عبدالماجد نظامی
ابھی چند مہینے قبل کی بات ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے حیدرآباد میں منعقد ہونے والی اپنی پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا تھا کہ ہندوؤں کے علاوہ باقی مذہبی طبقوں کے پسماندہ لوگوں کی بہبودی کی طرف بھی توجہ مبذول کی جائے۔ اس اشارہ کا صاف مطلب یہ سمجھا گیا تھا کہ مسلمانوں میں سے پسماندہ طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ نریندر مودی کا یہ خطاب اس پس منظر میں ہوا تھا کہ رام پور اور اعظم گڑھ کے اندر لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی انتخابات کرائے گئے تھے اور ان دونوں سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کامیابی ملی تھی۔ بی جے پی کے اپنے تجزیہ کے مطابق ان ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کے پسماندہ طبقوں نے ان کے حق میں ووٹ ڈالے تھے کیونکہ ان دونوں حلقوں میں مسلمانوں کی خاصی تعداد موجود ہے اور ان کے تعاون کے بغیر اس قسم کی فتح کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں بھی پسماندہ مسلمانوں کا ووٹ انہیں ملا تھا۔ ان تجربات کی روشنی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ ایسے وقت میں جبکہ ان کا ہندو ووٹ بینک پوری طرح سے محفوظ ہوگیا ہے اور نیشنلزم و ہندوتو کی آئیڈیالوجی بہتر نتائج پیش کر رہی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ دوسرے مذہبی طبقوں کے ان لوگوں کے ووٹوں کو محفوظ کیا جائے جو اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہیں دے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے خطاب کے بعد سے ہی مسلمانوں کے پسماندہ طبقوں کو لگاتار رجھانے اور انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی سے قریب کرنے کے وسائل اختیار کیے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کی سیاست میں اسی بدلاؤ کا نتیجہ تھا کہ تاریخ میں پہلی بار خاص طور سے پسماندہ مسلمانوں کی ایک میٹنگ 16اکتوبر کو لکھنؤ میں منعقد کی گئی جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر اور ریاست کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک نے پسماندہ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے اب تک آپ کا استعمال صرف اپنے فائدہ کے لیے کیا ہے اور اس کے بعد کبھی مڑ کر آپ کے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی ہے۔ لیکن نریندر مودی کی سرکار باقی پارٹیوں سے مختلف ہوگی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس اقدام کو سنگھ پریوار کی منظوری بھی حاصل ہے۔ سنگھ نے تو کئی برسوں سے باضابطہ ’’مسلم راشٹریہ منچ‘‘ نامی تنظیم قائم کر رکھی ہے جس کا بنیادی مقصد ہی مسلمانوں خاص طور سے ان کے پسماندہ طبقات کو جوڑنا اور انہیں اپنی آئیڈیالوجی سے قریب کرنا ہے۔ اسی تنظیم کے نیشنل کنوینر گریش جویال کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ’’مسلم خواتین اور پسماندہ طبقہ اپنے حقوق کو سمجھیں، اپنی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے اور ملک کے مسائل کو حل کرنے کے قابل بنیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’پسماندہ مسلمانوں پر توجہ مبذول کرنے سے بی جے پی کا فائدہ خواہ ہو یا نہ ہو لیکن ملک کو فائدہ ضرور پہنچے گا۔‘‘ البتہ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے پروفیسر انیس انصاری نے انگریزی اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘کو جو اپنا بیان دیا ہے، اس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی منشا کچھ اور ہے۔ پروفیسر انصاری کا تجزیہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا دائرہ بڑھانے کی کوشش اس لیے کر رہی ہے کیونکہ2024کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہار اور اترپردیش کا ووٹ بہت اہم ہوگا جہاں پسماندہ مسلمانوں کی اکثریت بستی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی یہ کوشش2014کے بعد سے ہی جاری تھی لیکن اب اس میں ایک بنیادی بدلاؤ پیدا ہوا ہے۔ پہلے آر ایس ایس مسلمانوں کے اشرف طبقہ کے مسلمانوں کے توسط سے ہی پسماندہ طبقوں کو جوڑنے کی سعی کرتا تھا لیکن اب پسماندہ طبقہ کے لیڈران سے ہی رابطہ قائم کیا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں بی جے پی کچھ عملی اقدامات بھی کرتی نظر آ رہی ہے۔ مثال کے طور پر جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے گوجر لیڈر غلام علی کھٹانا کو پارٹی کی حمایت سے راجیہ سبھا بھیجا جانا۔ اسی طرح اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد پسماندہ مسلم چہرہ کے طور پر دانش آزاد انصاری کو یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار میں بطور وزیر شامل کرنا اسی کوشش کا حصہ ہے جس کے تحت بی جے پی رو بہ عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پسماندہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے کہ بی جے پی اس قدر ان کے ووٹ کے لیے کوشاں ہے؟ تو اس سلسلہ میں حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی لیکن1998میں پسماندہ محاذ قائم کرنے والے اور سابق راجیہ سبھا ممبر علی انور انصاری کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں میں اشرف طبقہ کی تعداد بیس فیصد ہے اور باقی اسّی فیصد پسماندہ مسلمان ہیں جنہیں تعلیم اور ترقی کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ البتہ آزاد دانشوران مانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد تقریباً پندرہ فیصد مسلمان اشرف طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ باقی آبادی پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ علی انور انصاری کا یہ دعویٰ درست بھی ہو۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا سنگھ اور بی جے پی کی یقین دہانی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس کو اس تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ مسلم کمیونٹی کو تقسیم کرکے انہیں مزید کمزور کرنے اور سنگھ کے رحم و کرم پر رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کی عددی قوت کو منتشر کر دیا جائے اور انہیں باہم دست و گریباں رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ پسماندہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات خواہ کسی پارٹی کی طرف سے کیے جائیں، قابل تعریف ہیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو لگاتار حاشیہ پر ڈالنے کی جو شرارت انگیز مہم جاری ہے اور ان کے اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزراء تک کرتے نظر آتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مقصد کمیونٹی کو قوت بخشنا نہیں بلکہ انہیں مجبور و بے کس بنانے کی تیاری چل رہی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]