عمیر حسن
طلبہ کو تعلیم دینے کے جدید نظام میں جہاں نصاب کو اہمیت دی جاتی ہے وہاں اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ بچے کس طرح کے ماحول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محققین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ تعلیمی نتائج کا طلبہ کو فراہم کردہ ماحول سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔
تحقیق کے نتیجے میں طالب علموں کے لیے نئے خیالات متعارف کروائے جارہے ہیں، جن سے انہیں اپنا ہوم ورک کرنے اور امتحانات دینے کی قابلیت کے بارے میں تشویش کا سامنا کرنے اور سیکھنے کی جانب راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ نئے دور کی ضرورت ہے اور بہت سے اساتذہ، محققین اور تعلیمی مشیر اس بات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہیں کہ اپنی مہارتو ں اور صلاحیتوں کی آبیاری کے دوران طلبہ پیچیدہ معلومات کو ایک ہی وقت میں کیسے ہضم کر پائیں گے۔
ماہرین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ یہ جان پائیں کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو ایک مخصوص روّیہ اپنانے پر مجبور کرتی ہے جبکہ ماحول بھی ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی تحقیق تواتر سے طلبہ کی اسکول و کالج میں کریئر کی فیصلہ سازی کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے اور اب اس ضمن میں نئے سوالات بھی شامل کیے جارہے ہیں کہ درحقیقت طلبہ کو کون سے ذرائع کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی چھان بین ان طلبہ کیلئے بہت اہم ہے، جو نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہیں، فیس ادا نہیں کرپاتے ، گھر اور گھر سے باہر معاندانہ رویے کا شکار ہوتے ہیں یا پھر اپنے تعلیمی شوق کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
باقاعدگی سے کلاس اٹینڈ کرنا، اسائنمنٹس مکمل کرنا اور پڑھائی پر توجہ دینا، یہی سب سے اہم رویّے ہیں، جن کے بارے میں تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بچوں کو اوائل عمری میں ہی سیکھنا بہت ضروری ہے۔ اسی سے ان کی صلاحیت مستحکم ہوتی ہے اور وہ بڑے بڑے خیالات کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی جذبہ ، ترغیب اور مائنڈ سیٹ ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہی چیز انہیں پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے سپروائزر کے احکامات کے مطابق عمل کرنا سکھاتی ہے۔
اکثر لوگوں کے نزدیک سیکھنے کا مطلب ہے زیادہ دیر تک یاد رکھنا۔ ریاضی او رسائنس کے اصول، غیر ملکی زبان یا لوگو ں کے نام ہمار ا ذہن ایسے محفوظ رکھتا ہے کہ بوقت ضرورت کام آئے۔ اگر آپ نے یاد رکھنے کی مہارت نہ سیکھی تو آپ کو کچھ تفصیلات ہمیشہ یاد رکھنا مشکل ہوں گی۔ اسی لئے انسانی دماغ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے نزدیک یاد رکھنے اور سیکھنے میں فرق ہوتا ہے۔سیکھنے کے عمل کو عموماً رویے کی تبدیلی سے جوڑا جاتا ہے اور لوگ اسے مہارت، علم یا تعلیم سے سیکھے گئے طریقوں پر عمل کرکے ظاہر کرتے ہیں۔ علم دراصل مہارت ، اقدار، رویّوں، فہم اور ترجیحا ت کے حصول کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف معلومات کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ آپ کا ماحول یہ سب چیز یں آپ کو سکھاتا ہے۔
ہمارے سیکھنے کا عمل سرسری معلومات سے شروع ہو کر اسے پرکھنے کی صلاحیت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ تعلیمی اداروں کی مہارت پر منحصر ہے کہ وہ طلبہ میں سیکھنے کے عمل کو کتنی پختگی بخشتے یا اس عمل میں ان کی کتنی مدد کرتے ہیں۔ سیکھنے کے تین طریقے ہیں یعنی دیکھ کر، سن کر اور فعلاً کوئی کام انجام دے کرسیکھاجاتا ہے۔ سیکھنے کے نقطہ نظر پر بات کی جائے تو یہ چار ہیں۔
(1) منتقل کرنا : یعنی معلومات، نظریات، مہارت اور علم کو دوسروں تک پہنچانا، رہنمائی کرنا یا سکھانا۔
(2) اخذ کرنا : خود کھوج لگانا، تجربہ کرنا، پوچھنا، تجسس کرنا، تحقیق کرنا، یعنی پورے شعور سے سیکھنا۔
(3) ظہور : اس سے مراد تدبر، غوروفکر، مکالمے ، تخلیقی بیان اور تجربات سے نئے نظریات اور مفاہیم کا ادراک حاصل کرنا۔
(4) لاشعوری تجربہ : غیر محسوس طریقے سے کوئی زبان، ثقافت ، عادت، سماجی اصول، تعصبات اور روّیوں کو سیکھنا۔
سیکھنے کے مراحل بھی چھ ہیں، جیسے جاننا، سمجھنا، استعمال کرنا ، تجزیہ کرنا، ترکیب لڑانا اور جانچنا۔ اسی طرح سیکھنے کے اصول بھی ہیں۔ جیسے آمادگی ( یعنی آپ خود سیکھنا نہ چاہیں تو کوئی آپ کو نہیں سکھا سکتا، آزادی (خوف ، بھوک پیاس میں سیکھنا ممکن نہیں)، اثر انگیزی (حوصلہ افزائی سے سیکھنے کا عمل تیز ہوتا ہے)، ضرورت (ضرورت میں انسان جلدی سیکھتا ہے)، شوق (شوق میں بھی یہی صورتحال ہے)، ٹھوس سے خیالی (پہلے انسان ٹھوس چیزیں سیکھتاہے، پھر خیالی چیزوں پر یقین کرتاہے)، آسان سے مشکل، اوّلیت (جس چیز سے پہلے واسطہ پڑے، وہ زیادہ سیکھتا ہے)، تازگی (جو واقعہ نیا ہوگا وہ زیادہ ذہن میں رہے گا)۔
سکھانا بھی سیکھنا ہوتا ہے:قدرت نے انسان کو ذہن صرف معلومات جمع کرنے یا لغت کے طورپر نہیں دیا ہے بلکہ تحقیق، تفہیم، تدبیر ، تعبیر اور تنقید کے لیے بھی دیا ہے۔ اسی لیے طلبہ کو صرف چند اصطلاحات اور فارمولوں کا رٹاّ لگوانے کے بجائے انہیں ایک متحرک، متفکر اور متوازن انسان بنانے کی ضرورت ہے۔
طلبہ کی رہنمائی کی جائے، ان کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کے اندر مباحثہ، مکالمہ، مطالعہ، مذاکرہ، تخلیق، تنقید، تربیت، تحقیق، ابلاغ، خطابت، قیادت اور نظامت کی صلاحیتیں پروان چڑھائی جائیں۔ یہ سب عوامل والدین اور تعلیمی اداروں کو سیکھنا چاہئیں تاکہ ہمارے بچے انھیں بہتر طور پر سیکھ کر زندگی میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
کامیابی پر حوصلہ افزائی:کامیابی پر حوصلہ افزائی ایک اور طریقہ ہے جس کے ذریعے والدین اور اساتذہ اپنے بچوں اور طلبہ میں زیادہ سے زیادہ محنت کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔ طلبہ اس وقت مایوسی کا شکار ہوتے ہیں جب انہیں لگتا ہے کہ وہ کسی موضوع کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں یا اگر انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں کلاس میں پیچھے ہیں۔
اس طرح کے حالات میں اساتذہ کو اس خیال کو آگے بڑھانے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے کہ کامیاب ہونا کبھی بھی پہنچ سے باہر نہیں ہوتا۔ مثبت رائے دینا یا طالب علموں کے لیے تجاویز فراہم کرنا انہیں حوصلہ دیتا ہے اور وہ کسی بھی پریشانی پر قابو پاسکتے ہیں۔ll
بہتر تعلیمی نتائج کے لیے ضروری اقدامات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS