امتیاز غدر
وہ اب تک تقریباً آٹھ بار 108 نمبر ڈائل کر چکا تھا۔ اسی سے اس کی بے قراری اور لاچاری کا پتہ چل رہا تھا۔ دوسری جانب رنگ تو ہو رہی تھی لیکن بدمعاشی یا کوئی اور وجہ سے فون ریسیو نہیں کیا جا رہا تھا۔ ادھر اس کی اہلیہ درد زچگی سے بے حال ہوئی جا رہی تھی۔ اس کے پاس بیٹھی اس کی بوڑھی ماں اسے تسلی دے رہی تھی کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اوپر والے نے چاہا تو گھر پر ہی بچہ تولد ہو جائے گا اور گھر پر نہ ہوا تو بیٹا گھنٹوں سے ایمبولینس والے کو فون کر رہا ہے۔ ہوسکے، ایمبولینس اب نہ تب آ جائے۔ پھر شہر کے کسی ڈاکٹر کے پاس چلے چلیں گے۔
ایمبولینس کے علاوہ کئی جان پہچان کے پرائیویٹ گاڑی ڈرائیوروں کو بھی وہ کال کر چکا تھا لیکن ہر جگہ سے اسے نفی میں ہی جواب ملا تھا۔ ہر کسی نے پرمٹ یا ایمرجنسی پاس نہ ہونے کی ہی بات کہی تھی۔ اس لاک ڈائون میں کوئی بھی تھوڑے سے فائدے کے لیے ’پولیسیا جھمیلے‘ میں نہیں پڑنا چاہتا تھااور وہ بھی رات کے وقت۔ اس نے سب سے عاجزانہ گزارش کی تھی اور دوگنا کرایہ دینے کا آفر بھی دیا تھا لیکن شاید سب کے ذہن میں کورونا وائرس کا دہشت گھر کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے تقریباً سبھی نے پرمٹ یا پاس نہ ہونے کا بہا نہ بنا دیا تھا ۔
اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہلتے ہوئے اس نے سوچا کہ ’چلو، ایک بار پھر ایمبولینس والے کو کال کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، وہ تھک کر سو گیا ہو اور اب اس کی آنکھ کھلی ہو۔‘ اس نے جیسے ہی کال کیا، ادھر سے نیند کی خماری میں ڈوبی ہوئی آواز میں کسی نے ’ہیلو‘ کہا۔ اسے ایک بارگی بہت ساری راحتوں کا احساس ہوا، ’چلو، ایمبولینس والے نے کال تو ریسیو کیا۔‘ اس نے جلدی جلدی اپنی بات کہنی شروع کی، ’بھیّا، میں اشوک نگر کی گلی نمبر 6 کے نکڑوالے مکان سے بول رہا ہوں۔ میری اہلیہ درد زچگی سے تڑپ رہی ہے۔ اسے پاس کے کسی نرسنگ ہوم میں لے چلنا ہے ۔ ‘
’ کوئی کورونا ورونا کا معاملہ تو نہیں ہے بھائی؟ ‘ دوسری طرف سے وہ اسی خماربھری آواز میں بولا ۔
’بالکل نہیں بھیّا! ۔۔۔ آپ اطمینان رہیں۔ ہم لوگ پچھلے پندرہ دنوں سے گھر سے باہر نہیں نکلے ہیں اور نہ ہمارے یہاں کسی کو سردی کھانسی یا بخار ہی ہے۔ آپ اطمینان ہو کر آئیں۔‘ وہ اسے ہر طرح سے مطمئن کرنے لگا ۔
’لیکن ایک بات، میں ایمبولینس کو اندر باہر سینی ٹا ئز کیے ہوا ہوں ۔ آپ لوگوں کے استعمال کے بعد مجھے اسے پھر سے سینی ٹائزکرنا ہوگا، اس لیے الگ سے تین سو روپے لگیں گے ۔ ‘
’منظور ہے۔ آپ آئیے تو سہی۔‘ مرتا کیا نہ کرتا۔ اس نے تین سو روپے الگ سے دینے کی حامی بھرلی۔
’ٹھیک ہے۔ آکر میں پھر بات کرتا ہوں۔ ‘ یہ کہہ کر ایمبولینس والے نے فون منقطع کر دیا ۔
وہ بھاگتا ہوا اہلیہ کے پاس پہنچا جہاں وہ بستر پر لیٹے لیٹے درد سے کراہ رہی تھی اور اس کی ماں اس کے پاس بیٹھی اسے ناکام تسلی دے رہی تھی۔ اس نے ایمبولینس آنے کی بات انہیں اس طرح بتائی جیسے کوئی انمول شے اس کے ہاتھ لگ گئی ہو۔ اس نے ماں سے کچھ ضروری سامان ایک تھیلے میں رکھنے کو کہا اور خود باہر جاکر دروازے پر ایمبولینس کا انتظار کرنے لگا۔
بیس پچیس منٹ انتظار کرنے کے بعد ایمبولینس آگئی۔ اس نے سہارا دے کر اہلیہ کو اس میں بیٹھایا اور خود ماں کے ساتھ آکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے سب سے نزدیک والے نرسنگ ہوم کی طرف ایمبولینس والے کو چلنے کو کہا۔ اس کے گھر سے چار پانچ کلو میٹر کی دوری پر ایک نرسنگ ہوم تھا، ــجوپیٹر نرسنگ ہوم۔ وہاں ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹوں کی سروس کی سہولت تھی۔ وہ سب جب پہلے چوراہے پر پہنچے تو وہاں پہلے سے تعینات پولیس والے نے ایمبولینس کو روکا۔ ڈرائیور سے تفتیش کرنے لگا ، ’کہاں جا رہے ہو اتنی رات کو۔۔۔اور اندر ایمبولینس میں کون کون ہے؟‘
’جی، اندر ایک مر د اور دو عورتیں ہیں جو یہیں پاس کے رہنے والے ہیں۔ عورت کو بچہ ہونے والا ہے، اس لیے پاس کے نرسنگ ہوم لیے جا رہا ہوں۔‘ ڈرائیور نے سچی بات بتا دی۔
پولیس والا مطمئن ہونا چاہتا تھا۔ اس نے ایمبولینس کا گیٹ کھولنے کے لیے کہا، ’کھول کر دکھائو !‘
’یہ لیجیے سر، دیکھ لیجیے!‘ ڈرائیور نے دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلتے ہی پولیس والے نے تینوں کو ٹارچ کی روشنی سے نہا دیا۔ پھر ایک بارگی بھڑک کر بولا، ’ارے، کسی کے منہ میں ماسک نہیں ہے اور نہ سوشل ڈسٹنسنگ بنا کر ہی بیٹھے ہیں۔‘
’ارے بھائی، اپنے منہ میں ماسک یا رومال ہے تو باندھ لو۔۔۔۔سر ٹھیک کہہ رہے ہیں!‘ ڈرائیور نے انہیں ہدایت کی۔
اس نے فوراً اہلیہ اور ماں سے منہ کو آنچل سے ڈھکنے کو کہا اور پھر جیب سے رومال نکال کر اپنے منہ پر باندھ لیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ واقعی یہ تینوں جلد بازی میں اپنا اپنا منہ ڈھکنا بھول گئے تھے جس کی سخت ہدایت حکومت کی جانب سے دی گئی تھی۔ کوئی بھی شخص بغیر ماسک لگائے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ اگر کوئی کھلے منہ پکڑا جاتا تو اس سے جرمانہ وصول کرنے کا اہتمام تھا۔ ایک تو یہ کہ رات تھی اور دوسرے یہ کہ ایک عورت درد سے کراہ رہی تھی۔ اسی لیے پولیس والا نرم پڑ گیا ۔
’ٹھیک ہے جائو لیکن آئندہ کھلے منہ باہر نہیں نکلنا ۔ ‘
ان سب کی جان میں جان آئی کہ اس مصیبت کی گھڑی میں ایک اور آفت سے بچ نکلے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد ایمبولینس سیدھے جا کر نرسنگ ہوم کے دروازے پر رکی لیکن یہ کیا؟ مین گیٹ پر بڑا سا تالا جھول رہا تھا۔ سامنے ایک بورڈ لگا تھا جس پر لکھا ہوا تھا، ’کووڈ-19 بیماری کی وجہ سے مکمل لاک ڈائون کے تحت یہاں سبھی پرکار کی سیوائیں بند کی جاتی ہیں۔‘
وہ مایوسی کی کھائی میں غرق ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اہلیہ بدستور کراہ رہی تھی تبھی ڈرائیور نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا، ’آپ گھبرائیں نہیں۔ میں یہاں کے تقریباً سبھی نرسنگ ہوم کو جانتا ہوں۔ چلئے،یہاں سے تین چارکلو میٹر کی دوری پر ایک اور نرسنگ ہوم ہے۔ شاید وہ کھلا ملے۔ ‘
اسے ڈرائیور کی باتیں اس وقت بہت ہی سکون والی اور تسلی بخش لگیں۔ اگلے ہی منٹ ایمبولینس فراٹے بھر رہی تھی اور کچھ ہی منٹوں کے بعد وہ سب ایک نرسنگ ہوم کے گیٹ پر تھے۔ وہاں ایک واچ مین کرسی پر بیٹھے بیٹھے اونگھ رہا تھا۔ کسی گاڑی کی آہٹ سن کر وہ اپنی آنکھیں میچتا ہوا الرٹ موڈ میں آ گیا ۔
’کیا نرسنگ ہوم کھلا ہے؟ بہت ہی ایمرجنسی کیس ہے۔‘ ڈرائیور نے ایمبولینس سے بغیر اترے ہی اس واچ مین سے دریافت کیا۔ اس دوران وہ پر امید ہو کر ایمبولینس سے اتر کر واچ مین کے قریب آ چکا تھا۔
’نہیں، نرسنگ ہوم تو پہلے کھلا تھا اور صاحب ایمرجنسی کیس بھی دیکھ رہے تھے لیکن کل کچھ لوگوں نے اپنے مریض کا صحیح علاج نہ کرنے کے الزام کے ساتھ خوب ہو ہنگامہ کیا تھا، اس لیے صاحب نے مکمل لاک ڈائون ختم ہونے تک کسی بھی طرح کا کیس لینے سے منع کر دیا ہے۔‘
’لیکن اندر تو کچھ ہلچل ہے۔‘اس نے پرامید لہجے میں دریافت کیا۔
’ہاں، کچھ پہلے کے مریض ہیں لیکن سب ٹھیک ہو چکے ہیں جنہیں کل چھٹی دے دی جائے گی۔ ‘ واچ مین انگڑائی لیتا ہوا بولا۔
’کوئی صورت نکل سکتی ہے، بھائی؟۔۔۔دیکھئے، میری اہلیہ کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ذرا آپ مہربانی کرتے اور ڈاکٹر صاحب کو میری اہلیہ کی حالت سے آگاہ کر دیتے تو میں آپ کا بڑا احسانمند ہوتا۔‘وہ جیسے واچ مین کے سامنے گڑگڑانے کو ہوا ۔
’معاف کرنا بھائی۔۔۔۔ مجھے نوکری نہیں کھونی ہے۔ صاحب کی صاف ہدایت ہے کہ رات کو انہیں کسی بھی صورت میں ڈسٹرب نہ کروں۔‘ واچ مین مجبوری بتانے لگا۔
’دیکھئے، میں آپ کو بھی خوش کر دوں گا۔ مہربانی کر کے کسی سینئر نرس سے ہی رجوع کروا دیجیے۔ اب میں ایسی حالت میں اہلیہ کو کہاں کہاں لیے پھروں۔‘اس نے واچ مین کے نزدیک مانو ہاتھ ہی جوڑ دیے۔
’بھئی، میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں لیکن میری بھی بات سنیے۔ صاحب نے کل کے ہنگامے کے بعد سارے اسٹاف کو چھٹی دے دی ہے۔ اندر کچھ ٹھیک ہوئے مریض اور ان کے رشتے دار ہیں جو صبح ہوتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ ‘واچ مین نے صاف صاف زبان میں نرسنگ ہوم کی حالت اسے بتا دی۔
’افوہ! اب کیا ہوگا؟‘وہ کافی فکر مند ہو چلا تھا۔
’ہاں، میں آپ کو ایک مشورہ دے سکتا ہوں۔۔۔۔آپ سیدھے سرکاری اسپتال کیوں نہیں چلے جاتے۔ وہاں سہولیت کم سہی لیکن علاج تو ہو جائے گا۔ ابھی اس لاک ڈائون میں بھی میری سمجھ سے ایمرجنسی سیوا تو ضرور بحال ہوگی ۔ ‘ واچ مین نے اس کی حالت پر ترس کھا کر اسے مشورہ دیا۔
’ہاں، آپ نے بجا فرمایا لیکن وہ یہاں سے تقریباً سولہ سترہ کلو میٹر دور ہے۔‘
’ہاں، دور تو ہے۔ ۔۔۔کیا بھائی چلنا چاہیں گے؟‘ ایمبولینس کے ڈرائیور نے واچ مین کے مشورے میں دلچسپی دکھاتے ہوئے اس سے اجازت مانگی۔ اب اس کے پاس چارہ بھی کچھ نہیں تھا۔ اس کی اہلیہ درد سے نڈھال ہوگئی تھی اور رات بھی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے واچ مین کے مشورے کو مانا اور اسے شکریہ کہہ کر ایمبولینس میں سوار ہوگیا۔
راستے بھر کئی طرح کے وسوسوں سے اس کا دل بے چین رہا۔ طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے اور چلے جاتے۔ کتنا خوش تھا وہ جب اس کی اہلیہ نے اسے پہلی بار یہ اطلاع دی تھی کہ وہ امید سے ہے۔ خوشی کے مارے جھوم اٹھا تھا وہ۔ اس دن اہلیہ کو لے کر وہ ایک اچھے ریستوراں میں گیا تھا جہاں دونوں نے خوب انجوائے کیا تھا۔ آنے والے نئے مہمان کو لے کر دونوں نے کس طرح کے عجیب و غریب خیالی پلان بنائے تھے۔ دونوں نے لڑکا یا لڑکی ہونے کی صورت میں ناموں کا بھی انتخاب کر لیا تھا۔ نام کا انتخاب کرنے میں دونوں میں ہلکی تکرار بھی ہوئی تھی۔ پھر دونوں میں یہ طے پایا کہ اگر لڑکا ہوگا تو اس کی اہلیہ نام رکھے گی اور اگر لڑکی ہوئی تو وہ نام تجویز کرے گا۔ اس کی ماں نے بھی جب بہو سے یہ خوش خبری سنی تھی تو اس کی بوڑھی آنکھوں میں مانو نیا نور آگیا تھا۔ خوشی سے اس کے آنسو چھلک پڑے تھے اور اس نے دونوں ہاتھوں سے بہو کی بلائیں لی تھیں۔ پھر نو ماہ کا وقفہ کیسے گزر گیا، کسی کو پتا نہیں چلا اور قسمت نے آج لا کر اس مقام پر کھڑا کر دیا تھا۔
آخر ایک ہلکے جھٹکے کے ساتھ ایمبولینس سرکاری اسپتال کے مین گیٹ کے قریب رک گئی۔ وہاں پہلے ہی سے کئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ڈرائیور ابھی ایمبولینس سے نیچے اترا ہی تھا کہ دو شخص جو مکمل پی پی ای یعنی پرسنل پروٹیکٹو اِیکیوپمنٹ سے ڈھکے ہوئے تھے، آکر اس سے دریافت کرنے لگے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا، ’کیا اس میں کورونا پازیٹو مریض ہے؟‘
’نہیں، ایک حاملہ خاتون، اس کی بوڑھی ساس اور شوہر ہیں۔‘ ڈرائیور نے ایمبولینس کا دروازہ کھولتے ہوئے انہیں جواب دیا۔
تینوں نیچے اترچکے تھے۔ ادھر ان دونوں میڈیکل اسٹاف نے پورے ایمبولینس کو سینی ٹائز کرنا شروع کر دیا تھا۔
وہ اہلیہ اور ماں کو سیڑھیوں کے پاس چھوڑ کر ڈرائیور کے ساتھ اسپتال کے اندر کے دروازے کی جانب بڑھا ہی تھاکہ انہیں تین چار پارا میڈیکل اسٹاف نے، جو اپنے آپ کو پی پی ای سے مکمل ڈھکے ہوئے تھے ، روک لیا، ’کیا کورونا پازیٹو مریض ہے آپ لوگوں کے ساتھ؟‘ ان میں سے ایک نے پوچھا۔
’ نہیں، ڈیلیوری کیس ہے۔ میری اہلیہ درد زچگی سے تڑپ رہی ہے۔ مہربانی کر کے اسے ایڈمٹ کر لیجیے!‘ اس نے ایک ہی سانس میں جلدی جلدی ساری باتیں بتا دیں۔
’افسوس ، یہاں ابھی صرف اور صرف کورونا سے متعلق کیس ہی دیکھے جا رہے ہیں۔۔۔۔ دیکھ نہیں رہے ہیں۔ پورا کا پورا اسپتال کووڈ-19اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ ‘ ان میں سے سینئر دکھنے والے شخص نے لا پروائی سے کہا۔
’ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ تو کھلا ہوگا۔ آخیر دوسرے مریض کہاں جائیں گے؟‘اس بار ڈرائیور نے اس شخص سے کہا۔
’یہ سب ہمیں نہیں معلوم۔ ہمیں اوپر سے سخت ہدایت دی گئی ہے کہ دوسرے مریضوں کو ایڈمٹ نہ کیا جائے۔‘ایک دوسرے میڈیکل اسٹاف نے کہا۔
’ سر ، آپ لوگ مہربانی کر کے کچھ تو ہماری مدد کیجیے۔ میری ا ہلیہ درد سے بے حال ہوئے جا رہی ہے ۔ ‘ اب وہ ان لوگوں کے سامنے تقریباً گڑگڑانے لگا تھا۔
’ہم نے کہا نا بھائی، ہمیں دوسرے مریضوں کو دیکھنے کی سخت مناہی ہے۔‘پہلے والے شخص نے منہ دوسری جانب پھیرتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
’کیا بات ہے۔۔۔۔یہاں اتنی بھیڑ کیوں ہے؟‘ شاید کوئی ڈاکٹر کسی روم سے باہر نکلا تھا ۔
’سر رحم کیجیے۔۔۔۔میری اہلیہ زچگی کے درد سے تڑپ رہی ہے۔ اسے دیکھ لیجیے، سر!‘ اس نے سمجھ لیا تھا کہ رعب سے پوچھنے والا شخص ڈاکٹر ہی ہے، اس لیے اس کے نزدیک وہ گڑ گڑانے لگا۔
’ہمیں آپ سے ہمدردی ہے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سرکار کی سخت ہدایت ہے۔ ہم ابھی صرف کورونا سے متعلق مریض ہی دیکھتے ہیں۔ اسپتال کا سارا عملہ اسی میں مصروف ہے۔‘وہ یہ کہہ کر مڑنے کو ہوا۔
’سر، سر پلیز! میں اس کے لیے پے کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔ کچھ کیجیے سر۔‘اس نے تقریباً اس کا راستہ روکتے ہوئے پھر منت سماجت کی۔
’اس میں پے کرنے اور نہ کرنے کی بات نہیں ہے۔ یہ سرکاری اسپتال ہے جہاں ہر مریض کا علاج مفت میں ہو تا ہے لیکن ابھی ہم دوسرے کیس نہیں دیکھ سکتے ہیں۔‘وہ یہ کہتے ہوئے تیزی سے آگے نکل گیا ۔
اب وہ ایک دم مایوس ہو چلا تھا۔ اسے اہلیہ کا خیال آیا، وہ سیڑھیوں کی جانب لپکا۔ جب تک وہ اس کے قریب پہنچتا تب تک ایک فلک شگاف چیخ ماکر اہلیہ بے ہوش ہو گئی اور گوشت کا ایک لوتھڑا زمین پر لڑھک چکا تھا۔
اور دو چار کورونا مریض کو لے کر شہر کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال رات کی باقی نیند سونے میں مصروف تھا۔ n
Shaheed Gaddha, Purana Bazar,
Gomoh, Dhanbad-828401