علیزے نجف
ہماری زندگی میں سوشل میڈیا اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر دونوں ہی ادھورے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں پہ لوگ نہ صرف اپنی بات رکھ سکتے ہیں بلکہ ہر طرح کی سرگرمیوں میں ورچولی انوالو بھی ہو سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی عادت ہو جانے سے انسان دنیا کی حقیقت اور صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کے خصائص و نقائص اب کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے پچھلے دنوں نظر سے ایک رپورٹ گزری جو کچھ اس طرح تھی ’سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا بہت زیادہ استعمال کرنے والے نوجوان اپنے دوستوںکے بہترین طرز زندگی کو دیکھ کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل نیٹ ورکس کا مستقل استعمال اعصابی نظام کو لڑائی جھگڑے کے موڈ میں بدل دیتا ہے جو کہ ایک منفی عادت ہے۔
سوشل میڈیا کا مستقل استعمال افسردگی، عدم توجہ، مخالفین کو دھمکیاں دینا اور نوعمری میں بے چینی جیسے مسائل کو بڑھاتا ہے۔
نوجوانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ایک تحقیق کے مطابق اس کا استعمال نوجوانوں میں افسردگی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر محسوس ہوا کہ موجودہ دور میں ڈپریشن کے بڑھنے والے تناسب کے پیچھے کیسے کیسے عوامل کارفرما ہیں۔ ہماری ذہنی اخلاقی صحت اتنی پسماندہ ہو چکی ہے کہ وہ کسی سے بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ہمیں ڈپریشن بڑے بڑے غموں کا سامنا کرنے کی صورت میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے معمولات زندگی میں بھی غیر متوازن رویے کی وجہ سے ہو تا ہے۔
یوں تو ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں افسردگی یا اضمحلال سے واسطہ پڑتا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص چند گھنٹے کے لیے افسردہ رہتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ افسردگی دنوں بلکہ ہفتوں طاری رہتی ہے لیکن پھر اس پر قابو پا لیا جاتا ہے یہ عام سی کیفیت ہے ڈپریشن اس سے مختلف ہوتا ہے ڈپریشن کو اگر سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ ایسی ذہنی حالت یا کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان متوازن صورت سے محروم ہو جاتا ہے اس میں تحریک اور توانائی کسی ایک سمت میں مرکوز ہو جاتی ہے اور متاثرہ انسان باقی معمولات زندگی سے یکسر کٹ کر رہ جاتا ہے وہ مستقل اداسی اور دکھ کی کیفیت میں ڈوبا رہتا ہے معمول کے کام بھی اس کو بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں کیونکہ ان کے اندر ذہنی توانائی خرچ کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی ہاں انھیں ان کاموں کو کرنے میں کوئی تکان لاحق نہیں ہوتی جس کے کہ وہ ایڈکٹ ہو چکے ہوتے ہیں جیسے سوشل میڈیا کی پررونق دنیا انھیں ہمہ وقت خوش رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پہ اس حد تک انحصار کر بیٹھتے ہیں کہ اس کے بغیر ان کا سانس لینا بھی محال ہو جاتا ہے اس طرح کی ذہنی بے سکونی کی وجہ سے حیاتیاتی نظام میں بہت سی خلیات کی تباہی کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عارضہء قلب اور السر جیسی بیماریوں کے ہونے کے بھی شواہد ملتے ہیں۔
مذکورہ خبر کے مطابق ہم سوشل میڈیا کی کشش اور خوبصورتی میں ایسے کھو گئے ہیں کہ اسی کو ہی حقیقی دنیا خیال کر بیٹھے ہیں حالانکہ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حقیقت اکثر و بیشتر اس کے برعکس ہوتی ہے جب ہمارا دفاعی سسٹم کمزور ہو تو ہمیں ماحول کا شکوہ کرنے کے بجائے اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے اب تک کئی سروے بھی کئے جا چکے ہیں جس میں خواتین کی بڑھتی افسردگی پہ تشویش ظاہر کی گئی ہے ماہرین نے جب اس کے پیچھے کی وجہ کو جاننے کی کوشش کی تو اس کے پیچھے سوشل میڈیا اور سکرین کے استعمال میں زیادتی پائی گئی اس سروے میں اس بات کو بھی ثابت کیا گیا کہ وہ نوجوان جو ہمہ وقت سوشل میڈیا سے جڑے ہوتے ہیں ان کی ذہنی صحت اچھی نہیں ہوتی ان کے مقابلے میں وہ افراد جو سکرین کے بجائے ملنے جلنے، جسمانی کھیل، باقاعدہ ورزش مطالعہ اور پرنٹ میڈیا پر زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان میں ذہنی مسائل کی شکایت کے امکانات کم پائے گئے ہیں۔
اس سارے سروے اور تحقیقات میں سب سے اہم نکتہ ڈپریشن ہے جو کہ بڑی تیزی کے ساتھ انسانی آبادی کو اپنا شکار بناتا جا رہا ہے۔ مانٹریال یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نوجوان جتنا زیادہ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویزن سکرین کے سامنے وقت گزاریں گے اتنی ہی ان میں شدید ڈپریشن کی علامات نظر آئیں گی اس تحقیق کے دوران 12 سے 16 سال کی عمر کی 17 سو سے زائد لڑکیوں اور 2 ہزار سے زائد لڑکوں میں سوشل میڈیا کے استعمال اور ٹیلیویژ ن دیکھنے کی عادت کا جائزہ ایک سال تک لیا گیا محققین نے دریافت کیا کہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال کم عمر افراد میں ڈپریشن کی علامات سامنے آنے کا باعث بن سکتا ہے۔
نوجوان اور سوشل میڈیا کے عنوان پر امریکی ٹی وی سی این این کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو افراد دن میں 50 سے 100 بار فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس سے چیک کر رہے تھے، وہ دیگر کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ افسردہ تھے۔
جبکہ وہ افراد جو دن میں 100 سے زیادہ بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرتے ہیں وہ اوسطاً 47 فیصد سے زیادہ افسردہ ہوتے ہیں۔
انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کے لیے اللہ نے ازل سے اس دنیا میں امتحان کے ساتھ ساتھ بیشمار آسائشوں کے امکانات بھی رکھے ہیں ان امکانی صلاحیتوں نے اس وقت انسان کی زندگی میں ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے جس کا پچھلے دو سو سال پہلے تصور بھی کرنا محال تھا۔ بیشک یہ انسان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے لیکن دوسری طرف وہ اتنا ہی بے بس ہے کہ وہ ان کامیابیوں کے منفی مضمرات سے نوع انسانی کو مکمل طور پہ محفوظ رکھنے سے قاصر ہے۔
انسان اس دنیا میں وہ سب کچھ حاصل نہیں کر سکتا جو جنت میں اسے عطا ہوں گے۔ اس لیے سوشل میڈیا کی سراب زدہ زندگی کی طلب انسان کو سوائے مایوسی، بے بسی اور دکھ کے کچھ نہیں دے سکتی۔ ایسے میں سوشل میڈیا سے ہونے والے ڈپریشن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کی زندگی کی حقیقت کو بھی تسلیم کر لیں اور اس کو استعمال کرنے کے آداب سیکھیں لوگوں کی غیر معمولی چیزوں یا آسائشوں سے متاثر ہونے کے بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں اور ایسے کردار ادا کریں کہ لوگ آپ سے متاثر ہوں اس سے ملنے والی خوشی پائیدار ہو گی۔
سوشل میڈیا کے غیر متوازن استعمال سے ہونے والے ڈپریشن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پہ گذارے جانے والے وقت میں کمی لائی جائے۔
اب تک کی گئی تحقیقات کے مطابق سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال یوزر کو اس کا ایڈکٹڈ بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے بغیر لمحے بھر بھی خوش نہیں رہ پاتا اس سے ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت بھی بہت تیزی سے متاثر ہوتی ہے برطانیہ میں کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اسکرین کو گھنٹوں بلا ضرورت استعمال کرنے سے بچوں کی آنکھ، گردن، پٹھوں، کمر اور جوڑوں میں شدید درد ہو سکتا ہے اس کے علاوہ ذہنی معذور بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ جو بچے اسکرین بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں یا اسکرین کو آنکھوں کے بہت قریب رکھتے ہیں ان میں بھینگے پن کے امکانات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں اور اس سے ان کا حافظہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں جو نقصانات ایک بچے کے لیے بتائے گئے ہیں بڑوں میں بھی اس کے پیدا ہونے کے امکانات پائے گئے ہیں۔ اسکرین کے نقصانات بھی واضح ہیں اور اس پہ مستزاد اگر ہم سوشل میڈیا کی عکس زدہ زندگی سے خود کا بیجا تقابل کرنے لگ جائیں تو ایسے میں کئی طرح کے منفی اثرات ہمارے ذہنی سکون کو منتشر کر دیتے ہیں۔ کچھ سال قبل آسٹریلیا کی فلینڈرز یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ڈپریشن اور دیگر ذہنی صحت کے مسائل ایک سے دوسرے بلکہ تیسرے تک پھیل سکتے ہیں۔
اگر خدانخواشتہ آپ اس طرح کے کسی ڈپریشن کی علامات محسوس کر رہے ہیں تو فوری طور پہ بیدار ہو جائیں اور اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لائیں اور سوچ کا معیار بھی بدلیں کیوں کہ سوچ ہی عمل کی تحریک کا سبب بنتی ہے جب تک ہم تبدیلی کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پہ تیار نہیں کریں گے ہمارے لیے دیرپا تبدیلی کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ خوراک میں تبدیلی لا کر بھی آپ اس مشکل کو آسان کر سکتے ہیں ماہرین کے مطابق ڈپریشن اینگزائٹی اسٹریس وغیرہ میں ایسی غذاؤں کے استعمال کو فوقیت دینی چاہیے جو دباؤ کے غذائی مطالبات کو پورا کر سکتے ہوں جس غذا میں بیج،خشک میوؤں کی گریاں، اناج، پھل اور سبزیاں شامل ہوں وہ خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بڑھانے میں بھی خاصے مددگار ہوں جیسے دودھ دہی اور پنیر، شہد وغیرہ کا استعمال کافی معاون ہوتا ہے بعض لوگ تو ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے پابندی کے ساتھ مراقبہ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایک ذریعہ ہے جس سے ہم پوری دنیا سے رابطے میں ہوتے ہیں یہ ہر طرح سے ہمارے تابع ہے کہ ہم اس کے استعمال کی ٹائمنگ کو اپنے حساب سے رکھیں لیکن جب ہم اس اختیار کو صحیح طرح استعمال نہیں کرتے تو یہ ہمیں کنٹرول کرنا شروع کر دیتی ہے اور اسی بے ترتیبی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر ہم اپنے معمولات زندگی کا باقاعدہ حساب رکھیں اور حسب ضرورت اس میں ردو بدل کرتے رہیں تو ہم سوشل میڈیا کے ساتھ اور دوسری وجہ سے پیدا ہونے والے ڈپریشن سے بآسانی بچ سکتے ہیں اور ایک خوشگوار اور مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔
[email protected]
سوشل میڈیا اور ڈپریشن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS