جاری تشدد غیر انسانی کاروبار کی آخری ہچکیاں ہیں

0

عبدالسلام عاصم

ایک سے زائد قسم کی بین مذاہب فرقہ وارانہ منافرتوں، حجاب تنازع اور ایسی دوسری علامتوں کے نام پر تہذیبی غارتگری اور انقلاب کے نام پر صرف اور صرف ماضی کے احیاء کی لاحاصل کوششوں کے عملی نتیجے میں مرتب ہونے والا عصری منظرنامہ اب صدیوں پر محیط ہوتا نظر نہیں آتا۔ زمانے کی رفتار کو ہر آنے والے دن کے ساتھ مہمیز لگ رہی ہے۔ نئی نسل کا علمی شعور اب نجات کی راہ دکھانے والی کتابوں کی یک رُخی تفسیروںاور ان سے اختلاف کرنے والی ایسی دلیلوں تک محدود نہیں جن میں حکمت سے کم اور حق استرداد سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔
اقرار اور انکار کے اصل مفہوم تک نئی نسل کی رسائی آئندہ دہائیوں میں ایسے سبھی جھگڑوں کو ختم کرنے جارہی ہے جن کا تعلق کسی انسانی فائدے سے نہیں بلکہ گروہی اور قبیلہ جاتی فائدوں سے ہے۔ مثال کے طور پر یہ سوال شہر آئندہ میں ناکافی سمجھا جائے گا کہ ’’ تم اس چیز کو مانتے ہو یا اس سے انکار کرتے ہو‘‘۔ انکار اور اقرار کا تعلق ماننے سے جوڑ کر اب تک فرزا نگی کا جو کاروبار کیا جاتا رہا، اس کا تباہ کُن انجام دنیا کے ایک سے زیادہ خطوں میںدیکھا جاسکتا ہے۔ علم و ہنر کی بنیاد پر ترقی یافتہ دنیا میں اقرار اور انکار کا تعلق ’’ماننے‘‘ سے نہیں بلکہ ’’جاننے‘‘ سے ہے۔ کسی بات، نقطۂ نظر ، واقعہ یا سانحہ کو عینی یا ٹھوس دستاویزی صورت میں جاننے کے بعد ہی اس کی رونمائی کا اقرار اور اس کے جواز سے اتفاق یا اختلاف کی صورت میں انکار کیا جا سکتا ہے۔
اس توضیحی تمہید کے ساتھ آئیے چلتے ہیں بعض حالیہ واقعات کی طرف اور ایک سے زیادہ حلقوں کے بیانات کی روشنی میں سمجھتے ہیں اُن حقائق کو جن کی تفہیم میں ماننے سے جاننے تک کا نمایاں عمل دخل ہے۔ سب سے پہلے مذہب اور تہذیب کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ مذہب کا تعلق کسی ایک گروہ یا حلقے سے ہوتا ہے جبکہ تہذیب کسی بھی خطے کی نمائندگی کرتی ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بنیادی آبادی کا حصہ ہوتے ہیں، کچھ شکم کی آگ بجھانے آئے مہاجرین ہوتے ہیں اور کچھ کاروبار کیلئے آبسنے والے منافع پسند۔ ان میں کچھ اورطرح کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں مثلاًملک گیری کے نام پر علاقے فتح کرنے والے وغیرہ۔ مقامی تہذیب جب ان مختلف قسم کے لوگوں کا سامنا کرتی ہے تو کچھ نوارد مقامی تہذیب میں گھل مل جاتے ہیں، کچھ مقامی لوگ اپنی تہذیب کو نئی تہذیبوں کی آمیزش کے ذریعہ مالا مال کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ مغربی ملکوں میں ایشیائی پکوان کی دکانیں کھلتیں نہ ایشیائی خطے میں کوئی میکسیکن کھانے سے لطف اندوز ہوپاتا۔
مذاہب اور تہذیبوں کے فرق کی اس مختصر وضاحت کے بعد آئیے چلتے ہیں مطلق اور ناطق حیوانوں میں خدو خال کے فرق کے بعدجسمانی اور ذہنی تقاضوں کے فرق کی طرف، جس میں نمایاں دخل ستر پوشی کو حاصل ہے۔ چونکہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اس لیے مرحلہ وار ستر پوشی نے بھی باقاعدہ لباس کی شکل اختیار کرلی۔ اس کا مقصد نہ پہلے صنفی اعتبار سے ایک دوسرے کو ناواقف رکھنا تھا اور نہ لباس سے آج یہ مراد لی جاتی ہے۔ ستر پوشی کا مقصد صنفی فرق اور جنسی کشش کی شعوری تفہیم سے حیوانِ ناطق کو گزارنا تھا۔ حجاب لباس کا ہی مبینہ طور پر متنازع حصہ ہے جو ہندوستان سمیت دنیا کے کئی حصوں میں مقامی تہذیب سے متصادم ہے۔ بدقسمتی سے ہم انسانی معاملات میں مذاہب اور ایک سے زیادہ زیادہ تہذیبوں کے خطہ جاتی ملاپ کو انسانوں کے حق میں سازگار طور پر صحتمندبنانے کے بجائے ایک ایسے نزاع میں بدل دیتے ہیں جس سے رجوع کرنے کی راست اور بالواسطہ دونوں راہیں یومیہ واقعات اور سانحات کے نتیجے میں امکانات سے زیادہ اندیشوں سے اٹ کر رہ گئی ہیں۔
سیاسی، سماجی اور مذہبی ذمہ داران ایسے تنازعات کو ختم کرنے میں اشتراک کے انسانی تقا ضوں پر اس لیے پورے نہیں اتر پاتے کہ انہیں وسیع تر انسانی فائدے سے زیادہ اپنے محدود مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ حجاب کے حق میں اپنے سخت موقف کو بدلے بغیر ہی سہی 22 سالہ مہسا امینی کے مبینہ قاتلوں کے خلاف فوراًسخت تادیبی کارروائی کر کے انسانی زندگی کے احترام کی پامالی کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اس واقعہ پر ایران بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج سے فیصلہ کن طور پر نمٹنے کا حکم تو جاری کردیا لیکن مبینہ قتل کے ذمہ داران کے خلاف سخت چارہ جوئی کا حکم دے کر انسانی زندگی کے تقدس کی پامالی کے خلاف اپنے کسی جوش و جذبے کا اظہار نہیں کیا۔ ایران میں کئی برسوں بعد اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے سب سے پہلے مہسا امینی کے جنازے کے موقع پر شروع ہوئے تھے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ امینی کو خواتین پر حجاب کے قوانین نافذ کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس نے قتل کیا تھا۔
ایرانی صدر نے صرف احتجاج کرنے والوں سے نمٹنے کی ہی بات نہیں کہی بلکہ واقعات کی تحقیق کے بغیر یہ کہنا بھی مناسب سمجھا کہ مظاہرین ملکی سلامتی اور امن کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ خبر کا ایک سمجھ میں نہ آنے والا پہلو سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کی یہ رپورٹ ہے کہ مسٹر رئیسی نے یہ بات مبینہ طور پر مظاہرین کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک اہلکار کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ امینی کے اہل خانہ سے حکام کی کسی ملاقات کی شاید کوئی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ہو۔ خبروں کے مطابق زیادہ تر حالیہ مظاہروں کی قیادت ایرانی خواتین کر رہی ہیں۔ بظاہر انہیںپہلے سے کہیں زیادہ مردوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ آرٹیکل کی نوک پلک درست کرنے کے دوران خبر ملی کہ ایران کے صدر کو ملک گیر احتجاج اور عالمی ردعمل کے بعد مہسا امینی کے قتل کی مکمل چھان بین کا حکم جاری کرنا پڑا ہے۔ مزاحمت کی یہ پہلی فتح ہے۔ اس بیچ مہسا امینی کے ساتھ اظہار یک جہتی کیلئے افغان خواتین کے بھی سڑکوں پر نکل آنے کی خبر ہے۔
یہ واقعات اور ان کی بدلتی ہوئی نوعیت مظہر ہے کہ ہم اور آپ جس عہد کے گواہ ہیں وہ نہ تو آسودگی کی رومانویت کا ترجمان ہے، نہ اس میں آسودگی کے خلاف کسی ایسی احتجاجی تحریک کا دخل ہے جو سابقہ صدی کی ایک نمایاں پہچان تھی۔ موجودہ عہد کو عقلیت اور حقیقت پسندی کے حق میں کارگاہِ عمل کہا جائے تو یکسر غلط نہیں ہوگا، جس میں خیالی جزا اور سزا کے نعروں تک محدود انقلاب کی کہیں کوئی گنجائش باقی نہیں۔ ایسے میں قومی، علاقائی اور بین الاقوامی منظر نامے پر مذہبی انتہا پسندی اور تہذیبی غارتگری کے جو متشدد داغ نظر آ رہے ہیں وہ ہر نوعیت کے غیر انسانی کاروبار کی آخری ہچکیاں ہیں جو اس صدی کی تکمیل کے ساتھ ان شاء اللہ اپنے انجام تک پہنچ جائیں گی۔
ایسا نہیں کہ دنیا ایکدم سے اُس جنت میں تبدیل ہو جائے گی جس کا خواب اہلِ مذاہب اور مادہ پرست دونوں دیکھتے آئے ہیں۔ البتہ ہم ارتقا کے سفر کے اس عہد میں ضرور داخل ہوجائیں گے جہاں زندگی کی ترجیحات ہر نوعیت کے افسانوی دائرے سے باہر ہوں گی۔ یہ تبدیلیاں جو بتدریج رفتار پکڑ رہی ہیں محض کہانیاں سنانے والے یمینیوں اور ان سے اوب کر کسی ٹھوس متبادل کے بغیر رد تشکیل پر اتر آنے والے یساریوں سے نجات نہیں دلائیں گی، بلکہ مقصدِ ایزدی کے رُخ پر انقلاب برپا کریں گی۔ کیونکہ ان کا تعلق اُن ٹھوس حقائق سے ہے جو مادی اور غیر مادی کسی طرح کے رومان کی دوٹوک نفی تو نہیں کرتیں لیکن اُن سے موقع پرستانہ استفادہ کرنے کی حوصلہ شکنی ضرور کرتی ہیں۔ اس طرح جو نیا ذہن بلوغت کی دہلیز پار کرتا نظر آرہا ہے، وہ اپنی کسی بھی بیزاری کو محض غصہ دکھانے کیلئے تخریب کاری کی طرف نہیں لے جائے گا اور کسی بیداری کو بھی بس انگڑائی تک محدود نہیں رہنے دے گا۔
ہاں اسی پردۂِ ظلمات سے ابھرے گی سحر
پنجۂ شب سے کہاں قید سویرا ہو گا
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS