عارف شجر: اب گاندھی مکت ہو جائے گی کانگریس؟

0

عارف شجر
کانگریس میں گاندھی پرستی اور پریوار واد کا الزام بی جے پی کے ذریعہ برسوں سے لگائے جائے رہے ہیں اور اسے مدعا بنا کر بی جے پی نے انتخابی میدان میں شکست دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہر الیکشن میں بی جے پی نے کانگریس کی گاندھی واد کو لے کر گھیرنے کی کوشش کی اور اس میں بی جے پی بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہے ، کانگریس کی شکست کا ایک نتیجہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کانگریس کی بار بار شکست نے کانگریس کے اندر ہی مخالفت کی بگل پھونک دی، کئی کانگریسی لیڈران نے یہ ا لزام لگا کر کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کر لی کہ یہاں صرف ایک ہی خاندان کا دبدبہ برقرارہے اس پارٹی میں تجربہ کار سیاسی قائدین کو بڑھنے کا موقع نہیں ملتا ہے، ہر بار کانگریس کے خاندان سے ہی صدر بننا کچھ بڑے سیاسی قائدین کو بے حد ناگوار گزرا حالانکہ کانگریس کے اندر سے ہی اس کی مخالفت خاموشی کے ساتھ کئے گئے لیکن اس کا خاطر خواہ کوئی اثر نہیں ہوا، کانگریس کی شکست کی دو وجہ یہ بھی بتائے جا رہے ہیں کہ ایک تو خاندان پرستی اور دوسرا کانگریس کے اندر تاخیر سے فیصلہ لینے کا رواج یہی وجہ تھی بی جے پی کو کھلا سیاسی میدان کانگریس نے دے دیا اور بی جے پی کے قائدین نے اس کا بھر پور استعمال کیا اور جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کو علاقائی پارٹیوں کے ساتھ آنے کے لئے محتاج بنا دیا افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اپنا وقا اور اپنی کثیر سیٹ کھونے کے بعد کانگریس کے اعلیٰ قائد کو آئندہ ہونے والے2024 کے عام انتخابات سے قبل یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے لیکن اب جو اشارے مل رہے ہیں اس سے یہ بات صاف ہو رہی ہے کہ کانگریس میں پریوارواد اور کانگریس پرستی کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے جس کا آغاز کانگریس صدر کے انتخاب سے ہی کیا جا رہا ہے چرچہ یہ ہے کہ پارٹی کے اعلیٰ عہدے کے لیے اہم مقابلہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اور کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور کے درمیان ہونے کا امکان ہے۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ عبوری کانگریس صدر سونیا گاندھی نے پیر کو اشارہ کیا کہ انہیں تھرور کے کانگریس صدر کے عہدہ کے لئے مقابلہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سونیا گاندھی کے بیرون ملک سے واپس آنے کے بعد تھرور اور کانگریس کے کچھ دیگر رہنماؤں نے ملاقات کی تھی۔ تھرور، جو پارٹی کے G-23 ممبران میں سے ایک تھے جنہوں نے کانگریس میں جامع اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا، اب وہ پارٹی کے اعلیٰ عہدے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے لیے ووٹنگ 17 اکتوبر کو ہوگی وہیںر اجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت پارٹی کے وفاداروں کے لیے ترجیحی انتخاب ہیں۔ تاہم، گہلوت مبینہ طور پر چیف منسٹر کا عہدہ چھوڑ کر دہلی جانے کے لیئے تیار ہیں اور نہ ہی وہ ملکی سیاست میں آنے کو تیار ہیں۔ ایسے میں سابق مرکزی وزیر مکل واسنک یا راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے سب سے آگے نظر آرہے ہیں اب یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ سونیا گاندھی سے ششی تھرور کو ہری جھنڈی ملنے کے بعد کانگریس صدر کی ششی تھرور کی دعویداری مضبوط ہو گئی ہے۔
وہیں اس بات سے ا نکار نہیں کیا جا سکتا کہ کانگریس کا ایک طبقہ راہل گاندھی کو پارٹی کا اگلا صدر بنانے کے لئے بے قرار ہے اور اسکے لئے قرار دادیں بھی پاس کی جا رہی ہیں جس میںکانگریس کی ریاستی اکائیاں، جن میں راجستھان، مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ شامل ہیں انکے یہاں سے راہل گاندھی کے نام پر مہر لگ چکی ہے باقی ریاستوں سے انکے نام کی مہر لگنا باقی ہے تاہم کانگریس کی سنٹرل الیکشن اتھارٹی (سی ای اے) نے کہا ہے کہ اس طرح کی تجاویز کا انتخابی عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سی ای اے کے صدر مدھوسودن مستری نے کہا، “ان تجاویز کا انتخابی عمل پر کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ جاننے کی تلاش جاری ہے کہ کانگریس کا اگلا پارٹی صدر کون ہوگا، وہیں کانگریس کے سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے یہ بات واضح طور سے کہہ دی ہے کہ ’جو بھی الیکشن لڑنا چاہتا ہے وہ آزاد ہے اور ایسا کرنا خوش آئند ہے۔‘یہ کانگریس صدر اور راہول گاندھی کا مستقل موقف رہا ہے۔ یہ ایک کھلا، جمہوری اور شفاف عمل ہے۔ الیکشن لڑنے کے لیے کسی کو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ کانگریس کے نظام میں تبدیلی کی آہٹ نے سبھی کو چونکا دیا ہے، یہ کہنا درست ہوگا کہ اب گاندھی مکت کانگریس کی جانب کانگریس کے قدم بڑھ رہے ہیں جو آئندہ آنے والے انتخابات میں بھی اہم رول ادا کرنے والے ہونگے، ویسے بھی راہل گاندھی پر یہ الزام لگ چکے ہیں کہ کانگریس نے جہا ں جہاں بھی راہل گاندھی کی قیادت میں انتخابات لڑے ہیں وہاں وہاں کانگریس کو زبردست منھ کی خانی پڑی ہے یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی قومی صدر کا انتخاب لڑنا نہیں چاہتے ہیں چرچہ یہ ہے کہ راہل گاندھی کا ٹارگیٹ ملک کے پی ایم بننے کی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوںنے عام لوگوں سے ملنے اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے بھارت جوڑو یاترا پر نکل پڑے ہیں اور اس سچائی سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ راہل گاندھی کے اس سیاسی تجربہ سے انہیں کافی لوگوں کا پیار مل رہا ہے اس سے راہل گاندھی کے سیاسی قد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ،چرچہ یہ ہے کہ راہل گاندھی قومی صدر کا انتخاب لڑنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ انکی خواہش پی ایم بننے کی ہے۔
بہر حال ! عبوری کانگریس صدر سونیا گاندھی نے پیر کو اشارہ کیا کہ انہیں تھرور کے کانگریس صدر کے عہدہ کے لئے مقابلہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اگر کانگریس کے قومی صدر کا عہدہ ششی تھرو کو مل جاتا ہے جیسا کہ G-23 گروپ امیدوار کھڑا کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ترواننت پورم کے ایم پی تھرور اس کی اولین پسند ہیں ،تواس بات سے انکار نہیںکیا جا سکتا کہ کانگریس گاندھی مکت تو ہوگا ہی ساتھ ہی 2024 کے عام انتخابات میںکانگریس اپنی حالت بھی مضبوط کر پائے گی،مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیجئے کہ اگر2024 کے انتخابات سے قبل کانگریس نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے کام نہیں لیا تو کانگریس کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی نے کانگریس کو ہر محاذ میں شکست دی ہے، چاہے وہ سیاسی ہو سماجی ہو یا پھر اصلاحی سبھی میں بی جے پی سبقت لے گئی ہے،2024 کا انتخابات ہر لحاظ سے اہم ہونے والا ہے جس طرح راہل گاندھی اپنی پارٹی کو مضبوطی دلانے کے لئے سڑک پر اتر گئے ہیں اسی طرح پارٹی کو مزید مضبوط کرنے کے لئے صدر کا انتخاب بھی بڑے ہی دانش مندی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک کانگریس قومی صدر الیکشن کی بات ہے تو الیکشن کا نوٹیفکیشن 22 ستمبر کو جاری کیا جائے گا، غذات نامزدگی 24 ستمبر سے 30 ستمبر کے درمیان داخل کیے جائیں گے اور ووٹنگ 17 اکتوبر کو ہوگی۔تاہم پارٹی کے اعلیٰ عہدے کے لیے انتخاب لڑنے والے امیدواروں پر ابھی تک
سسپنس برقرار ہے ۔ اس کا واضح خلاصہ کب ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن جس طرح کے اشارے مل رہے ہیں اس سے ایک بات سامنے آرہی ہے کہ اب کانگریس’گاندھی مکت‘ہو نے والی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS