وقت کی خوبی یہ ہے کہ وہ بدلتا رہتا ہے۔ اسی لیے حالات یکساں نہیں رہتے۔ کامیاب وہی ہوتا ہے جو بدلتے حالات کے تقاضوں کو سمجھے۔ پرنٹنگ کی ایجاد کے فوراً بعد مسلمانوں نے اس سے بھرپورفائدہ اٹھایا ہوتا تو حالات آج مختلف ہوتے۔ اسی طرح یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے توسط سے منٹوں میں کوئی بات لاکھوں، کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، بیشتر مدرسے اس سے اس طرح وابستہ نہیں ہو سکے ہیں جیسے انہیں وابستہ ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ بات بھی سچ ہے کہ سوشل میڈیا اسلام مخالف پروپیگنڈوں کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے، اس لیے مدرسے کے طلبا اگر مذہبی تعلیم کے ساتھ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے اچھی طرح واقف ہوںگے تبھی وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کی اصلاح کر سکیں گے۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کو آگے آنا چاہیے جو عصری علوم کے ماہر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے مذہب کی صحیح تعلیم کی ترسیل کرنا ان کا بھی فرض ہے، ورنہ ان کا علم ان کے لیے راحتوں کا وسیلہ تو بنے گا مگربخششوں کاوسیلہ نہیں بن پائے گا۔ مدرسوں سے یہ تحریک بھی شروع کی جانی چاہیے کہ دینی علم یا دنیاوی علم جیسی کوئی چیز نہیں، البتہ علم دو خانوں میں بٹا ہوا ضرور ہے۔ ایک وہ علم جو اللہ سے دور کرتا ہے، دوسراوہ علم جو اللہ سے قریب لے آتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بندوں کی راحت کے لیے ایجادات کرنا بھی علم نافع ہی ہے۔n
نئے تقاضوںکو سمجھنے کا موقع
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS