فرقہ پرستی کی تیز و تند لہرنے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ملک کا ماحول ایسا بنادیاگیا ہے کہ مسلمان خود کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھنے پر مجبور ہیں۔مسلمانوں کی انفردایت، شناخت، ا سلامی شعائر،تہذیب و ثقافت ہر چیز پر حملہ کیاجارہاہے۔ بنیادی حقوق سے محرومی، ماورائے عدالت قتل،تشدد، مار پیٹ، ذلت و رسوائی، جھوٹے اور لایعنی مقدمات میں ماخوذ کرکے برسوں تک جیل میںقید رکھنا مسلمانوں کا مقدر بنادیاگیا ہے۔سیاسی مقصدبرآری کیلئے مسلمانوں کے خلاف بنائی جانے والی اس فضا میں سیکولرجمہوریہ ہندوستان کے زیادہ تر ادارے بھی مسلمانوں کے خلاف شمشیر بے نیام ہو گئے ہیں۔ مقننہ پر فرقہ پرست عناصر کاغلبہ ہے تو عدلیہ کو بھی ڈھیر سارے تحفظات ہیں۔انتظامیہ کی مسلم دشمنی توخیر سے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ چند برسوں سے مسلمانوں کے خلاف انتظامی حکام کی کارروائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس اضافہ میںجہاں حکام کا تعصب و امتیاز کام کررہاہے تو اسے شہ دینے میں سیاست اور حکومت بھی پیش پیش ہے۔
مسلمانوں کے خلاف انتظامی حکام کی تازہ کارروائی مدھیہ پردیش میں اجاگر ہوئی ہے جہاں کی ایک جیل میں بند پانچ مسلم نوجوانوں کی داڑھی جیلر نے یہ کہتے ہوئے زبردستی کٹوادی کہ یہ ہندوستان ہے۔ واقعہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکمرانی والی ریاست مدھیہ پردیش کے راج گڑھ ضلع جیل کاہے، ضلع کے جیراپور تحصیل کے پانچ نوجوان کلیم خان، طالب خان، عارف خان، سلمان خان اور وحید خان کوپولیس نے نقض امن کے پیش نظر گرفتار کیا اورا ن پر تعزیرات ہند کی151کے تحت الزام عائد کرتے ہوئے نچلی عدالت میںپیش کیا تھا جہاں سے ان پانچوں کو راج گڑھ جیل بھیج دیاگیا۔ بے داغ ماضی رکھنے والے ان نوجوانوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونے کے باوجود ان کی گرفتاری پہلے سے ہی تنازع کی زد میں تھی جب انہیں عدالت نے جیل بھیجاتھا تو وہاں بھی ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ جب جیلر این ایس رانا جیل کا معائنہ کرنے آئے تو ان کی نظر پانچوں نوجوانوں پر پڑی اور انہوں نے ان نوجوانوں کو داڑھی کاٹنے کا حکم دیا لیکن ان نوجوانوں نے یہ حکم نہیں مانا اور ڈٹے رہے جس کے بعد جیلر نے جیل کے حجام سے ان پانچوں نوجوانوں کی داڑھیاں زبردستی کٹوا دیں اور احتجاج کرنے والے نوجونواں کو پاکستان سے آنے کا طعنہ بھی دیا۔ ضمانت پر رہائی کے بعد ان نوجوانوں کی جانب سے جیلر کے رویہ کے خلاف ضلع کلکٹر کو میمورنڈم سونپے جانے کے بعد یہ سارامعاملہ منظرعام پر آیا۔
ملک کے موجودہ حالات میں بظاہر یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں رہ گیا ہے، ایسے درجنوں واقعات ماضی قریب میںسامنے آچکے ہیں جب مسلمان بوڑھے بزرگوں کی داڑھی کھینچتے ہوئے ان کی سرعام سڑک پر پٹائی کی گئی ہو اورزبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے گئے ہوں لیکن مدھیہ پردیش کا یہ واقعہ اس لیے زیادہ سنگین ہے کہ مسلم نوجوانوںکے ساتھ یہ ’ واردات ‘قانون کی حفاظت میں اندرون جیل ہوئی اور آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھانے والا ایک جیلر فرائض کی ادائیگی کے نام پر اس واردات کا مرتکب ہوا ہے۔چند مہینے قبل رام نومی کے موقع پر اسی مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز بھی کیاگیا تھا اور انہیںجھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے اب تک جیل میں رکھاگیا ہے۔
مدھیہ پردیش اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی آسام، اترپردیش، کرناٹک اور دوسری ریاستوںمیں اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان ریاستوںمیں مسلمانوں کو جسمانی اذیت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں ذہنی اورنفسیاتی آزار میں بھی مبتلا کیا جارہاہے۔تہذیب و ثقافت، لباس، رہن سہن اور خورد و نوش کو نشانہ بناکر ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔اترپردیش اور آسام میں مسلمانوں کا روزگار چھیننے اورا ن کی معیشت تباہ کرنے کی کوششیں بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیںہیں۔ آسام سے تو خود حکومت مسلمانوں کو نکالنے کی باقاعدہ مہم چلارہی ہے اورا نہیںان کی زمینوں سے بھی بے دخل کیا جارہا ہے۔ اترپردیش میں مساجد اور مدارس پر یلغار ہورہی ہے تو کرناٹک میں مسلم خواتین کو بے پردہ کرنے کی فرقہ پرستوں کی مذموم مہم میں حکومت کو عدالت کا بھی ساتھ مل گیا ہے۔ شمال سے جنوب تک ملک کا کوئی خطہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں مسلمان ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح محفوظ و مامون ہوں،اب تو مسلمان خود کو غیر اعلانیہ حالت جنگ میں محسوس کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہورہے اس طرح کے واقعات جہاں مسلم نوجوانوں میں منافرت کا جذبہ ابھار رہے ہیں، وہیں پرامن بقائے باہمی اور ملک کے استحکام و سالمیت کیلئے بھی سنگین خطرہ ہیں۔ان واقعات پر اگر روک نہیںلگائی گئی اور مسلمانوں کے خلاف کی جارہی فضا بندی ختم نہیں ہوئی توملک بھی محفوظ و مامون نہیںرہ پائے گا۔
[email protected]
مسلمانوں کوذہنی اورنفسیاتی اذیت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS