گزشتہ کچھ عرصہ سے ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال عالمی سطح پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کئی ایسے سروے اور جائزے بھی سامنے آئے ہیںجن میں بتایاگیاہے کہ انسانی حقوق کے معاملے میں ہندوستان لگاتار پیچھے ہوتا جارہا ہے۔عام ہندوستانی کو باوقار زندگی کا حق کجلاہٹ کا شکار ہے تو اقلیتوں، دلتوں، مزدوروں، قبائلیوں، خواتین، بچوںاور معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ منصفانہ سلوک پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے انسانی حقوق کی پامالی اور اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ظاہر ہورہی ہے۔ مسلم خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے مجرمین تک کو جیل سے رہا کر کے ان کی عزت افزائی کی جارہی ہے۔اس کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ بنیاد پرسیاسی رہنمائوں کے اشتعال انگیز بیانات مذہبی اقلیتوں، مسلمانوں اور دیگر کمزور برادریوں کے خلاف ہجومی تشدد کا سبب بن رہے ہیں۔حال کے دنوں میں کئی سیاسی لیڈران کے ایسے بیانات آئے ہیںجن میںمسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے۔
ان معاملات میں حکومت کا رویہ بھی واضح اور دو ٹوک ہونے کے بجائے غیرمبہم اور بہت حد تک اقلیت اور مسلم مخالف نظر آرہا ہے۔ حکومت نہ تو اشتعال انگیزی کرنے والے لیڈروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی مظلوم طبقات کی دادرسی ہی اس کے پیش نظر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتومسلمانو ں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما، اترپردیش کے رکن اسمبلی نند کشور گوجرجیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایسے ہی معاملات پرسماعت کے بعد آج سپریم کورٹ نے دہلی، اترپردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو سخت ترین ہدایت جاری کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اشتعال انگیز بیانات دینے والا چاہے جو بھی ہو،اس کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیے اور پولیس کو کسی کی طرف سے شکایت درج ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے ان معاملات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ ایسے معاملات میں کارروائی کا نہ ہونا یا کارروائی میں ناکامی سپریم کورٹ کی توہین تصور کی جائے گی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ نفرت انگیزاور اشتعال انگیزبیانات دونوں ہی جانب سے یعنی ہندو مسلمان دونوں ہی کی جانب سے دیے جاتے ہیں، تمام معاملات میں منصفانہ کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس کے ایم جوزف نے بجا طور پر کہا ہے کہ 21ویں صدی میں جب ہندوستان کو سیکو لر اور روادار معاشرہ ہوناچاہیے، مذہب کے نام پر سماجی تانے بانے کو تباہ کیاجارہاہے، ہم نے ’ایشور‘ کو اتنا چھوٹا کردیا ہے کہ اس کے نام پر جھگڑے اور فسادات ہورہے ہیں۔
ہری دوار میں ہونے والی دھرم سنسد میں زہر افشانی کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے سخت رویہ کا اظہار کرتے ہوئے کئی احکامات جاری کیے تھے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں پڑااور انتظامیہ غیر فعال ہی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شرپسند سیاست دانوں کے سینے کے بند کھل گئے اور انہوں نے زہر افشانی تیز کردی۔ اسی مہینہ میں دہلی کے سندر نگری میں وشو ہندو پریشد کی ایک تقریب میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ارکان قانون سازیہ نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے مجمع کو مسلمانوں کے معاشی و تجارتی بائیکاٹ اوران کے قتل تک کیلئے اکسایا۔حتیٰ کہ تقریر کے دوران واضح طور پر یہ اشارہ بھی دیا کہ دہلی فسادات میں وہ گلے گلے تک ملوث تھے۔ پرویش ورمایہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ان (مسلمانوں) کا دماغ اور طبیعت ٹھیک کرنی ہے تو ان کا مکمل بائیکاٹ کر دو، نہ خریدوفروخت کرو نہ مزدور دو۔ وشو ہندوپریشد کی اس تقریب کے دوران سیکورٹی کے نام پر دہلی پولیس کے کئی اعلیٰ حکام بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔
اسی زہرافشانی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ دنوں ہریانہ کے گڑگائوں میں واقع ایک مسجدپر شرپسندوں کا گروہ حملہ آور ہوگیا۔ نمازیوں کو مارا پیٹا اور مسجد کو باہر سے بندکرکے فرار ہوگیا۔ کرناٹک کی ایک مسجد میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ایسے واقعات پورے ملک میں تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں اورا ن کی اصل وجہ سیاست دانوں کے فرقہ وارانہ بنیادپر دیے جانے والے اشتعال انگیز بیانات ہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے صورتحال کا درست ادراک کرتے ہوئے اشتعال انگیزبیانات کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی ہے اور یہ بھی واضح کردیا کہ پولیس کسی شکایت کا انتظار کرنے کے بجائے خود آگے بڑھے اور زہر پھیلانے والوں کے خلاف مقدمہ قائم کرے۔ اب دیکھنا ہے کہ انتظامیہ اور پولیس اس معاملے میں کتنا سرگرم ہوتی ہے اور سیاسی لیڈروں کے زہرآلود بیانات کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے۔اگر اب بھی انتظامیہ اور پولیس سرگرم نہیں ہوئی تو انسانی حقوق بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے معاملہ میں ہندوستان کو عالمی سطح پر مزید شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
[email protected]
زہر آلود بیانات پر سپریم کورٹ کی واضح ہدایت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS