مدارس کی خدمات کومنظرعام پر لانے کی ضرورت

0

مطیع الرحمٰن عوف ندوی

ہندوستان میں اسلامی مدارس مسلمانوں کی دینی تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ ادارے کئی طرح کے نظام اور نصاب کے پابند ہیں۔ ان کی صحیح صورت حال سے واقفیت کے لیے ملک کے موجودہ مدارس کی اساسی ساخت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے مدارس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1-حکومت سے منظور شدہ مدارس 2- حکومت کی طرف سے غیر منظور شدہ مدارس۔ منظور شدہ مدارس ملک کی کم و بیش ایک درجن ریاستوں میں محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے تحت اسٹیٹ مدرسہ بورڈ یا اس جیسے نام سے موسوم ہیں۔ ان کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔ ان میں بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک امداد یافتہ مدارس اور دوسرے غیر امداد یافتہ مدارس۔ ان دونوںمیں حکومت کی جانب سے قائم کردہ مدرسہ بورڈ کا نصاب رائج ہے۔ اترپردیش میں عربی فارسی بورڈ الٰہ آبادکو 2007 میں مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کر دیا گیا۔ اس کے تحت اترپردیش میں 5908 مدارس منظور شدہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں 8 لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں جبکہ 459 مدارس باقاعدہ امداد یافتہ ہیں۔ ان میں تقریباً 6885 اساتذہ و غیر تدریسی عملہ ہے اور حکومت نے ان کو چھٹاپے کمیشن عطا کر رکھا ہے۔ یہ ادارے بھی اپنے بہت سے امور میں خود مختار رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے بعض قوانین کے ذریعہ مدرسہ بورڈ کے مینجمنٹ میں کچھ ترمیم کی ہے، نیز نصاب تعلیم میں بھی این سی ای آر ٹی کے کورس کو داخل کیا ہے لیکن اس وقت یہ موضوع زیر بحث نہیں ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ مدارس آتے ہیں جو خود مختار ہیں اور ملک کا قانون اس طرح کے اداروں کے قیام کی اجازت دیتا ہے۔ ان مدارس کا کوئی بورڈ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی نصاب تعلیم کے پابند ہیں، تاہم بیشتر مدارس تین طرح کے نظامِ تعلیم کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ (1) دارالعلوم دیوبند کا نصاب یا رابطۃ المدارس الاسلامیہ سے الحاق (2) ندوۃالعلماء کا نصاب یا اس سے تعلیمی الحاق (3) جامعۃ الفلاح، جامعۃ الاصلاح یا جماعت اسلامی کا نصاب۔ رابطۃ المدارس الاسلامیہ دارالعلوم سے دیوبند تقریباً ساڑھے تین ہزار مدارس ملحق ہیں جبکہ شعبۂ مدارس ملحقہ ندوۃالعلماء سے تعلیمی الحاق رکھنے والے مدارس کی تعداد 430 ہے۔ ان خود مختار اداروں کا کوئی متعین بورڈ یا حکومت سے منظور شدہ نصاب نہیں ہے، البتہ ملک کی مختلف یونیورسٹیاں اپنے ضابطے کے مطابق متعین شعبوں میں گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن میں ان مدارس کے فارغین کے داخلے کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ملک میں قائم ان مدارس میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے صرف ڈھائی سے تین فیصد تعداد ہی تعلیم حاصل کرتی ہے، بقیہ تعداد یا تو سرکاری اسکولوں یا پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے یا ایک تعداد ایسی بھی ہے جو پسماندگی، جہالت اور معاشی تنگی کی وجہ سے تعلیم سے بے بہرہ رہتی ہے۔
ہر کس و ناکس کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہ مدارس ملک کے شہریوں کے عموماً ایسے پسماندہ و نادار بچوں کی تعلیم کا بار اٹھاتے ہیں جو محض ان مدارس کی وجہ سے زیور تعلیم سے آراستہ ہو پاتے ہیں۔ اگر مدارس نہ ہوتے تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی اور ملک کو جاہل اور غیر مہذب شہری کی ایک بھیڑ فراہم ہوتی۔ مدارس اسلامیہ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انہوں نے ملک کی آزادی میں بڑی قربانیاں دی ہیں، بالخصوص دین اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لیے ملک ہندوستان میں یہ مضبوط قلعے ہیں۔ ان میں ایسی ایسی سربرآوردہ شخصیات اور قائدین ملت نے جنم لیا ہے جنہوں نے نہ صرف پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے بلکہ ملک کو بھی ایسی قیادت فراہم کی ہے جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنا، تدریسی فرائض انجام دینا یا غیر تدریسی امور کی انجام دہی ایک قربانی سے کم نہیں ہے۔ کم مشاہرے کے باوجود زیادہ محنت اور فکر مندی مدارس کے طلبہ و کارکنان کی شناخت رہی ہے۔ یہ عوامی امداد پر انحصار کرتے ہیں، کم مائیگی کے باوجوـد بہتر سے بہتر تعلیم اور تربیت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مرکزی دینی ادارے عالمی شہرت رکھتے ہیں اور ان میں ہمیشہ بیرونی ممالک کے طلبہ زیردرس رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں حکومت اترپردیش نے مدارس اسلامیہ کے سروے کا حکم نامہ جاری کیا تو مدارس کے ذمہ داران اور ملک کے بعض قائدین نے اس سلسلے میں تشویش ظاہر کی اور اسے مدارس میں مداخلت قرار دیا۔ واضح رہے کہ حکومت ہر سال منظور شدہ امداد یافتہ و غیر امداد یافتہ مدارس کا سروے کرتی ہے اور اس نے اس کے لیے ایک مخصوص پورٹل فراہم کر رکھا ہے جہاں تمام تفصیلات اور ڈیٹا اَپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ اگر مدارس اسلامیہ کے قیام کی اجازت حکومت ہند دیتی ہے اور مدارس اپنے تشخص کے ساتھ دینی تعلیم کا نظم کرتے ہیں تو یہ حکومت کے ساتھ تعلیمی تعاون ہوا۔ پھر حکومت اس میں اگر مداخلت کرتی ہے تو یقینا اس کا یہ قدم مدارس کو سبوتاژ کرنے اور دینی تعلیم کو متاثر کرنے کے مرادف ہے لیکن جہاں تک سروے کا تعلق ہے، محض اس عمل سے ہم حکومت کی نیت کو متعین نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ دینی تعلیم کے سلسلے میں تو مدارس خود مختار ہیں لیکن ان کی عمارت، اراضی اور دیگر انفرااسٹرکچر حکومت کے دائرۂ اختیار سے جدا نہیں کیے جاسکتے۔ مثلاً: اراضی کرایہ کی ہے یا ذاتی اور ذاتی اراضی پر عمارت سازی کے جو ضابطے ہوتے ہیں، کیا ان کا لحاظ کیا گیا ہے یا نہیں؟ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم ایک دستوری ملک میں اپنی تاریخ کے حوالے سے زیادہ دنوں تک نہیں جی سکتے۔ ٹرین پر سفر کرنے کے لیے ریزرویشن کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ہم حوالہ دیں کہ ہمارے دادا آئی آرایس ای میں ریلوے ملازم تھے تو اس سے ہم قانونی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بالکل اسی طرح مدرسے کا ذمہ دار اگر اس کی عمارت کا نقشہ نہیں بنواتا، فائر سسٹم کو فالو نہیں کرتا، اراضی کا داخل خارج نہیں کراتا تو حکومت کی نگاہ میں وہ قابل گرفت ہے اور یہی کمیاں ہیں جن کی بنا پر حکومت نے بعض مدارس کو منہدم کیا اور اسے انہدامی کارروائی کے لیے ہماری جانب سے کوئی قانونی کمزوری مل گئی، اس لیے موجودہ حالات کے پس منظر میں یہ لازم ہے کہ اداروں کی عمارت سازی اور اس سے متعلق امور کے لیے حکومت کے قانونی پہلو مدنظر ہوں تاکہ مستقبل میں کوئی دشواری نہ ہو، نیز وہ تمام امور جن سے کسی طرح کی قانونی دشواری یا پیچیدگی ممکن ہو اسے فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بعض تعلیمی و تربیتی امور کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کی جانب بھی متوجہ کرنا چاہوں گا۔ 1- تعلیم اور نصاب کے سلسلے میں لازم ہے کہ کسی بورڈ کے نصاب کو داخل کیا جائے اور اس کے ساتھ دینی تعلیم کی بنیادی کتابیں شامل نصاب کی جائیں۔ کیا بہتر ہوتا کہ ملک کے بڑے ادارے جو خود اپنے ملحقہ مدارس کی وجہ سے ایک بورڈ کی شکل اختیار کرگئے ہیں، حکومت سے اپنے نصاب کی منظوری حاصل کرلیتے اور اس طرح وہ اسے قانونی طور پر ایک تعلیمی بورڈ کی شکل دینے کے مجاز ہو جاتے لیکن صورتحال ایسی نہ ہونے کی وجہ سے کم از کم اتنا تو لازم ہے کہ ہم دینی و مذہبی تعلیم کے لیے کسی بھی بڑے ادارے سے الحاق کریں لیکن عصری علوم کو ضرور داخل نصاب کیا جائے تاکہ ہم جدید دور میں اجنبی شہری کی طرح نہ نظر آئیں اور ترقی کی شاہراہوں پر دیگر اقوام کی طرح آگے بڑھتے جائیں لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ ہم جذبات میں آکر اپنی خاص شناخت اور امتیاز کو پس پشت ڈال دیں اور عصری تعلیم گاہوں اور مدارس کے فرق کو ہم ختم کرنے کا دعویٰ کرنے لگیں جیسا کہ حالیہ دنوں میں پیش آرہا ہے۔ 2- اس دور میں وسائل کی کمی نہیں ہے، اس لیے قصبے کی سطح تک غیر اقامتی ادارے ہی قائم ہوں اور قرب و جوار کے طلبہ تعلیم کے اوقات میں آکر تعلیم حاصل کریں اور بقیہ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاریں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اقامتی اور مرکزی اداروں کا رخ کریں۔ اس سے مدارس پر اخراجات کا بار کم ہوگا، حالات کی نزاکت کی وجہ سے جوابدہی کا عمل کم ہوگا یا ڈے بورڈنگ کا طریقۂ کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس سے تربیتی پہلو مضبوط ہوگا اور والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داریاں بھی قائم رہیں گی، بیرونی طلبہ کی تعداد کے بجائے ادارہ مقامی آبادی کے طلبہ پر منحصر ہوگا۔ اس طرح حالات کی خرابی یا کسی ناگہانی میں تعلیم بھی متاثر نہ ہوگی۔3- نصاب تعلیم میں عصری علوم کو شامل کیا جائے۔ اردو عربی کے ساتھ ملک میں رائج زبان ہندی اور انگریزی کی تعلیم کو بھی لازم کیا جائے اور نصاب کے سلسلے میں مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی کی موجودہ تجاویز پر غور کیا جائے اور ان کو نافذ کیا جائے کہ دسویں جماعت تک مشترکہ نصاب تعلیم ہو۔ دینی کتابوں میں فنی کتابوں کو اختصاص کے لیے رکھا جائے اور عالمیت تک محض ضروری مضامین کی کتابیں پڑھائی جائیں، عالمیت کے بعد طلبہ اپنے مزاج اور ذہنی بالیدگی و ذوق کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی فن میں اختصاص کرسکتے ہیں۔4- مدرسے کی قانونی حیثیت سے صرف نظر نہ کیا جائے۔ اس کا ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ عمارت سازی میں حکومت کے قوانین کو مدنظر رکھا جائے اور اس کی قانونی حیثیت کے لیے کاغذی خانہ پری کی جائے۔ اسی طرح مدرسے کے آمد و صرف کے لیے بھی کسی اکاؤنٹینٹ کے مشورے سے رائج طریقوں کے مطابق آڈٹ کرایا جائے۔
قانونی اور دستوری سطح پر اصلاحات کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ مدرسہ اپنے اندرون کی اصلاح کی فکر کرے، جہاں دنیا کے ہر شعبۂ حیات میں دن بہ دن اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے، مدارس اسلامیہ میں اصلاح سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً طلبہ کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ تنبیہ و تادیب اور طعن و تشنیع کی رائج روایات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ مار پیٹ کے فرسودہ اور ازکار رفتہ اور غیر اسلامی طریقوں کو یکسر ختم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ صفائی، ستھرائی جو اسلام کی شناخت ہے، اس کو ملحوظ رکھنا ہمارا مذہبی فریضہ اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سے امور جو قابل اصلاح ہوں، ان پر غور کرنے اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ تدریس کے سلسلے میں موجودہ دور میں اساتذہ کی ٹریننگ کا ایک بڑا فائدہ سامنے آیا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں بے شمار ادارے اساتذہ کی ٹریننگ کے مراکز ہیں۔ مدارس میں پڑھانے والوں کی ٹریننگ کا بھی نظم ہونا چاہیے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطے میں قائم مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ مدارس کے اساتذہ کی بہتر ٹریننگ کا ادارہ ہے، جو عرصے سے مدارس میں عصری علوم کی تدریس کے باب میں مفت خدمات انجام دے رہا ہے، اس لیے تدریسی پروگراموں میں اساتذہ کو بھیجنا یا خود اپنے ادارے میں اس کا نظم کرنا ان شاء اﷲ بہت مفید ہوگا، شعبۂ مدارس ملحقہ ندوۃالعلماء بھی تدریبی پروگرام منعقد کرتا ہے۔ اسے مزید مفید بنانے اور ماہرین فن کی خدمات کی اشاعت کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے تدریبی پروگرام ذہنی دریچوں کو کھولنے اور جدید تجربات سے استفادہ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
اخیر میں عرض ہے کہ مدارس کی خدمات کو منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک بہترین ذریعہ بچوں کے ثقافتی و تعلیمی پروگرام اور ملک کی آزادی اور دیگر موقعوں کی تقریبات ہیں۔ ان میں برادران وطن میں اہل علم اور تعلیم و تعلم سے وابستہ افراد نیز سرکاری ذمہ داران کو بھی مدعو کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ اس سے ہمارے طلبہ کی صلاحتیں اجاگر ہوں گی اور مدارس کے سلسلے میں شکوک و شبہات کی دبیز پرت ہٹے گی اور ملک و ملت کی ترقی و عروج کے راستے کھلیں گے۔ ان شاء اﷲ۔n
(مضمون نگار دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤمیں استاذ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS