سنجے رائے
حال ہی میں شائع ہونے والی گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ میں ہندوستان کے 107 ویں نمبر پر آنے کی خبر پر ہنگامہ مچا ہواہے۔ یہ لگاتار دوسراسال ہے جب رپورٹ میں ہندوستان کو ہنگرانڈیکس کی بنیاد پر سب سے نچلے پائیدان پر رکھا گیا ہے۔ اس انڈیکس میں ہندوستان کی حالت دیوالیہ پن کے کگار پر کھڑے اور تاریخی قدرتی آفت سیلاب سے نبردآزما پاکستان، دیوالیہ ہوچکے پڑوسی ملک سری لنکا، نیپال اوربنگلہ دیش سے بھی بدتر ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں سب سے بہتر حالت سری لنکا کی ہے۔ سری لنکا کو اس انڈیکس میں 64واں مقام دیاگیاہے۔
بچوں میں عدم تغذیہ کی صورت حال کو دیکھیں تو ہندوستان میں اس بار اسے 19.3 فیصد پایا گیاہے جبکہ 2014میں یہ 15.1 فیصد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان اس پیمانے پر اورپچھڑاہے۔وہیں اگر کل عدم تغذیہ کے پیمانے کی بات کی جائے تو وہ بھی کافی بڑھی ہے۔ یہ پیمانہ ملک کی کل آبادی کتناکھانا کھانے کی کمی کا سامناکر رہی ہے، اس کو دکھاتا ہے۔ انڈیکس کے مطابق، ہندوستان میں 2018 سے 2020 کے درمیان جہاں یہ 14.6 فیصدتھا وہیں 2019 سے 2021 کے بیچ یہ بڑھ کر 16.3 فیصد ہو گیا ہے۔ اس کے مطابق، دنیا میں 82.8 کروڑ لوگ عدم تغذیہ کا سامناکر رہے ہیں۔ اس میں سے 22.4 کروڑ لوگ اکیلے ہندوستان میں ہیں۔ پہلے کی طرح اس بار بھی ہندوستان نے رپورٹ کو خارج کر دیا ہے۔ سرکارنے رپورٹ پرسخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش ہے اور یہ انڈیکس بھوک کو ناپنے کا غلط طریقہ ہے۔ ہندوستان کو 107 ویں پائیدان پر رکھے جانے کے بعد حکومت ہند کے خواتین واطفال کے فروغ کی وزارت نے بیان جاری کیاہے۔ وزارت نے کہا ہے کہ ہندوستان کی شبیہ مسلسل خراب کیے جانے کی کوشش ایک بار پھر نظر آ رہی ہے۔ یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک ملک کی شکل میں ہندوستان اپنی آبادی کی فوڈ سیکورٹی اور غذائیت کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتاہے۔ ہندوستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہرسال جاری ہونے والی گلوبل ہنگرانڈیکس میں غلط اطلاعات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کون ہیں وہ لوگ جو ہندوستان کو بھوکوں اور عدم تغذیہ والے ملک کی شکل میں مشتہر کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کو اس کی تردید کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہاہے؟ گلوبل ہنگر انڈیکس کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے کئی ملکوں میں عالمی وبا کورونا کے وقت ٹیکوں، ادویہ اور دیگر اشیا کی سپلائی میں ہندوستان کے رول کی کھلے دل سے تعرف کی گئی ہے۔ افغانستان کو ہندوستان نے گیہوں دیا، اس کی تعریف کی گئی۔ سری لنکا کو اقتصادی بحران سے نمٹنے میں ہندوستان نے مدد کی، پوری دنیاجانتی ہے۔ نیپال میں کچھ سال پہلے آئے زلزلے سے ہوئی تباہی سے ابھرنے میں ہندوستان کا رول پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ آج کا یہ ہندوستان بھوکاہے، یہ بات حکومت ہند کو کیا کسی عام شہری کو بھی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔
متذکرہ سبھی سوالوں کے جواب جاننے کے لیے سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آخر گلوبل ہنگر رپورٹ کو کس نے شائع کیا ہے اور عالمی سطح پر اس کی کیا ویلیڈٹی ہے؟ گلوبل ہنگرانڈیکس2022 آئرلینڈ اور جرمنی کے غیرسرکاری ادارے کنسرن ورلڈوائڈ اور وِلٹ ہنگرہلف نے جاری کی ہے۔ اس کی تشکیل 2006میں کی گئی تھی۔ شروع میں امریکہ میں واقع فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور جرمنی میں واقع وِلٹ ہنگرہلف کے ذریعہ شائع کی گئی تھی۔ 2007 میں آئرش این جی او کنسرن ورلڈوائڈ بھی اس کا معاون پبلشر بن گیا۔ اس کے بعد عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ آرگنائزیشن نے منصوبے میں اپنی حصہ داری ختم کردی۔ دونوں تنظیموں کا کہناہے کہ گلوبل ہنگرانڈیکس رپورٹ میں بھوک کے کئی پہلوؤں کی بنیاد پر اعداد و شمار پر مبنی اسکور بتا کر قومی، علاقائی اور عالمی بھوک کا ایک ہمہ جہت حل پیش کیا گیا ہے۔ اس اسکور کی بنیاد پر یہ ملکوں کو رینک کرتا ہے اور گزشتہ برسوں کے نتائج کے ساتھ موجودہ اسکور کا تقابل کرتا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کی کوئی عالمی ویلیڈٹی نہیں ہے۔
ہندوستان نے کہاہے کہ دونوں تنظیموں نے جو انڈیکس جاری کیا ہے، اس میں بھوک کو ناپنے کا غلط طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ بھوک کو ناپنے کے 4 طریقوں میں سے 3 طریقے صرف بچوں کی صحت سے متعلق ہیں اور پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کرسکتے ہیں۔ بتا دیں کہ گلوبل ہنگرانڈیکس کی رینکنگ کل اسکور پر دی جاتی ہے۔ یہ اسکورخاص طورپر 4 اشاروں کی بنیاد پر ناپا جاتا ہے جن میں عدم تغذیہ، بچوں میں بھیانک عدم تغذیہ، بچوں کے فروغ میں رکاوٹ اور بچوں کی شرح اموات ہے۔ یہ سروے موڈیول فوڈ اور فوڈ اینڈ ایگریکلچرآرگنائزیشن کے فوڈ سیکورٹی تجربے کے پیمانے پر مبنی ہے۔ اس سروے کو گیلپ ورلڈپول نے پورا کیاہے جو کہ 8 سوالوں پر مبنی ایک عوامی سروے ہے۔ کل آبادی کی عدم تغذیہ کا تناسب اس انڈیکس کا چوتھا اور سب سے اہم ناپنے کا طریقہ ہے۔ سروے میں صرف ایک تین ہزار کا ایک چھوٹا سمپل سائز لیا گیا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ 125 کروڑ کی آبادی والے جس ملک میں 10 ہزار کی آبادی والے ایک دو نہیں، ہزاروں گاؤں آباد ہیں، 10 لاکھ کی آبادی والے سیکڑوں شہر ہیں، اس ملک کے 3000 لوگوں کا آنکڑا اٹھا کر آئرلینڈ اور جرمنی کی دو سرکاری تنظیمیں، ہندوستان کو ہنکرانڈیکس کی بنیاد پر افغانستان، سری لنکا، نیپال اور پاکستان سے بھی بدترصورت حال میں بتا رہی ہیں۔ اس کے ذریعے ہندوستان جیسے ملک کے عدم تغذیہ کی صورت حال کا پتہ لگانا نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ پوری طرح غیرسائنسی، غیر اخلاقی اور منفی جذبات سے متاثرہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رپورٹ نہ صرف زمینی حقیقت سے دور ہے بلکہ اس میں جان بوجھ کر ان کوششوں کو نظرانداز کرنے کی ہے جو حکوت اپنے عوام کو فوڈسیکورٹی مہیا کرا رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ہندوستان کے فی کس خوراک توانائی کی دستیابی ہر سال بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں اہم زراعتی اشیا کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے کم تغذیہ کی سطح میں اضافہ ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ حکومت نے فوڈسیکورٹی یقینی بنانے کے لیے کئی قدم اٹھائے ہیں جن میں دنیا کا سب سے بڑا فوڈسیکورٹی پروگرام شامل ہے۔ کووڈ-19 وبا کے دوران اقتصادی مشکلات پیداہونے کی وجہ سے حکومت مارچ 2020 سے نیشنل فوڈسیکورٹی کے تحت 80 کروڑ مستفیدین کو مفت اناج دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی منصوبوں جیسے وزیراعظم غریب کلیان انّیوجنا، آنگن واڑی، وزیراعظم ماتری وندن یوجنا کے ذریعے ملک میں عدم تغذیہ اور کم تغذیہ کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی بھوک سے مرنے نہ پائے، اس کے لیے پچھلی یوپی اے حکومت نے فوڈ سیکورٹی قانون نافذ کیا ہے۔ ان سب منصوبوں کے باوجود یہ تلخ حقیقت ہے کہ حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود ہندوستان میں بھوک اور عدم تغذیہ اہم مسئلہ ہیں لیکن اتنی بری حالت توقطعی نہیںہے کہ پاکستان، افغانستان، سری لنکا اور نیپال سے بھی ہندوستان کو نیچے رکھا جائے، لیکن رپورٹ کو خارج کر کے ہم حقیقت سے منہ نہیںموڑ سکتے۔ حکومتی منصوبوں کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کرنے کے معاملے آئے دن اخبارات کی سرخیاں بنتے ہیں، ضرورت ہے کہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں اس پر توجہ دیں۔ ان منصوبوں کو زمینی سطح پرصحیح طریقے سے نافذ کیاجائے۔ کوئی بھی ضرورتمند ان منصوبوں سے محروم نہ رہنے پائے، ایسا کرکے ہندوستان اپنے یہاں بھوک اور عدم تغذیہ کے مسئلے کا حل نکال سکتا ہے۔ جہاں تک یوروپ کی ان دوغیر سرکاری تنظیموںکا سوال ہے، اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے، یہ رپورٹ منفی جذبات سے متاثر منفی تشہیر ہے۔ اس طرح کی منفی رپورٹ کے سہارے مغربی ممالک اپنے مفادات پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ یوروپ بجلی کے بحران سے نبردآزماہے۔ انگلینڈ میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے سے لوگ بجلی کا بل تک جمع نہیں کرپارہے ہیں۔ ہندوستان سے گیہوں، چاول خریدنے والے بھی ہمیں بھکمرا کہہ رہے ہیں، اسے شاید ہی کوئی ہندوستانی قبول کرے۔ وقت کی مانگ یہ ہے کہ مغربی ممالک کی تنظیموں کے اس طرح کی سیاست سے متاثر منفی تشہیر سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کو اپنا ایک متبادل تیار کرنا چاہیے اور ایسی تنظیموں کی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ہی مناسب ہی ہوگا۔ ہندوستان کے میڈیا کے نظام کو بھی اس رپورٹ کے پیچھے اصل مقصد کا پتہ لگاکر ان تنظیموں کی اصلیت کا پردہ فاش کرناچاہیے۔ ہندوستان کے میڈیا کو مغربی ممالک سے آئی رپورٹوں اور خبروں پر انحصار کے چکرویوہ کو توڑنے کاٹھوس حل تلاش کرناہوگا۔n
(مضمون نگار ہندی دینک ’آج‘ کے نیشنل بیورو چیف ہیں)
[email protected]