دنیا کی بدلتی صورتحال جاننے کے لیے مختلف ادارے کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی رپورٹوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رپورٹوں کا انتظار دنیا بھر کے اخبار و رسائل کو رہتا ہے۔ ان اداروں میں بھوک اور لوگوںکو ملنے والی خوراک کی بنیاد پر دنیا اوردنیا بھر کے ممالک کے بارے میں گلوبل ہنگر انڈیکس کام کرتا ہے۔ یہ پورے سال ہر ملک اور ہر علاقے کے خطے میں خوراک کی فراہمی پر نظر رکھتا ہے، پھر اکتوبر میں رپورٹ جاری کرتا ہے۔ اس سال کی رپورٹ اس نے جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پریہ جاننے اورسمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کس ملک میں لوگوں کے حالات گزشتہ ایک برس میں بہترہوئے ہیں اور کس ملک میں حالات خراب ہوئے ہیں۔ جہاں تک وطن عزیز ہندوستان کی بات ہے، 2022 کے گلوبل ہنگرانڈیکس کی رپورٹ پر اگراعتبار کیا جائے، تو اس کے لیے تشویش کی بات ہے، اس لیے کہ 121 ممالک میں وہ 107 ویں نمبرپر ہے جبکہ 2021 کی رپورٹ میں وہ 101 ویں مقام پر تھا یعنی اس سال وہ 6 رینک اور پیچھے چلا گیا۔ ایسا کیوں ہوا، اس پرغورکیا جانا چاہیے تاکہ اصل حالات کو سمجھنے میں مدد ملے، ان کمیوں کو ٹھیک کیا جاسکے جو سرکار کی کوششوں کے باوجود رہ گئی ہیں۔ کورونا کی آمد کے پہلے سے سرکارکی یہ کوشش رہی ہے کہ غریب اورپسماندہ لوگوں کو خوراک ملتی رہے، بھوک ان کے لیے تکلیف اور موت کی وجہ نہ بنے مگر کورونا وائرس سے پیدا حالات کے مدنظر 26 مارچ، 2020 کو ’پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا‘ کا اعلان اسی لیے کیا گیا تھا تاکہ غریب بھوک سے نہ مرے۔ اس کے تحت 80 کروڑ لوگ مستفید ہو رہے ہیں یعنی ملک کی تقریباً 60 فیصد آبادی اس یوجنا سے مستفید ہو رہی ہے۔ حکومت نے غریبوں کے لیے یہ مدد اس کے باوجود جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ ملک کا امپورٹ اس کے ایکسپورٹ کے مقابلے بڑھا ہوا ہے، ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے، اس ہفتے کچھ بہتر پوزیشن رہی ہے مگر گزشتہ کئی ہفتوں سے زرمبادلہ مسلسل کم ہو رہا تھا۔ ایسی صورت میں سرکار کے لیے اقتصادی بوجھ برداشت کرنا آسان نہیں مگر وہ جانتی ہے کہ لوگوں کو خوراک فراہم کرتے رہنا نہایت ضروری ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک کے غریبوں میں منفی سوچ پیدا ہوگی، اس کے منفی اثرات ملک پر پڑیں گے، اس کی شبیہ خراب ہوگی مگر سرکار کی ان کوششوں کے باوجود گزشتہ برس کے مقابلے اس برس گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی پوزیشن کیوں خراب ہوگئی، وہ کیوں گزشتہ برس کی 101 ویں پوزیشن کے مقابلے اس سال 107 نمبر پر آ گیا، یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔ حیرت اس بات پر زیادہ ہے کہ سری لنکا کے حالات سے دنیا واقف ہے، اس کی اقتصادی بدحالی کسی سے چھپی نہیں ہے اور یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ اس کی مصیبت کی گھڑی میں سب سے پہلے مدد کا ہاتھ بڑھانے والا ملک ہندوستان ہی تھا مگر گلوبل ہنگر انڈیکس میں اس کی بہتر پوزیشن دکھائی گئی ہے۔ اس انڈیکس میں سری لنکا کی 64 ویں پوزیشن ہے یعنی ہندوستان اور سری لنکا کی پوزیشن میں 43 رینک کا فرق ہے اور یہ کم بڑا فرق نہیں ہے۔
حیرت گلوبل ہنگر انڈیکس میں نیپال اور پاکستان کی پوزیشن پر بھی ہے۔ دونوں ملک کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے۔ ہندوستان اقتصادی طور پر دنیا کا 5 واں بڑا ملک ہے، اس کے کہیں آس پاس یہ دونوںممالک نہیں ہیں۔ اقتصادی طور پرپاکستان ٹاپ 40 اور نیپال ٹاپ 100ملکوں میں شامل نہیں ہے مگرگلوبل ہنگر انڈیکس میں نیپال 81 ویں اور پاکستان 99 ویں نمبرپرہے۔ اس انڈیکس میں بنگلہ دیش 84 ویں نمبرپرہے۔ اس کی اقتصادی حالت نیپال اورپاکستان سے بہترہے، چنانچہ اس کی پوزیشن اگر پاکستان کے مقابلے اچھی اور نیپال کے قریب ہے تویہ حیرت کی بات نہیں ہے، البتہ تعجب اس بات پر ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں وہ کیسے ہمارے ملک سے آگے نکل گیا۔ گزشتہ برسوںمیں بنگلہ دیش نے ترقی کی ہے، اس کی اقتصادی ترقی کئی ملکوں کے لیے مثالی سمجھی جاتی ہے مگراس کے باوجود وہ ہندوستان سے بہت پیچھے ہے۔ ہندوستان کا شماردنیا کی ٹاپ 5 اقتصادیات میں ہوتا ہے، بنگلہ دیش اقتصادی طورپر ٹاپ 30 ملکوں میں بھی ابھی تک شامل نہیں ہو سکا ہے، اس لیے امید کی جاتی ہے کہ ہندوستان کی سرکار یہ سمجھنے کی کوشش کرے گی کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہمارا ملک آخر سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش سے پچھڑکیسے گیا، امید یہ بھی کی جاتی ہے کہ حالات بہتر بنانے میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔
[email protected]
گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS