صبیح احمد
اب یہ تقریباً طے ہو چکا ہے کہ کانگریس کے اگلے صدر کا انتخاب ووٹ کے ذریعہ ہوگا۔ یعنی پارٹی کا صدر متفقہ طور پر نہیں چنا جائے گا بلکہ اس کے لیے باضابطہ طور پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یعنی اس بار انتخابی مقابلے کا قوی امکان ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آزاد ہندوستان میں یہ چوتھا موقع ہوگا جب ملک کی سب سے پرانی پارٹی کا سربراہ ووٹ کے ذریعہ منتخب کیا جائے گا۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہوگی کہ اس بار بھی پارٹی صدر کے عہدہ کے لیے گاندھی خاندان سے کوئی امیدوار نہیں ہوگا۔ یہ تقریباً طے نظر آ رہا ہے کہ اگلا کانگریس صدر گاندھی خاندان سے باہر کا ہوگااور یہ بھی 24 سال بعد ہوگا کہ ملک کے اس اہم سیاسی خاندان سے ہٹ کر کوئی شخص کانگریس کی کمان سنبھالے گا۔ گاندھی خاندان سے باہر کے آخری صدر سیتا رام کیسری تھے جن کے بعد سونیا گاندھی نے پارٹی کا اعلیٰ عہدہ سنبھالا تھا۔ اس بار راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور لوک سبھا کے رکن ششی تھرور کے درمیان انتخابی مقابلہ کے قوی امکانات تھے۔ سب سے مضبوط دعویدار گہلوت کو مانا جا رہا تھا بلکہ ان کا صدر بننا تقریباً طے تھا، کیونکہ انہیں گاندھی خاندان کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن راجستھان کی تازہ پیش رفت سے گہلوت کے کانگریس صدر کے عہدے کا الیکشن لڑنے پر اب سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اب کمل ناتھ، دگوجے سنگھ، مکل واسنک، ملیکارجن کھڑگے، کماری شیلجا اور کچھ دیگر ناموں پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ حالانکہ مطلع ابھی پوری طرح صاف نہیں ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ دونوں آبزروروں کھڑگے اور ماکن کی تحریری رپورٹ کی بنیاد پر ’ڈسپلن شکنی‘ کے لیے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کے وفادار کچھ ریاستی لیڈروں کے خلاف کارروائی کے لیے قدم بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
دراصل گہلوت کے صدر کے عہدہ کے لیے الیکشن لڑنے کے اعلان کے بعد راجستھان کے سیاسی گلیاروں میں اس بات کو لے کر سرگرمیاں تیز ہو گئی تھیں کہ ریاست کا اگلا وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ گہلوت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ وزیراعلیٰ کے عہدہ کو چھوڑنے کا ہے۔ وہ فی الحال راجستھان کے وزیراعلیٰ کا عہدہ چھوڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پارٹی ہائی کمان کے اب تک کے اشاروں کے مطابق یہ واضح ہو چکا ہے کہ انہیں یہ عہدہ چھوڑنا ہی پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کو وزیراعلیٰ کا عہدہ چھوڑنا پڑا تو ان کے بعد ریاست کی کمان کس کے ہاتھ میں ہوگی۔ یہ ذمہ داری ان کے داخلی حریف سچن پائلٹ یا کسی اور کو سونپی جاسکتی ہے جو انہیں قطعی تسلیم نہیں ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ ریاست کے اسمبلی اسپیکر پی سی جوشی بھی وزارت اعلیٰ کے دعویدار ہیں اور گہلوت ان کے نام پر راضی ہو سکتے ہیں۔ گہلوت چاہتے ہیں کہ اگر انہیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑے تو اس کے باوجود ریاستی امور میں ان کا عمل دخل باقی رہے جو سچن پائلٹ کے وزیراعلیٰ بننے پر ممکن نہیں ہے۔ گاندھی خاندان کے حمایت یافتہ کسی بھی امیداور کے بعد اس عہدہ کے سب سے مضبوط دعویدار سابق مرکزی وزیر اور کیرل سے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ہیں۔ تھرور ہی مذکورہ بالا امیدوار کو براہ راست ٹکر دے سکتے ہیں۔ لیکن خبر ہے کہ خود ان کی آبائی ریاست کیرل کے ارکان پارلیمنٹ ہی ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ لوگ گاندھی خاندان کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دینے والے ہیں۔ ششی تھرور آل انڈیا پروفیشنل کانگریس کے صدر بھی ہیں۔ وہ کانگریس کے جی-23 لیڈروں میں سے ایک ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ بھی میدان میں اتر سکتے ہیں۔ وہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں۔ وہ مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ کانگریس کے جی23- کا حصہ منیش تیواری بھی خم ٹھونک سکتے ہیں۔ تیواری پنجاب کی شری آنند پور لوک سبھا سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔وہ این ایس یو آئی کے 5 سال اور یوتھ کانگریس کے 2 سال صدر بھی رہ چکے ہیں۔
کانگریس کی 137 سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر وقت صدر کا انتخاب متفقہ طور پر ہوا یعنی 2 یا اس سے زیادہ امیدواروں کے درمیان انتخابی مقابلے کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ آزادی سے پہلے کا 1939 کا کانگریس صدر کے عہدہ کا الیکشن اس لیے خاص طو ر پر یاد کیا جاتا ہے کہ اس میں مہاتما گاندھی کے حمایت یافتہ امیدوار پٹابھی سیتارمیہ کو نیتاجی سبھاش چندر بوس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بہرحال آزادی کے بعد کانگریس صدر کے عہدہ کا پہلا الیکشن 1950 میں ہوا۔ آچاریہ کرپلانی اور پرشوتم داس ٹنڈن کے درمیان انتخابی مقابلہ ہوا، اس میں ٹنڈن کامیاب ہوئے۔ بعد میں ا س وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے ٹنڈن نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پھر نہرو نے پارٹی کی کمان سنبھالی۔ انہوں نے 1951 اور 1955 کے درمیان پارٹی سربراہ اور وزیراعظم کے طور پر کام کیا۔ نہرو نے 1955 میں کانگریس صدر کا عہدہ چھوڑ دیا اور یو این گھیبر کانگریس کے صدربنے۔ 1950 کے بعد کانگریس صدر کے عہدہ کے لیے 47 سال تک انتخابی مقابلہ نہیں ہوا۔ 1997 میں پہلی بار سہ رخی انتخابی مقابلہ ہوا۔ سیتارام کیسری، شرد پوار اور راجیش پائلٹ نے الیکشن لڑا اور اس میں کیسری کامیاب ہوئے۔ اس الیکشن کے ایک سال بعد ہی کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک تجویز پاس کرکے کیسری کو ہٹا دیا تھا اور یہ بہت ہی مشہور اور متنازع معاملہ رہا۔ آزاد ہندوستان میں کانگریس صدر کے عہدہ کے لیے تیسری بار الیکشن 2000 میں ہوا جب سونیا گاندھی کے مقابلے میں اترپردیش کے سینئر برہمن لیڈر جتیندر پرساد کھڑے ہوئے۔ کبھی راجیو گاندھی کے سیاسی سیکریٹری رہنے والے پرساد کو شکست ہوئی اور انہیں صرف 94 ووٹ حاصل ہوئے۔
آزادی کے بعد اب تک پارٹی کی کمان 16 لوگ سنبھال چکے ہیں جن میں سے گاندھی خاندان کے 5 صدر رہے ہیں۔ فی الحال کانگریس کی صدر سونیا گاندھی ہیں اور وہ کانگریس کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک صدر کے عہدہ پر رہنے والی خاتون لیڈر ہیں۔ آزاد ہندوستان میں گاندھی خاندان کے ارکان تقریباً 4 دہائی تک کانگریس کے صدر رہے ہیں۔ نہرو 1951-55 تک صدر رہے اور اندرگاندھی 1959، 1966-67، 1978-84تک کانگریس صدر رہیں۔ کے کامراج 1964-67 تک اور ایس نجلنگپا 1968-69 میں کانگریس کے صدر رہے۔ اس کے بعد جگجیون رام 1970-71 میں کانگریس کے صدر بنے۔ پھر ڈاکٹر شنکر دیال شرما 1972-74 تک کانگریس کے صدر رہے۔ 1975-77 میں دیوکانت بروا کانگریس کے صدر بنے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد 1985 سے 1991 تک ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر رہے۔ 1992-96 کے درمیان پی وی نرسمہا رائو کانگریس کے صدر رہے۔
بہرحال لاکھ کوششوں کے باوجود راہل گاندھی کے پارٹی کی کمان سنبھالنے سے انکار کے بعد اس بار پھر کانگریس صدر کے عہدہ کے لیے الیکشن کی نوبت آئی ہے۔ ابھی تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن راجستھان کی تازہ پیش رفت نے کانگریس کو ایک بار بھنور میں پھنسا دیا ہے۔ کانگریس کی کشتی ہچکولے کھا نے لگی ہے۔ آخر کشتی اس طوفان سے باہر نکلے گی کیسے؟ یہ شاید گاندھی خاندان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
[email protected]