(علامہ محمد عزیر شمس کی وفات حسرت آیات! (1956-2022ء))
از قلم رضوان ریاضی
(صدر کل ہند جمعیت اہل حدیث کونسل)
15 اکتوبر 2022ء کو سعودی عرب کے وقت 8 بجے رات یہ اندوہناک خبر آئی کہ علمی وتحقیقی دنیا کے بے تاج بادشاہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے علمی سرمایہ پر ہر گوشے میں پی ایچ ڈی جناب علامہ محمد عزیر شمس کا انتقال ہو گیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے آمین۔
میں نے پہلی دفعہ مولانا مرحوم کے علمی کاموں کے حوالے سے جامعہ دار السلام عمرآباد کےتعلیمی ایام میں سنا تھا۔ ان دنوں میں عربی سوم کا طالب علم تھا اور مولانا مرحوم کے ایک قریبی رشتے دار اور میرے استاذ مکرم شیخ عزیر مدنی حفظہ اللہ ثانویہ میں بھی پڑھاتے تھے اور کلیہ میں بڑے طلبہ کو تخریج پڑھایا کرتے تھے۔ انھی کی زبان سے ہم طلبہ بارہا مولانا محمد عزیر شمس کا نام اور ان کے علمی کاموں کے بارے میں سنا کرتے تھے۔
1999 میں جب میں سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کے مکتبہ دار الداعی میں بحیثیت ملازم پہنچا تو وہاں آٹھ ماہ بعد میری بحالی بحث وتحقیق کے ڈیپارٹمنٹ میں ہوگئی۔ اب کیا تھا دنیا جہاں کی علمی شخصیات سے رابطے شروع ہو گئے۔ جب میں نے سن 2002 میں حج کیا تو مکہ مکرمہ میں کئی ایک دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ برادر شمس الہدی سلفی بسنت پوری کی معیت میں جناب مولانا محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے گھر پر ملاقات کی غرض سے پہنچا۔ مولانا نے بڑے ہی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا اور چائے وائے کے بعد علمی باتیں شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد مولانا مرحوم سے ملاقاتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب بھی عمرہ کے لیے جاتا ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ جب میری کتاب (غیرت کا فقدان قرآن وسنت کی روشنی میں) منظر عام پر آئی تو مولانا نے کافی سراہا اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
جب بھی مولانا مرحوم کی مجلس میں بیٹھنے کا موقع ملا ان کی گفتگو کا محور علمی ہوا کرتا۔ گھر کے بیشتر حصوں میں کتابوں کا انبار لگا ہوتا تھا۔ میرے سینئر ساتھی ڈاکٹر شفاء اللہ ریاضی جو آج بھی مکہ مکرمہ میں ہیں، بھی کئی دفعہ موصوف مرحوم کے گھر میرے ساتھ گئے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی لگتا تھا کہ علم وفن کے ماہر کے سامنے ہم لوگ بیٹھے ہیں۔گفتگو کا انداز اس قدر محققانہ ہوتا کہ سن کر ہی ان کی قابلیت کا اندازہ ہو جایا کرتا تھا۔ اسلاف میں سے جب کسی محدث یا مفسر یا فقیہ کا نام دوران کلام آتا تو اس کی تاریخ وفات بھی بولتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتے۔ اس قدر مدلل کلام کرتے کہ ہم لوگ ان کی علمی قابلیت پر رشک کرتے۔
ایک مرتبہ بات بات میں انھوں نے بتلایا کہ علمی وتحقیقی کام کرنے والے اگر کسی ادارے کے اشارے پر اور اس کے ماتحت رہ کر کام کریں تو اس تحقیق میں وہ جان باقی نہیں رہتی جو بندہ خود کفیل ہو کر خود اپنی دلچسپی سے کام کرتا ہے۔ انھوں نے مجھے بتلایا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رح نے مجھے بلایا اور مجھے ایک عظیم معاوضے کے عوض میں ایک تحقیقی کام کرنے کی پیشکش کی مگر میں نے اسے اس لئے ٹھکرا دیا کیونکہ مکلف کیے ہوئے کام میں اور خود سے انتخاب کیے ہوئے کام میں بہت فرق ہوتا ہے۔
مولانا مرحوم نے کبھی بھی کسی کے یہاں ملازمت میں رہ کر کام نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ پراجیکٹ کی شکل میں کام کیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نوکری یا سروس پرانی غلامی کی نئی زنجیر ہوا کرتی ہے اسی لیے میں پراجیکٹ پر ہی کام کرتا ہوں۔
مولانا مرحوم خاص کر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کے بارے میں چلتا پھرتا ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔
میں نے اپنی زندگی میں تحقیقی کام کرنے والوں میں ان سے زیادہ قابل کسی کو بھی نہیں دیکھا ہے۔
مولانا مرحوم رفاہی کاموں سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ علمی کاموں کو ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ رفاہی کاموں کا دائرہ الگ ہوا کرتا ہے اور علمی کاموں کا دائرہ بالکل مختلف۔ اس لیے علمی کام انجام دینے والوں کو بالکل مناسب نہیں کہ وہ رفاہی کاموں میں حصہ لیں۔
میرے علمی کاموں سے مولانا مرحوم کافی خوش رہتے تھے اور کافی تجرباتی تجاویز دیا کرتے تھے۔
آج جبکہ میں ممبئی میں ہوں اور ہفتہ دس دن میں ان سے میری ملاقات بھی ہونی تھی کہ اچانک ان کے انتقال کی خبر بجلی بن کر مجھ پر اور پورے اہل علم طبقہ پر گری۔ مگر موت ایک ایسی کڑوی حقیقت ہے کہ اس پر کچھ کہنا قضا و قدر پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے اس لیے ہم بھی وہی کہیں گے جو پیارے حبیب مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کی وفات پر کہا تھا
“إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون».
مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شیخ مرحوم ابھی ہمارے درمیان ہی میں ہیں، ہمیں داغ مفارقت نہیں دیے ہیں
*عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے*
*زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں ہے*
*تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے*
*مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے۔*
آہ!
کیا لکھا جائے اور کیسے دل پر قابو رکھا جائے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!!
(رات 2 بجے یہ سب کانپتے ہوئے لکھا)