گجرات کے اسمبلی انتخابات

0

گجرات میں سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم جس رفتار سے چل رہی ہے،اس سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات مستقبل قریب میں ہوجائیںگے۔زیادہ امکان ہے کہ اسی سال دسمبر میں ہوجائیں۔کیونکہ 18فروری 2023کو اسمبلی کی میعاد پوری ہونے والی ہے۔ اس سے قبل الیکشن ہونا ضروری ہے، ورنہ صدرراج کی نوبت آجائے گی۔اگراس سے قبل 2017 کے اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو وہ 2مرحلوں میں 9 اور 14دسمبر کو ہوئے تھے۔ اس بار بھی ان ہی تاریخوں سے پہلے یا بعد میں دسمبر میں ہی انتخابات ہوسکتے ہیں۔اسی لیے ایسی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ جلد ہی وہاں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے۔جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی سے کمربستہ نظر آرہی ہیں۔لیڈران کے دورے،جلسے اورانتخابی وعدے جن کیلئے اب مفت ریوڑیوں کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے، جاری ہیں۔کانگریس تو اتنی سرگرم نظر نہیں آرہی ہے، شایداس کے لیڈران پارٹی صدر کے انتخاب اورراہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو ‘ یاترا میں مصروف ہیں۔ صدر کے انتخاب کے بعد اوریاترا ختم ہوتے ہی کانگریس بھی گجرات میں سرگرم ہوجائے گی۔ فی الحال بی جے پی اورعام آدمی پارٹی ریاست میں پوری طرح سرگرم نظر آرہی ہیں۔ایک طرف جہاں وزیراعظم نریندر مودی اورمرکزی وزیرداخلہ امت شاہ، جن کی آبائی ریاست بھی ہے، مسلسل وہاں جارہے ہیں تو دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے کنوینر اوردہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال معمولی معمولی وقفہ سے ریاست کا دورہ کررہے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے سرگرم ہونے سے وہاں کا انتخابی منظرنامہ دلچسپ ہوتا جارہا ہے۔ رائے دہندگان تو خاموش ہیں لیکن ان کی نبض کو ٹٹولنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔حسب سابق ابھی سے میڈیا اورانتخابی ماہرین سیاسی پارٹیوں کی ہارجیت کے اندازے لگانے لگے ہیں۔ان کے اندازوں سے بہت سے رائے دہندگان متاثر ہوکر ووٹ دے دیتے ہیں۔
جب اسمبلی انتخابات کے اعلان سے پہلے ہی گجرات کے شہروں اور گائوں کی سڑکیں اشتہاری بینروں اورپوسٹروں سے بھری ہوئی ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوجائے گا، تب کیا حال ہوگا؟ حالات اورچیلنجز بھی تو کچھ ایسے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو اپنی پوری طاقت جھونکنی پڑرہی ہے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج وزیراعظم اورمرکزی وزیرداخلہ کی آبائی ریاست میں اقتدارکو برقراررکھنے کا ہے، تودوسری طرف ریاست میں 27برسوں سے اقتدارسے باہر رہنے والی کانگریس پھر سے وہاں اقتدارحاصل کرناچاہتی ہے، گزشتہ اسمبلی انتخابات میں وہ اقتدارکی دہلیزکے قریب پہنچ کر پیچھے رہ گئی تھی۔ سابقہ انتخابات میں کانگریس کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے تھا،کوئی تیسری پارٹی ان کے درمیان نہیں تھی، لیکن اس بار حالات بدل گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی اوراسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین کے کودنے سے مقابلہ کہیں سہ رخی تو کہیں چہاررخی ہوسکتا ہے۔ایسے میں کانگریس کیلئے چیلنج دہرا ہوگا۔ادھر دہلی سے جیت کا سلسلہ شروع کرنے، 2ریاستوں دہلی اورپنجاب میں اقتدارحاصل کرنے اورگوا میں کھاتہ کھولنے کے بعدعام آدمی پارٹی کیلئے گجرات کا الیکشن قومی پارٹی کے طورپر ابھرنے کا بہترین موقع ہوگا۔ویسے پارٹی جیتنے کیلئے الیکشن لڑرہی ہے اور بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں ہے، اس نے 20 نشستوں کیلئے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے جبکہ کانگریس امیدواروں کے انتخاب کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے چکی ہے۔
گزشتہ اسمبلی انتخابات میں جہاں بی جے پی کو 16سیٹوں کا نقصان پہنچا تھا تو کانگریس کو اتنی ہی سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا۔کوئی تیسری پارٹی مضبوطی کے ساتھ نہیں ابھری تھی لیکن اس بار حالات کچھ مختلف ہیں۔ بہرحال سابقہ اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وجے روپانی کو برقرار تو رکھا لیکن تقریباً 4سال بعد انہیں ہٹاکربھوپیندرپٹیل کو وزیراعلیٰ بنوادیا۔ سابقہ انتخابات سے اب تک ریاست میں جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے، بی جے پی نے بازی ماری۔لیکن عام آدمی پارٹی اورمجلس اتحاد المسلمین کی مہم سے حالات بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔جیسے جیسے انتخابی مہم زورپکڑے گی،سیاسی پارٹیوں کیلئے چیلنجوں میں اضافہ ہوگا اوررائے دہندگان کے سامنے متبادل بھی بڑھیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS