زرّین خان
بھائی جان! رکئے۔۔۔‘‘ فہد نے احد کو آواز لگائی تو اس نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ فہد گھر کے دروازہ پر نڈھال سے پڑے بلی کے بچے کو دیکھ رہا تھا۔
احد نے آگے بڑھ کر بلی کے بچے کو چھوا تو وہ تھوڑا سا ہلا لیکن اس کے بعد اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ احد نے فوری ڈور بیل بجائی تو ان کی امی جان نے دروازہ کھولا۔
’’امی جان! دیکھئے یہ بلی کا بچہ۔۔۔ شاید بھوک سے نڈھال ہے۔ یہ اپنی آنکھیں بھی نہیں کھول پارہا ہے۔‘‘
’’یہ تو بہت چھوٹا ہے، یہ پیالی سے دودھ نہیں پی پائے گا، اچھا تم یہیں رکو، کبھی اس کی ماں بلی آجائے گی تو اسے نہ پاکر کبھی پریشان ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے امی جان کچن سے ایک پیالی میں دودھ اور روئی لے آئیں۔روئی دودھ میں بھگو کر اس کی مدد سے بلی کے بچہ کو دودھ پلایا گیا، رزق پیٹ میں پہنچتے ہی بچہ نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے جسم میں حرکت سی ہوئی تو احد اور فہد دونوں اس کی نیلی نیلی آنکھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ سفید رنگ کا چھوٹا بچہ انہیں اتنا اچھا لگا کہ انہوں نے اپنی امی سے کہا کہ ’’امی جان، اس بچہ کو ہم اپنے گھر لے جاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں بیٹا، یہ بہت چھوٹا ہے۔ اس کو بھرپور توجہ کی ضرورت ہے جو اس کی ماں ہی دے سکتی ہے۔‘‘
’’امی جان، ہم دونوں اس کا بھرپور خیال رکھیں گے، آپ اجازت دیجیے بس۔۔۔‘‘
’’نہیں، آپ اسے یہیں رہنے دیجیے اور اب اس بچہ سے دور ہوجائیے کیوں کہ اس کی ماں بلی نے اگر آپ کو اپنے بچہ کے پاس دیکھا تو آپ پر حملہ بھی کرسکتی ہے۔‘‘
’’لیکن وہ ہم پر حملہ کیوں کرے گی؟ ہم نے اس کے بھوک سے نڈھال بچہ کو دودھ پلایا ہے۔‘‘احد اور فہد نے معصومیت سے سوال کیا۔
’’بلی کو کیا معلوم کہ آپ نے اس کے بچہ کے ساتھ نیکی کی ہے یا کسی بدی کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے وہ اپنے بچہ کو خطرہ میں محسوس کرتے ہی آپ پر حملہ کرسکتی ہے۔‘‘ابھی یہ بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ بلی وہاں پہنچ گئی اور دور سے میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ احد، فہد اور ان کی امی جان پیچھے ہوگئے تو بلی بڑی بیقراری سے اپنے بچہ کی جانب لپکی اور اسے اپنے منھ میں دبا کر گلی کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی، جہاں اس کے باقی بچے بھی تھے۔ بلی بہت دیر تک اپنے بچہ کو چاٹتی رہی جس کے بعد وہ بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر دیگر بلی کے بچوں کے ساتھ اپنی ماں کے اردگرد چکر لگانے لگا۔ کبھی بچے بلی کے اوپر چڑھتے تو کبھی اس کے اردگرد چکر لگاتے یہ منظر احد فہد کو بڑا اچھا لگ رہا تھا۔
انہوں نے اپنی امی جان سے کہا: ’’امی جان، بلی کے اتنے سارے بچے ہیں، ہم ایک بچہ گھر لے جائیں گے تو اسے کیا فرق پڑے گا؟‘‘احد نے سوال کیا
’’اگر فہد کو میں تمہاری خالہ امی کے پاس بھیج دوں توکیسا رہے گا؟‘‘
’’میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘ فہد بیقراری سے کہتے ہوئے اپنی ماں سے لپٹ گیا، جبکہ احد سمجھ گیا کہ اس کی امی جان اسے کیا سمجھانا چاہتی ہیں۔
’’ٹھیک ہے، ہم ان بچوں کو اپنے گھر نہیں لے جاسکتے لیکن ان کے کھانے پینے کا خیال تو رکھ ہی سکتے ہیں۔‘‘احد نے کہا۔
’’ہاں، یہ صحیح ہے، چلو میں تمہیں تھوڑا سا گوشت نکال کردیتی ہوں، تم وہ بلی کے آگے رکھ دو۔ جب تک یہ بلی اپنے بچوں سمیت یہاں ہے، یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ ان کی خوراک کا دھیان رکھنا ہے۔ ‘‘
احدفہد بہت خوش ہوئے اور انہوں نے یہ کام بڑی ذمہ داری سے نبھایا۔ اس طرح کرنے سے بلی اور اس کے بچے احد اور فہد سے اتنے مانوس ہوگئے کہ وہ انہیں دیکھتے ہی ان کی طرف لپکتے۔ بلی بھی سمجھ گئی تھی کہ یہ لڑکے اس کے بچوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، اسی لیے جب احد فہد اس کے بچوں کے ساتھ کھیلتے تو وہ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھی رہتی یا پھر انہیں یونہی کھیلتا چھوڑ کر اطمینان سے سیر کے لیے نکل جاتی، کیوں کہ اسے یہ یقین ہوگیا تھا کہ یہ بچے(احد اور فہد) اس کے بچوں کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ جب تک وہ ان کے پاس ہیں، وہ مکمل طور پر محفوظ ہیں، انہیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔rvr
تحفظ کا یقیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS