نیلم مہاجن سنگھ
ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر نے سینٹ اسٹیفن کالج سے تعلیم حاصل کی اور جے این یو سے پی ایچ ڈی کرنے والے 1977 کے آئی ایف ایس افسر ہیں۔ وہ امریکہ ، چین وغیرہ میں ہندوستان کے سفیر تھے اور وزارت خارجہ کے سکریٹری بھی رہے۔ اقوام متحدہ کے 77ویں اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر ایس جے شنکر کے ذریعہ کی گئی تقریر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسے ہی نہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈاکٹر جے شنکر پر اتنا اعتماد کیا ہے۔ 25ستمبر 2022کے اجلاس میں انہوںنے کہا کہ میں آپ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت 1.3ارب سے زیادہ کی آبادی والے ملک کی طرف سے نیک خواہشات لایا ہوں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کی صدارت کرنے کے لیے منتخب ہونے پر کسابا کوروسی کو مبارکباد دی۔ انہوںنے کہاہندوستان اقوام متحدہ کے اجلاسوں اور قرار دادوں پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عالمی نظام کے لیے چیلنج سے بھرا وقت ہے۔
اس اجلاس کا موضوع تھا ’ایک واٹر شیڈ مومنٹ انٹر لاکنگ چیلنجز کے لیے انقلابی حل ‘ ترقی اور خوشحالی کی طرف ہندوستان کے سفر میں ایک اہم میل کا پتھر ہے۔ ہندوستان اپنی آزادی کے 75سال کا جشن منا رہا ہے جسے آزادی کا امرت مہتسواورامرت کال کہتے ہیں۔ اس دور کی کہانی لاکھوں عام ہندوستانیوں کی محنت عزم مصمم اور جستجو سے عبارت رہی ہے۔ وہ صدیوں سے لوٹے گئے سماج کو دوبارہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ غیر ملکی حملوں اور سامراج سے ہندوستان ابھر رہا ہے۔ مسلسل ترقی موسمیاتی تبدیلیوں ، زمینی حقائق میں نظرآتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی دوراندیشی اور ترقی پسند قیادت میں ایک نیا ہندوستان ایک پراعتماد اور خودکفیل ہندوستان بن کر ابھر رہا ہے۔ ہماری صدی کے لیے اس کا ایجنڈا ان پانچ اصولوں کی اساس ہے جن کو ہم نے ہندوستان کی آزادی کے دن اختیار کیاتھا۔ ایک- اگلے 25سالوں میں ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے لیے یہ فلاح وبہبود پیدا کرنے والا عزم ہے۔ دوسرا- ہم اپنے آپ کو سامراجیہ وادی ذہنیت سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمہ جہت اور زیادہ عالمی سطح کے نقطۂ نظر سے ترقی کی کوشش۔ تیسرا- ہماری خود کفیل وراثت کو وسیع تر بنانا ہمارے لیے زیادہ خوش آئند ہوگا۔ اس میں ماحول کی دیکھ بھال اور فکر کا حصہ ہے جو ہمارے روایتی رہن سہن اور طرز فکر میں شامل ہے۔ چوتھا- ہم اتحاداور یکجہتی کو اور زیادہ فروغ دیں گے۔ یہ دہشت گردی متعدد امراض یا ماحولیاتی بحران جیسے عالمی ایشوز کو ایک ساتھ ملا کر ان کو حل کرنے کی کوشش ہے اور پانچوں – فرض شناسی اور ذمہ داریوں کے تئیں بیداری پیدا کریں گے۔ یہ اصول بین الاقوامی سطح پر اتنے ہی نافد ہوتے ہیں جتنے کہ عام شہریوں پر ۔ یہ پانچ عزائم ہمارے صدیوں پرانے نقطۂ نظر کی تصدیق کرتے ہے جو دنیا کو ایک کنبے کا حصہ بناتے ہیں۔ اسی اعتماد نے 100سے زیادہ ملکوں کو ٹیکوں کی فراہمی کے لیے ہمیں طاقت دی۔ اسی طرح ایچ اے ڈی آر حالات میں ہندوستان فلاحی وبہبود کے امور میں دنیا بھر کے ممالک کا ساتھ دیتا رہا ہے جب ان کے سامنے بحران ہو۔ یہاں تک کہ جب ہم اپنی خود کی ترقی کے منازل طے کرتے ہیں تو ہندوستان ایشیا ، افریقہ، لاطینی امریکہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو شراکت داری فراہم کرتا ہے۔ ہم ان کی ضرورتوں اور ان کی ترجیحات کی بنیاد پر یہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ آج فوکس ماحول کو پیڑ پودوں سے ہرا بھرا بنانے، بہتر کنکٹیویٹی ، ڈیجیٹل ڈلیوری اور صفائی ستھرائی پر ہے۔ ہماری یکجہتی اور اتحاد صرف لفاظی نہیں ہے انہیں دنیا بھر میں 700پروجیکٹوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دنیا پہلے سے ہی وبائی مرض کے بعد اقتصادی چیلنجز کا سامنا کررہی ہے۔ ترقیاتی امور میں غیر یقینی صورت حال ہے اس کے ساتھ اب غذائی اجناس کی بڑھتی قیمت اور ایندھن غذا اور دیگر ضروریات زندگی کے اشیا کی کمی جیسے چیلنجز ہمارے سامنے ہیں۔ یہ تجارتی نظام اور یوکرین میں پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ بحر ہند کے خطے میں بھی اس کی صورتحال تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ جیسا کہ کووڈ کے دور میں دیکھا گیا اس کا بہت زیادہ اثر اس خطے میں ہوا۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی مذاکرات، کانفرنسوںمیں ان حساس ایشوز پر بات چیت کی جائے۔ یوکرین میں جنگ جاری ہے اور اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ ہندوستان امن کے ساتھ ہے اور ہم مضبوطی کے ساتھ اس موقف پر قائم رہیں گے۔ ہم اس کے حق میں ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ہم ان لوگوں کے حق میں ہیں جو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ بھلے ہی وہ وغذا ، ایندھن اور دیگر اشیا کی بڑھتی قیمتوں کو دیکھ رہے ہوں۔ اس لیے یہ ہمارے اجتماعی حق میں ہے کہ اس تنازع کا جلد ہی کوئی حل نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کے اندر اور باہر میانہ روی کے ساتھ کام کریں۔ ان میں کچھ مسائل کووڈ کی وبا اور یوکرین طرح کے تنازعات سے بڑھ سکتے ہیں لیکن یہ مسائل بہت گہری صحت مندانہ فکر اور حکمت عملی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ نازک معیشت میں قرض کا جمع ہونا ایک خاص مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسے وقت میں بین الاقوامی برادری کو تنگ ذہنی پر مبنی ایجنڈوں سے اوپر اٹھنا چاہیے۔
ہندوستان اپنے حصے کے لیے غیر معمولی طریقے سے کوشش کررہاہے ۔ ہم نے 50ہزار میٹرک ٹن گیہوں اور کئی قسطوں میں دوائیں اور ٹیکے افغانستان بھیجے تھے۔ ایندھن اور ضروری اشیا کی قلت اور تجارتی بحران کو حل کرنے کے لیے سری لنکا کو 3.8بلین ڈالر کا قرض بھی دیا ہے۔ ہم نے میانمار کو 10ہزار میٹرک ٹن غذائی اجناس مہیا کرائی ہیں اور بڑی تعداد میں ویکسین بھی فراہم کرائی ہے۔ سیاسی پیچیدگیوں میں بنا الجھے ہم نے انسانی ضروریات اور اقدار کو اہمیت دی ہے۔ کووڈ کے دور میں عالمی سطح پر یہ سوال اٹھا یا گیا کہ اقتدار کی مرکزیت سے مجبور ہو کر کب تک کام کیا جائے گا۔ ہم سبھی اور خودغرضی اور اپنے مفادات کے تعاقب کی ذہنیت سے ابھر کر کام کررہے ہیں۔ یوکرین تنازع کے نتیجے میں بنیادی مسائل کو اور بڑھا دیا ہے ۔ خاص طور پر غذا اور توانائی کے معاملے پر ماحولیاتی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور واقعات میں اس تنازع نے اور پیچیدہ کردیا ہے۔ جن کا دنیا پہلے ہی سامنا کررہی تھی۔ صنعتی سطح پر پیچیدگیوں کے سوال ہیں۔ اس نے یقینی طور پر ہماری صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا دیا ہے لیکن ہماری کمزوریوں کو بھی ابھارا ہے۔ آپسی اعتماد اور شفافیت ڈیجیٹل ٹیکنیک نے ترقی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ماحولیاتی سطح پر کارروائی اور فضائی آلودگی جیسے ایشوز پر ہماری فکرمندی برقرار ہے اوران امور کے حال میں ہماری کھوج نے بین الاقوامی سطح پر سمجھوتوں کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ ہم ماحول کے تحفظ اور عالمی فلاح وبہبود کو آگے بڑھانے کی اجتماعی اور منصفانہ کوششوں کو اپنی حمایت اور تعاون دینے کے لیے تیار ہیں۔ ماحول کے مطابق طرز زندگی ، یا Cop-26کے موقع پر گلاسگو میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ پیش کیاگیا ایک فارمولہ تھا۔ فطرت ہماری ماں کی طرح ہے اور ہم اس کے تحفظ کے لیے اپنے عہد کے پابند ہیں۔
ہندوستان یو این ایف سی سی سی (ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن)اور پاس کے گئے سمجھوتوں کے تحت ماحولیاتی تبدیلی کے لیے لڑنے کے لیے ہندوستان پرعزم ہے۔ جنوب جنوب تعاون کے لیے ہندوستان اپنے عزم پر قائم ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر ہے کہ سچی ترقی کے تئیں پر عزم رہنے کے ساتھ ساتھ روایت کا احترام اور ملک کی خودانحصاری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ جیسا کہ ہم اس دسمبر میں جی-20کی قیادت شروع کررہے ہیں۔ ہم ترقی پسند ملکوں کے سامنے آنے والے مسائل کے تئیں حساس ہیں۔
ہندوستان دیگر جی-20ملکوں کے ساتھ قرض ،اقتصادی ترقی، غذائی اجناس اور توانائی کے تحفظ اور خاص طور پر ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرتا رہے گا۔ اقتصادی اداروں کے کام کاج میں اصلاحات ہماری اولین ترجیحات بن کر ابھری ہیں۔ ہندوستان اس سال سیکورٹی کونسل کے ممبر کے طور پر اپنی مدت کار پوری کررہا ہے۔ اپنے دور میں ہم نے کونسل کے سامنے کچھ حساس اور اہم لیکن ایسے ایشوز پر کام کیا ہے جن پر شدید اختلاف رائے ہے۔ ہم نے سمندر میں سیکورٹی اور قیام امن کے لیے اور دہشت گردی کے مقابلے جیسے ایشوز پر توجہ دلائی ہے۔ ہمارا تعاون انسانی اقدار کے فروغ ساتھ ساتھ صنعت وحرفت کی ترقی وتوسیع کے مواقع فراہم کرانے کو لے کر اقوام متحدہ کی امن فوج کے تحفظ کو یقینی بنانے تک کے ایشوز پر محیط ہے۔ دہشت گرد مخالف کمیٹی کے صدر کے طور پرہم اس سال ہندوستان کے شہر ممبئی اور راجدھانی دہلی میں اپنی خصوصی میٹنگ کریں گے ۔ میں سبھی ممبران کو اس میں شرکت کے لیے مدعو کرتا ہوں۔ صدیوں سے سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا کرنے کے بعد ہندوستان اس مسئلہ پرزیروZero Tolerence ٹالیرینس کی بات کرتا ہے۔ دہشت گردی کی کسی بھی شکل کا کوئی بھی جواز نہیںہوسکتا ہے اور کوئی بھی لفاظی چاہے وہ کسی بھی طرز کی کیوں نہ ہو، کبھی بھی خون کے دھبوں سے ڈھک نہیں سکتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنے مجرموں پر قدغن لگا کر دہشت گردی کاجواب دیتاہے۔
ایسے سخت بدامنی کے وقت میں ضروری ہے کہ دنیا اس معاملہ میں زیادہ سے زیادہ آوازو ں کو سنے اور ان حساس امور پر زیادہ سے زیادہ حقائق کا سامنا کرے۔ ہندوستان یہ مانتا ہے کہ یہ جنگ یا آپسی کشمکش بڑھانے کا وقت نہیں ہے۔ یہ ترقی اور آپسی تعاون کو بڑھانے کا وقت ہے۔ ماضی میں بھی اس باوقار ایوان میں ہم نے نظریاتی ایشوز پر ایسے نکات کو اہمیت دی ہے جن پر اتفاق رائے ہو۔ یہ اہم ہے کہ ہم بین الاقوامی تعلقات میں کیے گئے وعدوں اور عالمی تعاون کی ضرورت پر اپنے یقین کو برقرار رکھیں۔ اس لیے ہم امن ، ترقی او رخوشحالی کی تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسا کرنا ضروری ہے۔
(مضمو ن نگار سینئر صحافی اور سالیٹسر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]
اقوام متحدہ میں وزیر خارجہ کی غیر معمولی تقریر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS