ایم آئی ظاہر
گلوبل ولیج میں ہمیں چیزوں کو عالمی سطح پر اور وسیع نظریہ سے دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم ماضی کی جانب مڑ کر دیکھیں تو دیس اور دنیا نے برسوں تک اچھا برا دور دیکھا ،لیکن وقت اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ جو اچھا لگے اسے اپنا لو اور جو برا لگے، اسے جانے دو۔اگر دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی فیصلہ بڑے مقصد سے لیاگیا ہے تو وہ فیصلہ دیکھنے اور سمجھنے کے لیے آپ کے تصور اور نظریہ کا کینوس بھی گلوبل ہی ہونا چاہیے ۔ کیونکہ آفاقی سچائی بدلتی نہیں ہے۔بلکہ وہ آپ کو سچ کو خود ساختہ اخذ و جذب کرنے کے لیے مایل کرتی ہے.ہندوستان اور دنیا میں بدلتے پس منظر کو بھی عالمی نظریہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل اس دنیا کو یہ سمجھنے میں وقت لگا کہ مساوات ہی سچ ہے.ہاں وقت لگا،لیکن آہستہ آہستہ ہی سہی،ہم ہندوستانی،دنیا میں خیالاتی بدلاؤ کا انقلاب لانے کے اولین مہا نایک ثابت ہو ییے۔ جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں،وہاں سے مجھے دنیا میں مہاتما گاندھی،مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کے خیالات کی فتح کا پرچم لہراتا ہوا نظر آ رہا ہے۔باپو نے مذہب, ذات، فرقہ اور نسل پرستی سے اوپر اٹھ کر جس عالمی معاشرہ کا تصور کیا تھا،اس خواب کی تعبیر آج ہمیں صاف طور پر نظر آ رہی ہے۔گلوبل ولیج میں یہ بدلاؤ اقتدا کی بلندی پر دیکھ دیکھ کر تو بہت خوشی ہو رہی ہے۔خیالاتی بدلاؤ کی یہ فتح ہمیں الگ الگ ممالک میں حالم وقت کے نیے چہروں کے طور پر مساوات اور ہم آہنگی قائم کرتی ہوئی نظر آئی۔پہلے امریکہ میں براک اوباما صدر بنے اور پھر بھارت کے تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والی کملا ہیرس نائب صدر ہنیں۔پھر برطانیہ میں رشی سنک وزیر آعظم بننے ہی والے تھے۔وہ چہک گیے۔اس سے قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کی پریتی پٹیل وزیر داخلہ بنیں۔وہیں ہندوستان کے گوواں ن اد انتونیو لوئس پرتگال کے وزیر آعظم بنے۔اسی طرح ماریشس میں بھی بھارت کے صوبہ اترپردیش کے پروندر کمار وزیر آعظم اور ہندوستان ن اد پرتھوی راج سنگھ روپن صدر ہیں۔جب کہ سوری نام میں ہندوستان ن اد سوری نامی چندریکا پرشاد صدر بنے۔اسی طرح ہندوستان کے اڑیسہ کی قبائلی خاتون صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے طور پر امیدوں کے افق پر ایک نیا سورج اگا ہے۔آج میں خود پر فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میں دنیا میں اس عظیم جمہوری جمہوریہ ہندوستان کاشہری ہوں،جہاں کی عظیم شخصیات نے دنیا کو نہ صرف مساوات کا پیغام دیا،بلکہ خود بھی ان اعلیٰ قدروں اور خیالات کو اپنا کر نسل پرستی ختم کرنے کے لیے پہل کی۔ایک اور اہم بات،میں اس ملک کا شہری ہوں، جس پر کبھی انگریزوں نے ہندوستانیوں کو غلام بنا کر( بھارت پر) راج کیا تھا اور بپس منظر اور منظر بدل گیا ۔ ایک اہم نکتہ قابل غور ہے کہ ہم ہندوستان ن اد تو اپنے ملک کی بیٹی دروپدی مرمو کو صدر جمہوریہ کے طور پر دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں،لیکن آپ امریکہ اور انگلینڈ سمیت مغرب کے ان ممالک کے بہت سارے سفید آبائی شہریوں کو بھی تو سیلوٹ کریں،اسٹینڈنگ اووویش دیں ،جنہوں نے نسل پرستی کے ماحول کے باوجود نسل پرستی کو ٹھکرایا اور مساوات کو اپنایا ۔یہ خیالاتی فتح ہی تو ہندوستان کی فتح ہے۔ہندوستان کی دنیا کے دلوں پر راج کرنے کی فتح ہے۔ مجھے نظر آ رہا ہے کہ مغرب کے ان ممالک نے براک اوباما،کملا ہیرس اور رشی سنک سمیت بہت سارے ہندوستان ن اد قیادت کو نہ صرف اپنایا،بلکہ اقتدار کی بلندی پربھی پہنچایا ۔یہ ہے ہمارا بھارت ۔بدلا ہوا بھارت ۔بدلاو لانے والا بھارت۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے سنہرے موقع پر ہندوستان کا سب سے بڑا تحفہ کیا ہے یا 75 برسوں میں ہندوستان کی دنیا کو دین کیا ہے تو میں فخر سے کہوں گا،بھارت کا تحفہ دروپدی مرمو، رٹرن گفٹ کے طور پر امریکہ کی سوغات براک اوباما اور کملا ہیرس،وہیں برطانیہ کی جانب سے تازہ تازہ تحفہ رشی سنکتھا،لیکن وہ وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئے۔
دنیا بھر میں ہندوستان کے مساواتی خیالات کی فتح کے سبب دنیامیں بدلاؤ کی یہ بیار بہت راحت بھری، ٹھنڈک سے لبریز اور پر سکون محسوس ہو رہی ہے۔اب ہم بڑے وسوخ سے کہہ سکتے ہیں ،چھوڑو کل کی باتیں،کل کی بات پرانی،نیے دور میں مل کر لکھ دی ہم نے نئی کہانی۔
( مصنف خارجہ معاملات اورحقوق انسانی امور سے وابستہ ہیں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سینئر صحافی اور شاعر ہیں )