زین شمسی
ایسا ہونا تو نہیں چاہیے تھا، مگر ہوا۔ ہوا یہ کہ عدالت نے میڈیا کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ پرائیویٹ چینلس کو قومی چینل بنانے کا نام دینے کے بعد میڈیا نے جس طرح عدالتوں کے جج کے کام آسان کر دیے، اس سے حقیقی ججوں میں بے چینی پیدا ہوگئی، وہ یہ سوچنے لگے کہ ہم تو الزامات کی تحقیقات کرنے کے بعد کوئی بھی فیصلہ دیتے ہیں، مگر میڈیا اراکین صرف ایک فوٹو دیکھ کر یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ اس شخص کو پھانسی دے دینی چاہیے، خواہ وہ تصویر دوسرے دن اور کبھی کبھی اسی دن غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ میڈیا کا نفرتی پروپیگنڈہ اب اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ مباحثہ کے دوران وہ اپنے خلاف بولنے یا سرکار کی تنقید کرنے والے مہمانوں کی آواز ہی میوٹ(بند)کر دیتا ہے۔ ابھی پی ایف آئی کے معاملہ میں تو تمام چینلوں نے اس بات کا بیڑہ اٹھا لیا کہ تمام مسلمانوں کو جیل کے اندر بھجوا دینا ہے۔ پنے میں پاکستان زندہ باد کا ڈاکٹوریٹ ویڈیو ملا تو میڈیا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور اس نے ایسی ایسی باتیں کیں کہ اگر اسے عدالت کے روبرو کیا جائے تو سبھی اینکرس کو قید بامشقت کی سزا یقینی ہے۔ مگر آج کے ہندوستان میں میڈیا کاپاگل گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے اور اس پر نکیل کسنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔ اسی لیے عدالت عظمیٰ نے میڈیا کی سرزنش کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ یہ نہایت تعجب کی بات ہے کہ میڈیا کے اس پاگل پن پر سرکار خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ نیوز چینلوں کے ٹی وی اینکرس اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے سماج میںنفرت پھیلانے کا کام بے خوف و خطر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ٹی وی اینکرس اپنے مہمان کو بھی خاطرخواہ وقت نہیں دیتے ہیں بلکہ اپنی بات پیش کرنے کے لیے ہر طرح کی منافرت کا سہارا لیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ میڈیا کی اس نفرت انگیزی پر عدالت نے اپنا بیان دیا ہے، اس سے پہلے بھی عدالتوں نے میڈیا کی خوب سرزنش کی ہے، لیکن دنیا نے دیکھا ہے کہ اسی میڈیا کے سب سے تیزوتند اینکر ارنب گوسوامی کو عدالت نے ایک دن میں اس کے جرم سے آزاد کرتے ہوئے اسے ضمانت دے دی۔ اس دن یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ میڈیا ہی قانون ہے اورایسا صرف اس لیے ہوپایا ہے کہ عدالتیں آستھا اور جلوس کو دیکھ کر فیصلہ کرنے لگی ہیں۔ اس سے عدالت کا وقار تو مجروح ہوا ہی، دیگر اداروں کا عدالت کے تئیں خوف جاتا رہا۔ عدلت چاہتی ہے کہ میڈیا نامی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھی جائے اور اس کیلئے ریگولیٹری سسٹم لایا جائے تاکہ میڈیا کے پروپیگنڈے اور افواہ پر اینکرس کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔عدالت نے اس کے لیے مرکزی حکومت کودو ہفتوں میں جواب دینے کا حکم دیا ہے،لیکن کیا یہ ممکن ہے۔ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں عدالت نے جس پھرتی کا مظاہرہ کیا تھا، کیااسی چابکدستی کے ساتھ اس پر عمل کرے گی؟
لیکن اب سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ میڈیا کے گلے میں سرکار گھنٹی کیوں باندھے گی؟ جسٹس جوزف نے خود اعتراف کیا کہ نفرت انگیزی کا سب سے زیادہ فائدہ سیاست داں اٹھارہے ہیں تو ان کے اس سوال کا جواب تو ان ہی کے سوال میں پوشیدہ ہے۔ جب فائدہ سیاست دانوں کو ہی ہورہا ہے تو مقننہ کو کیا ضرورت پڑی ہے میڈیا کے لیے ریگولیٹری نظام لانے کی۔ یہی نہیں میڈیا نے سرکار کے دفاع میں جس طرح کی قوت لگائی اتنی قوت خود سرکار اپنے دفاع میں نہیں لگا سکتی تو اپنے سب سے بڑے حمایتی کے گلے میں وہ گھنٹی کبھی نہیں باندھ سکتی۔جسٹس جوزف ہوں یا کوئی اور یہ ان کی خام خیالی ہے کہ ان کی رولنگ پر سرکار کوئی کارروائی کرپائے گی۔یہاں تک کہ کئی ایسے موقع بھی آئے کہ سرکار کی چاپلوسی میں میڈیا اتنا آگے بڑھ گیا کہ سرکار کو ہی شرمندگی کا احساس ہونے لگا۔میڈیا کی کمزوری کی اس سے بڑی علامت کیا ہوگی کہ وہ آج تک سرکار سے یا سرکار کے آلہ کاروں سے سوال کرنے کی ہمت یکجا نہیں کرسکا اور اپوزیشن لیڈروں کی آوازیں میوٹ کرنے کا چلن بڑھا گیا۔
تاہم سپریم کورٹ نے میڈیا کے معاملے میں سرکار کے علاوہ الیکشن کمیشن کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ نیوز چینلس کا رجسٹریشن منسوخ کرنے کا اختیار ای سی کو ہے لیکن وہ بھی کوئی کارروائی نہیں کرتا۔تاہم الیکشن کمیشن اس معاملے میں پہلے ہی اپنے ہاتھ کھڑا کر چکا ہے، اس نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ کسی خاص قانون کی عدم موجودگی میں، نفرت انگیز تقاریر اور افواہوں پرلگام لگانا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔
خیر عدالت سے سرکار، سرکار سے الیکشن کمیشن اور الیکشن سے پھر عدالت۔ یہ معاملہ ایک چکر بن کر رہ جائے گا، اس کا کچھ ہونے والا نہیں ہے تاہم عدالت عظمیٰ کی فکرمندی آج کے پرامن شہریوں کی بھی فکرمندی ہے۔ہاں اسے ہم عدالت کی معصومیت ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جس مرکزی حکومت کو میڈیا پر لگام کسنے کی تلقین کی جارہی ہے، وہ خود میڈیا پر منحصر ہے۔اپنے مخالفین کی آواز کو کچلنے کے لیے وہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹری کے دائرے میں لاچکی ہے۔کوئی نیا قانون بنائے بغیر ہی مرکز سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز کی باریکی سے نگرانی کر رہی ہے۔ سرکار پر تنقید کرنے والے یوٹیوب چینلز پر وقتاً فوقتاً کارروائی کا سلسلہ جا ری ہے۔ متعددیوٹیوب چینلز کے خلاف وزارتِ اطلاعات و نشریات نے غلط جانکاری پھیلانے کا الزام لگا کر ان پر اَپلوڈ تقریباً تمام ویڈیوز کو بلاک کر دیااور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ اسی دن لیا گیا جس دن عدالت میڈیا کے خلاف کارروائی کرنے کاحکم صادر کر رہی تھی۔
دراصل نفرت کو کاروبار بنانے کا نسخہ کیمیا سرکار نے میڈیا کے حوالے کر دیا ہے۔ اس نے یہ کام اتنی خوبی کے ساتھ انجام دیا کہ اب عوام کو نفرت سے ہی محبت ہوگئی ہے۔ وہ نفرت ہی سننا چاہتے ہیں اور نفرت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی اس سرزنش کی ہم تعریف کر سکتے ہیں مگر اس کی معصومیت پر مسکرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]