عمیر کوٹی ندوی
پیغمبر اسلامؐ کے اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہونے اور اعلیٰ کردار کے مالک ہونے کی اہم ترین گواہی تو اس ہستی نے دی ہے جو پورے جہان کو بنانے والی، پیدا کرنے والی ہے’’اور بیشک تم(محمدؐ) اَخلاق کے بڑے مرتبہ پر ہو‘‘(القلم:4)۔ یہ گواہی انہوں نے بھی دی ہے جن کے سامنے آپ نے آنکھیں کھولیں اور جن کے سامنے آپ کا بچپن گزرا اور جوانی پروان چڑھی۔ ان لوگوں نے آپ کی خوبیوں کی وجہ سے آپ کو مختلف القاب سے پکارنا شروع کیا۔ سب سے نمایاں القاب میں سے ایک ’صادق‘یعنی سچ بولنے والا ہے۔ محمدؐ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، پچپن میں بھی نہیں، جب بچے کھیل کھیل میں یا مذاق میں عام طور پر جھوٹ بول جاتے ہیں۔ پورے مکہ میں بچے، جوان، بوڑھے کسی کا ایک بھی جملہ یا بات ایسی نہیں ملتی جس میں کسی نے بھی محمدؐ کے بارے میں مذاق میں ہی سہی جھوٹ بولتے دیکھنے یا سننے کی بات کہی ہو۔ مکہ والوں میں سے ہی ایک شخص نضر بن حارث ہیں، ان دنوں میں جب محمدؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے محمدؐ کے سچے ہونے کی گواہی دی۔ انہوں نے تمام قریش کو مخاطب کرکے یہ اعلان کیا کہ ’’محمدؐ تم میں ایک چھوٹا لڑکا تھا، تم میں پلابڑھا، تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت کا مالک ہے، تم میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے، اور تم میں سے سب سے زیادہ امین ہیــ‘‘ (الشفاء بتعریف المصطفیٰؐ ازقاضی عیاض- باب 2، فصل 20: عدلہ وامانتہؐ)۔
نضر بن حارث نے محمدؐ کے امین ہونے کی بھی گواہی دی ’’ اور تم میں سے سب سے زیادہ امین ہے‘‘۔ یہ محمدؐ کو دیا جانے والا دوسرا اہم ترین لقب’امین‘ہے۔ محمدؐ کی جوانی میں ان کی امانت داری بہت مشہور تھی۔ اسی وجہ سے مکہ کے لوگ انہیں امین کہتے تھے۔ ایک موقع پر جب خانہ کعبہ کو دوبارہ بنانے کا کام چل رہا تھا۔ حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کی باری آئی۔ سبھی لوگ اس مبارک کام کو اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتے تھے۔ قریب تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر تلوار نکال لیں۔ بات کسی طرح سے بنتی نہیں دکھ رہی تھی اور اس لئے آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ پھر یہ طے ہوا کہ صبح کو جو سب سے پہلے کعبہ کی حد میں داخل ہوگا اس سے اس معاملہ میں فیصلہ کرائیں گے۔ اس کے مطابق سرداران قریش سب سے پہلے آنے والے کا انتظار کر رہے تھے۔ تب ہی انہوں نے محمدؐ کوآتے دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا ’’ھٰذَاالاَمِینُْ‘‘ یہ تو امین ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ محمدؐ نے جو عمدہ فیصلہ کیا اس سے تمام گروہوں اور لوگوں کی تسلی ہو گئی۔ یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے۔
یہ دونوں لقب’صادق‘ و ’امین‘ اور گواہیاں محمدؐ کے اہم ترین کردار کو بیان کرتی ہیں۔ ایک ایسا دور جس میں لوٹ مار اپنے شباب پر تھی۔ لوگ جھوٹ بول کر، دھوکہ دے کر، چھین کر اور لوٹ کر ایک دوسرے کا مال ہڑپ کر جاتے تھے۔ ایسے دور میں ایسی جگہ یا ایسے فرد کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ لگایئے جہاں لوگوں کا سامان و دولت محفوظ رہے۔ پورے مکہ میں وہ فرد محمدؐ تھے اور وہ گھرتھا محمدؐ کا گھر۔ جب اللہ نے جو پوری کائنات کا بنانے والا اور انسانوں کو پیدا کرنے والا ہے، محمدؐ کو اپنا پیغامبر بنایا اور انہوں نے لوگوں تک اللہ کی بات پہنچانی شروع کی تو لوگ صرف اس وجہ سے محمدؐ کے دشمن بن گئے کہ وہ انہیں ان کے پیدا کرنے والے کی طرف بلا رہے ہیں۔ لیکن اپنی دشمنی کے باوجود لوگ محمدؐ کی خوبیوں اور اخلاق کا انکار نہیں کرسکے۔ اس کے بجائے وہ محمدؐسے دشمنی رکھتے ہوئے بھی اپنی دولت اور قیمتی سامان ان ہی کے پاس رکھواتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ جس وقت مکہ والوں نے محمدؐ کو قتل کرنے کی سازش رچی اور اس نیت سے محمدؐ کے گھر کے دروازے پر جمع ہوئے اس وقت بھی ان ہی مکہ والوں کی امانتیں محمدؐ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔
محمد ؐصرف سچے اور ایماندار ہی نہیں تھے۔ وہ لوگوں کے بہت سارے کام کردیا کرتے۔ بازاروں سے ضرورت مندوں کا سودا لا دیتے۔ غریبوں کی امداد کرتے۔ لوگوں کو قرض دیتے اگر خود کے پاس نہ ہوتا تو دوسروں سے سفارش کرکے انہیں قرض دلوا دیتے۔ قرض نہ ادا کرپانے والوں کے قرض خود ادا کردیتے۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتے۔ یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے۔ بیواؤں کی کفالت کرتے۔ غلاموں کی آزادی کی تدبیریں کرتے۔ کمزور طبقوں کو اونچا اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ محمد نے ہر معاملہ میں اور ہر میدان میں بلند اخلاقی اور بلند کرداری کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہ چیز ہے جو ہر انسان کی ضرورت ہے۔ آدمی خود چاہے جتنا جھوٹ بولے یا معاملات میں چاہے جتنی بے ایمانی کرے لیکن وہ چاہتا ہے دوسرے اس سے سچ بولیں اور اس کے ساتھ ایمانداری کریں۔ جب انسانوں کو پیدا کرنے والی ہستی نے حکم دیا کہ محمدؐ اپنے رشتہ داروں تک اس ہستی کا پیغام پہنچائیں تو آپؐ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر مکہ والوں کو پکار کر جمع کیا۔ تمام قبیلوں کا نام لے لے کر ان کو مخاطب کیا اور ان سے پوچھا کہ ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے ایک لشکر آرہا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے۔ تمام لوگوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹا نہیں پایا ہے‘‘(مسلم)۔
محمدؐ کا یہ نمایاں کردار پورے طور پر لوگوں کے سامنے تھا۔ محمد ؐنے اللہ کے حکم سے جب لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا تو لوگ سچائی کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی باتوں پر توجہ دی۔ کچھ نے ان کی مخالفت کی اور کچھ بری فطرت والے ان کے دشمن بن گئے لیکن کسی نے دشمنی کے باوجود بھی محمدؐ کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی۔ انسان کے کردار کا یہ بلند ترین مقام ہے۔ قرآن مجید میں اسی کی گواہی دی گئی ہے کہ ’اور بیشک تم(محمدؐ) اَخلاق کے بڑے مرتبہ پر ہو‘۔ یہی نہیں بلکہ لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’ تمھارے لیے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘ (الاحزاب:21)۔ محمدؐ نے تمام لوگوں کو بھی چاہے وہ کہیں کے بھی ہوں اور کوئی بھی ہوں اچھا کردار بنانے اور اچھائی و سچائی کو اپنانے کی دعوت دی۔ ایک مشہور سنسکرت جملہ ہے’’ وَسْو دَھیو کْٹْم بَکَمّ‘‘ یعنی ’پوری دنیا ایک خاندان ہے‘جو اپنیشد وغیرہ میں ملتا ہے۔ محمدؐ کے اس فرمان پر غور کریں کہ ’’پوری مخلوق اللہ کاکنبہ ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہی شخص سب سے پیارا ہوگا جواس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے(البیہقی)۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کو بنانے والی ہستی نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑا ہے اور آپس میں انہیں ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ اس ہستی نے انسانوں کی فطرت میں اچھائی اور سچائی کی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ محمدؐ نے فرمایا کہ ’’ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اللہ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے‘‘(ترمذی)۔ اس وقت جب کہ ہر طرف برائی اپنے چرم پر ہے محمدؐ کا یہ کردار لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس سے روشنی حاصل کرنے پر ابھارتا ہے۔
([email protected])