوچکی ہے۔ یقینا یہاں بھی ملت ایران ہی فاتح میدان ہوگی۔
جمہوری اسلامی ایران کے وزیر اطلاعات کی طرف سے جاری شدہ اس اعلانیہ کے مطابق جو ابھی سائبر وار اور ملک میں رونما ہونے والے حادثات کے عوامل کے بارے میں منتشر ہوا ہے یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو چکی ہے کہ کس طرح سے ایران کے خلاف امریکہ، برٹش حکومت، صیہونی حکومت، عربستان اور منافقین متحد ہوگئے ہیں اور انھوں نے دونوں طرح کی جنگوں میں جنگ نرم یعنی میڈیا کی جنگ میں اور جنگ سخت میں جمہوری اسلامی ایران میں مقیم دشمنوں کو متحرک کرکے اور ان کو وسائل فراہم کرکے بڑا رول ادا کیا ہے۔
ان کے چینلوں پہ ایک طائرانہ نگاہ اور حادثات میں استعمال ہونے والے اسلحوں کی شناخت پوری طرح سے اس واقعت کو آشکار کرتی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے، جیسا کہ آگے چل کے اشارہ کیا جائے گا کہ یہ مقابلہ اور دشمنی جمہوری اسلامی ایران سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مشرقی تہذیب کے تمام اقدار مغربی تہذیب اور اس کے میڈیائی سامراج کے نشانہ پہ ہیں۔ تعجب اس بات پہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی دوست ممالک کی میڈیا بھی غیر ارادی طور پر ان جھوٹی خبروں کے سیلاب میں بہہ جاتی ہے اور ان سے مرعوب ہو کہ ایسی غلط تصویر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگتی ہے جو جمہوری اسلامی ایران کے دشمنوں کی خواہش کے عین مطابق ہوتی ہے۔
افسوس کہ جھوٹی خبروں کی کمیت و تعداد اتنی ہے کہ غیر جانبدار میڈیا بھی ان سے مرعوب ہو کے نادانستہ طور پر وہی کرنے لگتی ہے جو دشمن چاہتا ہے اور وہ ان خبروں کے مآخذ کو بھی نہیں دیکھتی کہ وہ کہاں سے آ رہی ہیں۔
ملک کا یہ حادثہ اور بعض میڈیا کا نا مناسب رویہ اس بات کا سبب قرار پایا کہ ہم پہلے اسلام میں خواتین کی عظمت اور ان کے منزلت پہ ایک اجمالی نگاہ ڈالیںاور پھر جمہور اسلامی ایران کے قوانین میں ان کی عظمت کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد ایرانی معاشرے میں خواتین کی موجودہ حالت پہ تحقیقی نظر کریں۔
قوانین ایران میں عورت کا مرتبہ کچھ اتنا ہے کہ ان قوانین کے مقدمہ میں ہی جہاں قانون اساسی کے اصلی اہداف کی تشریح ہے وہیں ایک خاص اور الگ سے عنوان کا آغاز ہے ’زن در قانون اساسی‘یعنی عورت قانون اساسی میں۔اس بحث میں مہم ترین نکات مندرجہ ذیل ہیں:
n اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے خواتین کے تمام حقوق کی بحالی جن پر گزشتہ جابرانہ نظام میں ظلم کیا گیا۔
n ایک خانوادہ اور فیملی کی تشکیل میں تسہیل پیدا کرنا اور اس کے وسایل کی فراہمی میں سعی و کوشش کرنا جو کہ انسان کے رشد و تکامل کی بنیادی ترین راہ ہے۔
n انسان کی پرورش میں ماں کے بلند ترین کردار اور اس کے باعظمت فرائض کا احیا۔
n مقدمہ کے علاوہ بھی قانون اساسی کی اصلی سطروں میں بلا واسطہ عورتوں کے مسائل کی طرف اشارہ موجود ہے۔
n مادہ۱۴ قانون اساسی کا اصل سوم تمام افراد مرد اور عورت سب کے لئے حقوق کی فراہمی اور قوانین کے مقابلہ میں سب کے لئے عدلیہ فیصلوں کی برابر سے سہولت۔
n اصل ۲۰قانون اساسی قوم و ملت کے تمام لوگ عورت مرد سب برابر سے قانون کے زیر سایہ ہیں انسانی ،سیاسی، معاشی ،سماجی اور تہذیبی تمام حقوق سے اسلامی معیارات کی رعایت کے ساتھ برابر سے بہرہ مند ہونے کا حق۔
n الف اصل۲۱ قانون اساسی:۔ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ تمام جہات میں عورتوںکے حقوق کی اسلامی معیارات کی رعایت کے ساتھ پاسداری کرے اور مندرجہ ذیل فرائض کو ادا کرے )ایسے مقدمات کی فراہمی جو صنف نسواں کے رشد اور ان کے مادی اور معنوی حقوق کے احیاء میں معاون ہوں۔
n ماں کی حمایت اور بچوں کی ابتدائی دیکھ بھال کے دوران لاوارث بچوں کی مدد اور حمایت میں نسلوں کی بقا کے لیے عدلیہ کا انعقاد لاوارث اور بیوا ؤں کے لیے مخصوص بیمہ کا انتظام۔
•۲۷۔ذمہ د ارماؤں کی ولی شرعی کے نہ ہونے کی صورت میں قیومیت کا اعطا
n اصل۶۲ قانون اساسی: تمام افراد ملت عورت مرد سب قانون کے زیر سایہ ہیں اور سیاسی معاشی تہذیبی اور انسانی تمام حقوق سے مستفیض ہیں موازین شرعی کی رعایت کے ساتھ۔
اسی طرح سے تمام لوگ چاہے مرد ہو یا عورت سیاسی،معاشی، سماجی اور ثقافتی سرنوشت کی تعیین میں شرکت کریں۔
اسی طرح سے حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمدن و ثقافت کی مشارکت میں موازین اسلامی کی رعایت کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرے۔
عورتوں کی شخصیت کے رشد و نکھار اور اس کے حقوق کے احیاء کے لئے مقدمات فراہم کرے۔
اور اسی طرح سے مادہ ۹کے اصل میں تین قانون اساسی میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ: تمام بے جا تبعیض اور فرق کو ختم کیا جائے۔ مادی اور معنوی تمام راہوں میںسماج کے ہر ہر فرد کو عادلانہ طور پر سہولیات اور وسائل سے مستفیض کیا جائے۔
تہذیب کے نام پر ابتذال
نئی تہذیب نے اگرچہ دور حاضر کو آرام و آسائش کے لئے حیران کن ٹکنالوجی سے نوازا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ اخلاق کے نام پر نام کو بھی ترقی نہیں کی بلکہ تمام انسانی اقداروں اور معیاروں کو مادی معیارات کی پستیوں کا شکار بنا دیا اور اسی پہ پرکھنا شروع کر دیا۔انسان کی معنوی لذتیں مادی چاٹ بن گئیں اور وہ سکون و اطمینان جس کو انسان معنویت کے آسمان پہ حاصل کرتا تھا اس سے محروم ہوکے مادیت کی زمین پر چند روزہ وہمی سکون میں محدود ہو گیا۔ماڈرن نگاہ میں وہی انسان کامیاب اور کامل ہے جو مادی دنیا کے زیادہ حصہ کو اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو۔ وہی خوش نصیب جس نے دوسروں سے زیادہ مادی لذتوں کا چٹخارہ لیا ہو۔ظاہر ہے اس نگاہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت نئی تہذیب کے مرد کا سب سے بہترین وسیلہ لذت ہے۔مغربی مرد سماج کی عورت سے پوری آزادی سے لذت اٹھانا چاہتا ہے اس لئے عورت کی آزادی کے نعروں کی آڑ میں وہ عورت کو اس کے لباس اور اس کی حرمت و کرامت سے باہر لانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لذتیں حاصل کرے اور عورت کو مرد کے لئے زیادہ سے زیادہ تلذذ جنسی کا وسیلہ بنا سکے۔اس راہ میں مرد کی خاصیت تنوع طلبی اور زیادہ سے زیادہ حصول لذت کی خواہش تھی مرد نے بہت زیادہ نئے نئے جنسی تجربے سے لذتیں حاصل کی اور اس تجربہ کی بھینٹ سب سے زیادہ عورت چڑھائی گئی۔البتہ لڑکیوںکے علاوہ،بچوںکے ساتھ سکس،ہم جنس پرستی، حیوانات کے ساتھ بد فعلی یہ سب وہ تجربات تھے جن سے بیسوی صدی کا مرد کبھی نہ بجھنے والی ہوس کی پیاس کے ساتھ نامراد اور تشنہ ہی گزرا۔اس راہ میں سینما کے چھوٹے بڑے پردے بھی اپنے بعض فاخر نشریات کے علاوہ برہنگی جسم کی نمائش اور جنسی آزادی کی ترویج میں پیش پیش رہاسینما کی بڑی انڈسٹری مثلاً ہالی ووڈ کی نشریات پہ ایک طائرانہ نگاہ بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ مخاطب کو جذب کرنے کا سب سے بہترین طریقہ جنسی جذابیت سے استفادہ ہے اور خواتین جس طرح چیزوں کی فروخت میں ایڈ اوراشتہارات کی دنیا کی قربانیاں تھیں اسی طرح سے فلم کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ مخاطبین کو جذب کرنے کے لئے بھی قربان کی جا رہی ہیں۔ مختلف انداز کے میک اپ سے سجے سنور ے خوبصورت فلمی اداکارواں اور ان کی تحریک کنندہ حرکات و سکنات سے استفادہ کرنے کا فن مغربی دنیا کی طرف سے مہذب مشرق کو ملنے والا ایک شوم تحفہ ہے۔ کمپیوٹر گیمز، ٹی وی کے متعدد چینل وغیرہ وغیرہ جبکہ ایک طرف جہاںمصلحین کی دنیا ان چیزوں سے استفادہ کے ذریعہ انسانیت کے رشد و کمال کا خواہاں ہے۔وہیں مغربی تہذیب اس کو فقط اپنی تجارت چمکانے کا ایک وسیلہ سمجھتا ہے ان چیزوں کے ذریعہ وہ صرف اپنے مادی اہداف تک رسائی چاہتا ہے۔بغیر کسی شک و شبہ کے بچے نو جوان اور جوان بھی ابتزالی تہذیب کے مخاطبین کے عنوان سے ان کے محصولات کی قربانیاں ہیں۔
جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی روشنی میں جس طرح سے بے لگام ٹکنالوجی نے انسان کے ماحول طبیعت کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے طوفان سیلاب برف کا پکھلنا جنگلوں کی آگ آب ہوا کی آلودگی جیسی بہت سی مشکلات و تباہیاں پیدا کی ہیں اسی طرح سے عصر حاضر کے پست و ذلیل مغربی تہذیب نے انسان کی پاکیزہ تہذیب واخلاق کے دائرہ میں تباہیاں مچا دی ہیں جو بعد انسانی کے اختلاط اور ایک دوسرے کے وظائف میں دخالت کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم مڈرنیزم کے تسلط سے قبل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا مغربی ممالک کی تاریخ میں بھی کبھی عورت اتنی عریاں اور متاع لذت و ہوس نہیں بنی اس کا لباس اور اس کی نوعیت آج کے لباس اور اس کی نوعیت سے کافی مختلف تھی ۔یہاں ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مغرب کی مبتذل تہذیب صرف مسلمان یا جمہور اسلامی ایران کو نشانہ نہیں بنائے ہوئے ہے بلکہ دنیا کی تمام تہذیبیں اس کے حملوں کے زد پہ ہیں۔
ہندوستانی تہذیب چینی تہذیب امریکہ لاتین کی تہذیب جنوب مشرق ایشیاء کی تہذیب مثلاً اندونزی مالیزی وغیرہ وغیرہ سب ہی اس بحران کے شکار نظر آتے ہیں اور کبھی کبھار بھولے بھٹکے ان ممالک کے عہدہ داران بھی اپنے ہم وطن کو مغربی تہذیب کے حملات سے آگاہ کرتے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔
جمہوری اسلامی ایران میں خواتین کے حالات
جمہوری اسلامی ایران میں خواتین کے حالات کو ایران کے اساسی قوانین ترقیاتی منصوبے اور دستاویز اور عورتوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کے منشور کے رو سے دیکھنا چاہیے ایرانی خواتین کے سماج کی چند خصوصیات اور ان کی موجودگی کے شعبوں کا اجمالی طور پر تذکرہ ہوا ہے۔سماج میں جتنی پاکیزگی اور بہتر معالجہ ہوگا اتنا ہی لوگوں کی شرح زندگی اور اوسط عمر میں اضافہ ہوگا۔
rvr