عارف شجر
2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل سیاسی پیش رفت نے حزب اختلاف کے اتحاد سے پہلے اندرونی بحران کے دور کو جنم دے دیا ہے۔کانگریس کے اندر اندنوں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے، ایک جانب جہاں کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو بچانے اور اسے پھر سے نئی زندگی بخشنے اور نئی توانائی دینے میں راہل گاندھی بھارت جوڑو سلوگن لے کر سڑک پر نکل پڑے ہیں تو وہیں دوسری جانب کانگریس قومی صدر انتخاب کو لے کر کانگریس کے اندر ہی گھمسان مچا ہوا ہے،پارٹی صدر کا عہدہ لینے سے راہل گاندھی کاا نکار اور ایک شخص ایک عہدہ کے اعلان کے بعد کانگریس کو قومی صدر کے لئے کوئی معقول لیڈر نظر آ رہا ہے ایک لیڈر اشوک گہلوت جو راجستھان کے سی ایم بھی ہیں ان کا کا نام کانگریس کے اعلیٰ کمان کے سامنے آیا تو وہ بھی اعلیٰ کمان کو دغا دے گئے گہلوت یہ چاہتے تھے کہ وہ سی ایم کی کرسی پر بھی چپکے رہیں اور کانگریس قومی صدر کا عہدہ بھی سنبھالیں حالانکہ انہوں نے یہ بات اعلی کمان کو نہیں کہی لیکن اپنی سیاسی بصیرت سے کانگریس کے ممبران اسمبلی کو آگے کردیا کانگریس ممبران اسمبلی نے ایک خصوصی میٹنگ کرکے گہلوت کو سی ایم عہدہ پر بنے رہنے کی ایک طرح سے اعلیٰ کمان کو دھمکی دے ڈالی، کہا اگر گہلوت سی ایم نہیں رہیں گے توسارے ممبران اسمبلی استعفیٰ دے دیں گے، اندر کی بات یہ تھی کہ کانگریس قومی صدر کا عہدہ ملنے کے بعد اشوک گہلوت کو سی ایم کا عہدہ چھوڑنا پڑتا اور اسکی جگہ پر سچن پائلٹ کو سی ایم بنا دیا جاتا اور یہ گہلوت نہیں چاہتے تھے کہ سچن پائلٹ کو جانشیں بنایا جائے کیوں کہ اس کا گہلوت کو بھی علم ہے کہ اگر سچن پائلٹ سی یم بن جاتے ہیں توانکے لئے رجستھان میں سیاسی زمین تنگ ہو جائے گی۔
راجستھان میں اشوک گہلوت کے حامی ممبران اسمبلی کی بغاوت پر سونیا گاندھی کو کافی دکھ ہوا ہے، انہیں اس بات سے اتنا غم ہوا کہ گہلوت جیسے لیڈر کے تئیں وہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں ان کا کہنا تھا کہ اشوک گہلوت پر کانگریس کو کافی اعتماد تھا انہیں اس کی توقع بالکل نہیں تھی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اشوک گہلوت نے یہ بات اشاروں اشاروں میں کہہ ڈالی ہے کہ وہ سی ایم کا عہدہ نہیں چھوڑیں گے بھلے ہی وہ کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب لڑیں اور کامیاب بھی ہو جائیں گہلوت دو عہدہ ایک ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ایسے میں پارٹی صدر کا عہدہ گہلوت کی پہنچ سے باہر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گاندھی خاندان بھی اب گہلوت کے علاوہ دیگر ناموں پر غور کر رہا ہے۔ گہلوت نے پیر کو اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنا تھا، لیکن انہوں نے پرچہ نامزدگی تک نہیں لیا۔ملیکارجن کھڑگے اور ماکن، جو لیجسلیچر پارٹی میٹنگ کے لیے بطور مبصر گئے تھے، سونیا گاندھی کو سوموار کو جے پور میں ہونے والی غیر متوقع پیش رفت کے بارے میں مطلع کیا۔ بعد میں، ماکن نے نامہ نگاروں کو بتایا، پارٹی صدر نے تحریری طور پر پیش رفت کی مکمل رپورٹ طلب کی ہے۔ گہلوت کے انکار کے بعد اب قومی صدر کون بنے گا یہ ابھی طے نہیں ہو پایا ہے لیکن جن ناموںکا ذکر زوروں پرہے ان میں اگلے صدر کے طور پر کمل ناتھ کے ساتھ ملکاارجن کھڑگے اور مکل واسنک کے نام شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کانگریس کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ خبر یہ بھی ہے کہ گہلوت کی بغاوت سے کانگریس اعلٰی کمان اشوک گہلوت کو پارٹی سے نکال بھی سکتی ہے۔ گہلوت کے حامیوں میں زیادہ آواز اٹھانے اور مخالفت کرنے والے ایم ایل اے کو وجہ بتاؤ نوٹس دیا جا سکتا ہے۔ ان میں شانتی دھاریوال، پرتاپ کھچاریاواس اور مہیش جوشی شامل ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو کافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
کانگریس کے ستارے ابھی ٹھیک نہیں چل رہے ہیں کانگریس جب بھی بی جے پی سے مقابلے کی تیاری کرنا چاہتی ہے تب ہی پارٹی کے اندر سے بغاوت کے بگل پھونک دئے جاتے ہیں جن کا حال کے دنوں میں کانگریس چھوڑ کر جانے والے کئی سینئر لیڈر بھی شامل ہیں جن پر کانگریس اعلیٰ کمان کو اعتماد بھی تھا اور بھروسہ بھی اعلیٰ کمان کو یہ امید تھی کہ کانگریس چھوڑ کر جانے والے قائدین بی جے پی سے مقابلہ کر سکتے تھے اب جبکہ کانگریس قائدین پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو راہل گاندھی نے ان خالی جگہوں کو بھرنے کے لئے بھارت جوڑو یاترا پر نکل چکے ہیں ، اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت جوڑو یاترا میں جس طرح کثیر تعداد میں عام لوگ جڑ رہے ہیں اور راہل گاندھی کو بھر پور پیار دے رہے ہیں اس سے ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ راہل گاندھی نئی پود تیار کر رہے ہیں اور اس نئی پود میں کانگریس سے وفاداری بھی شامل ہے، راہل گاندھی نہیں چاہتے ہیں کہ 2024 میں بی جے پی پھر سے اقتدار میں آئے بی جے پی کو شکست دینے کے لئے پارٹی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے سامنے براہ راست چیلنج کھڑا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب کانگریس صدر عہدہ کے لئے جس طرح سے کانگریس کے اندر گھمسان مچا ہوا ہے وہ یقینا کانگریس کو کمزور کرنے والی سیاست چل رہی ہے کانگریس قائدین کا پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ ہنوز برقرار ہے تو وہیں اعلیٰ کمان کے سامنے2024 کے عام انتخابات کا بھی چیلنج بنا ہوا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کانگریس پارٹی کے اندر مچ رہے خلفشار اور بغاوت کو ختم کرتے کرتے 2024 کا الیکشن قریب آ جائے گا اور پھر کانگریس بی جے پی کے مقابل کھڑی ہو پائے گی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے
بہرحال ! راجستھان میں سیاسی اٹھا پٹخ سے جہاں کانگریس داغدار ہوئی ہے وہیں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان فرق صاف نظر آرہا ہے۔ بی جے پی نے گجرات میں وجے روپانی، کرناٹک میں یدیورپا، آسام میں سربانند سونووال اور ترویندر راوت، اتراکھنڈ میں تیرتھ سنگھ جیسے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا لیکن پارٹی کے تضادات کانگریس کی طرح کھل کر سامنے نہیں آئے۔بی جے پی میں ہر کسی نے ہائی کمان کے فیصلے کو پورے دل سے قبول کیا۔ مزید یہ کہ بی جے پی نے انتخابی ریاستوں میں وزیر اعلیٰ کا چہرہ بدلنے کا فائدہ بھی اٹھایا۔ اتراکھنڈ اس کی ایک مثال ہے۔ ظاہر ہے راجستھان میں جس طرح سیاسی منظر نامہ پل پل بدل رہا ہے وہ یقینا کانگریس کے لیے تباہی کی آہٹ کہی جا سکتی ہے، جب کہ بی جے پی کے لیے یہ اسمبلی اور2024 کے عام انتخابات کا موقع پیدا کرتی ہے۔ وہیں راجستھان میں سیاسی ہلچل کو دیکھتے ہوئے پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا بھی کود پڑی ہیں پرینکا گاندھی معاملہ کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں کہا یہ جا رہاہے کہ پرینکا گہلوت سے بات کرکے مسئلہ کو سلجھا سکتی ہیں کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ پرینکا گاندھی واڈرا کی سفارش پر ہی گہلوت 2018 میں سچن پائلٹ کے بجائے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ اس وقت باغی پائلٹ کو پرینکا نے منا لیا تھا لیکن اس بار کا سیاسی منظر نامہ بالکل بدل چکا ہے پرینکا گاندھی گہلوت کو منا پائیں گی یا نہیں یہ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر اسی طرح کا سیاسی منظر نامہ بنا رہا تو کانگریس کے لئے 2023 اور 2024 کا ا نتخابات بھاری پڑے گا اور بی جے پی کو خاطرخواہ فائدہ پہنچے گا۔
[email protected]