پنکج چترویدی
اس برسات میں صرف دہلی ہی بچی تھی، باقی چنئی، حیدرآباد، بنگلورو، لکھنؤ، بھوپال، پٹنہ، رانچی- فہرست بہت لمبی ہو جائے گی، مانسون کی تھوڑی سی بوچھار میں ڈوب چکے تھے۔ رخصت ہوتے مانسون میں ایک نچلی سطح پر طوفانی صورت حال کیا بنی، بادل جم کر برسے اور پھر اشتہارات میں یوروپ-امریکہ کو مات دیتے دہلی کی ترقی کے دعوے پانی پانی ہوگئے۔ جدید ترین فن تعمیر کی مثال پرگتی میدان کی سرنگ میں گاڑیاں پھنسی رہیں تو تیز رفتار ٹریفک کے لیے کھمبوں پر کھڑے بارہ پُلا پر گاڑیاں رک گئیں، ای ایم ایس کے کئی راستوں والے پل تو سوئمنگ پول بن گئے۔ بس شہر-سڑک کا نام بدلتے جائیں، کم و بیش یہی صورت حال سارے ملک کے ان شہروں کی ہے جن کو ہم اسمارٹ سٹی بنانا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ملک کے شہروں میں اب برسات خوشی کی نوید لے کر نہیں آتی، یہاں برسات کا مطلب ہے اربوں روپے کی لاگت سے بنائے گئے فلائی اوور ہوں یا انڈر پاس یا پھر چھ لین والی سڑکیں، ہر جگہ اتنا پانی ہوتا ہے کہ زندگی ہی ٹھپ ہو جائے۔ بدقسمتی ہے کہ شہروں میں ہر انسان جا بجا بھرے ہوئے پانی سے بچ کر بس اپنے مقام پر پہنچنا چاہتا ہے لیکن وہ سوال نہیں کرتا کہ آخر ایسا کیوں اور کب تک؟
بات صرف میٹرو پولیٹن شہروں کی ہی نہیں ہے یہ تو اب گورکھپور، بلیا، جبل پور یا بلاسپور جیسے درمیانی شہروں میں بھی ہو رہا ہے کہ تھوڑی سی برسات یا آندھی چلے تو تمام بنیادی سہولتیں زمین پر آجاتی ہیں۔ جب دہلی کی حکومت ہائی کورٹ کے احکامات کی پروا نہیں کرتی اور ہائی کورٹ بھی اپنے احکامات کی نافرمانی پر خاموش رہتا ہے تو ظاہر ہے کہ عام آدمی کیوں آواز اٹھائے گا۔ 22 اگست، 2012کو دلی ہائی کورٹ نے پانی جمع ہونے کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے احکامات دیے تھے۔ 31 اگست، 2016کو جنوبی دہلی میں پانی بھرنے کی وجہ سے سڑکیں جام ہونے پر مفاد عامہ کی ایک عرضی پر عدالت نے کہا تھا- ’’پانی جمع ہونے کو کسی بھی طرح سے جائز نہیں قرار دیا جا سکتاہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ 15 جولائی، 2019 کودلی ہائی کورٹ کی جسٹس جی ایس سیستانی اور جسٹس جیوتی سنگھ کی بنچ نے دہلی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ پانی بھرنے اور ٹریفک میں خلل پیدا ہونے کی تیزی سے نگرانی اور ازالے کے لیے ڈرین کا استعمال کیا جائے۔ 31 اگست، 2020کو چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس پرتیک جالان کی بنچ نے پانی جمع ہونے سے متعلق مفاد عامہ کی ایک عرضی کو دہلی حکومت کو منتقل کرتے ہوئے اس کا مستقل حل تلاش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ کئی دیگرریاستوں سے بھی اس طرح کے احکامات ہیں لیکن اس کی حقیقت 30 مئی کو دہلی میں پہلے ایلیویٹیڈ روڈ-بارہ پلا پر دیکھنے کو ملی، جہاں جگہ جگہ پانی بھرنے سے 10 کلومیٹر کا راستہ تین گھنٹے میں بھی پورا نہیں ہو پایا۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس کی وجہ محض پانی جمع ہونے والی جگہ پر بنائے گئے نالے کی کبھی صفائی نہ ہونا اور اس میں مٹی، کیچڑ، پالی تھین وغیرہ کا کوڑاگہرائی میں جمع ہونا ہی تھا اور اس کام کے لیے ہر ماہ ہزاروں تنخواہ دار ملازمین اور ان کے سپروائزر پہلے سے تعینات ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شہر کی منصوبہ بندی کے لیے بنائے گئے بڑے بڑے سرکاری عملے پانی کے بہاؤ میں شہروں کے ٹھہرنے پرخود کو بے بس پاتے ہیں۔ سارا الزام نالوں کی صفائی نہ ہونے، بڑھتی آبادی، کم ہوتے وسائل اور ماحولیات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر ڈال دیتے ہیں لیکن اس بات کا جواب کوئی نہیں دے پاتا کہ نالوں کی صفائی سال بھر کیوں نہیں ہوتی اور اس کے لیے مئی-جون کا انتظار کیوں ہوتا ہے۔ اس کے حل کے خواب، لیڈروں کے وعدے اور متاثرہ عوام کی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کی جلدبازی سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ دہلی میں بنے ڈھیر سارے پلوں کے نچلے سرے، انڈرپاس اور سب وے ہلکی سی برسات میں پانی جمع ہونے کی مستقل جگہیں ہیں، لیکن کبھی کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کر رہا ہے کہ آخرتعمیر کے ڈیزائن میں کوئی خامی ہے یا پھر اس کی دیکھ بھال میں۔
یہ سچ ہے کہ اچانک موسلادھار بارش ہونا ایک قدرتی آفت ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے زمانے میں یہ فطری بھی ہے، لیکن ایسی خراب صورت حال پیدا نہ ہو، اس کے لیے بنیادی وجہ پر سبھی آنکھیں بند کیے رہتے ہیں۔ دہلی-کولکاتا، پٹنہ جیسے میٹروپولیٹن شہروں میں برسات کے پانی کو گنگا-جمنا تک جانے کے راستوں کو بند کر دیا گیا۔ ممبئی میں میٹھی ندی کی طغیانی پر ہونے اور سیور کے 50 سال پرانے سیوریج سسٹم کے خستہ حال ہونے کی وجہ سے سیلاب کے حالات بننے کی بات حکومتیں قبول کرتی رہی ہیں۔ بنگلورو میں روایتی تالابوں کی اصل شکل کے ساتھ ناپسندیدہ چھیڑ چھاڑ کو سیلاب کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ دہلی میں سیکڑوں تالاب اور جمنا ندی تک پانی کے جانے کے راستے پر کھیل گاؤں سے لے کر اوکھلا تک آباد کردیے گئے۔
شہروں میں سیلاب کو روکنے کے لیے سب سے پہلا کام تو وہاں کے روایتی پانی کے ذخائر میں پانی کی آمد اور نکاسی کے پرانے راستوں میں تعمیر شدہ مستقل تعمیرات کو ہٹانا ہوگا۔ اگر کسی پہاڑی سے پانی نیچے بہہ کر آرہا ہے تو اس کا انضمام کسی تالاب میں ہی ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے جوہڑ-تالاب کنکریٹ کی ندیوں میں کھوگئے ہیں۔ نتیجتاً تھوڑی سی برسات میں پانی بہنے کو کہیں اور بہنے کہیں اور لگتا ہے۔
میٹروپولیٹن شہروں میں پانی جمع ہونے کی سب سے بڑی وجہ زیر زمین سیور ہیں۔ جب ہم زیر زمین سیورکی دیکھ ریکھ نہیں سیکھ پا رہے ہیں تو پھر کھلے نالوں سے اپنا کام کیوں نہیں چلا پا رہے ہیں؟ پولی تھین، گھر سے نکلنے والے کیمیکلز اور تباہ نہ ہونے والے کچرے کی بڑھتی ہوئی مقدار کچھ ایسی وجوہات ہیں جو کہ گہرے سیوروں کی دشمن ہیں۔ میٹروپولیٹن شہروں میں سیوروں اور نالوں کی صفائی بدعنوانی کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ کام کسی ذمہ دار ایجنسی کو سونپنا ضروری ہے، ورنہ آنے والے دنوں میں میٹرو پولیٹن شہروں میں کئی کئی دنوں تک پانی جمع ہونے کا مسئلہ پیدا ہوگا جو ٹریفک کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی سنگین خطرہ ہوگا۔
میٹروپولیٹن شہروں میں سیلاب کا مطلب ہے ٹرانسپورٹیشن اور لوگوں کی نقل و حرکت کا ٹھپ ہونا۔ اس جام سے ایندھن کا ضیاع، آلودگی کی سطح میں اضافہ اور انسانی برتاؤ میں اشتعال جیسے دیرپا برے اثرات ہوتے ہیں۔ اس کا مستقل حل تلاش کرنے کے برعکس جب کہیں شہروں میں سیلاب آتا ہے تو حکومت کا پہلا اور آخری کام راحتی کام شروع کرنا ہوتا ہے جو کہ فوری طور پر ہمدردانہ تو ہوتا ہے لیکن سیلاب کی وجوہات پر مستقل طور پر روک لگانے سے قاصر ہوتا ہے۔ پانی جمع ہونا اور سیلاب انسانی مسائل ہیں اور ان کا حل طویل المدتی منصوبوں کے ذریعہ ممکن ہے، یہ بات شہری منصوبہ سازوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اور اسی اصول پر مستقبل کے منصوبے بنانا چاہیے۔
[email protected]