روس نے جب 22فروری 2022کویوکرین پر حملہ کیا تووہاں سے دیگرممالک کی طرح ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کیلئے باقاعدہ ’آپریشن گنگا‘چلایاگیا اورخصوصی جہازوں کے ذریعہ 22500 ہندوستانی وطن لوٹے۔ ان میں تقریباً14 ہزارطلباتھے۔ان میںبھی اکثریت میڈیکل طلباکی تھی۔ وطن واپسی کے وقت طلبا اوران کے والدین کے چہروں پر جتنی خوشی تھی ، وقت کے ساتھ وہ اتنی ہی مایوسی میں تبدیل ہوتی چلی گئی ۔کیونکہ اب یوکرین واپسی کے آثار دوردورتک نظرنہیں آرہے ہیں اوروطن میں تعلیم کی تکمیل اورڈگری کے حصول کاکوئی انتظام نہیں ہے ۔ خصوصاًایم بی بی ایس کے تیسرے اورچوتھے سال کے طلبازیادہ فکر مند ہیںکہ ان کے کریئر اورمستقبل کا کیا ہوگا۔بات صرف تعلیم کی تکمیل اورڈگری کے حصول کی نہیں بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے 1319 طلباوطالبات پر 121.6 کروڑ کا لون ہے۔جو ان پر دہری مار ہے ۔’آپریشن گنگا‘ کے وقت سرکارنے کہا تھاکہ ان کی حتی الامکان مدد کی جائے گی ۔شاید طلبابھی پرامید تھے کہ تعلیم کی تکمیل میں سرکار کی طرف سے کچھ مدد ہوگی ۔ جب جنگ نے طول پکڑا تب طلبانے پہلے ریاستی حکومتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اورکچھ ریاستیں اپنے یہاں ان کی تعلیم کی تکمیل کے انتظام کیلئے تیاربھی نظرآئیں لیکن جب ضوابط رکاوٹ بنے تو انہوں نے ہاتھ کھینچ لئے۔ مایوس ہوکر طلبانے جنتر منتر پر دھرنا دیا تاکہ مرکز کچھ کرے لیکن یہاں بھی بات نہیں بنی تو انہوں نے مددکیلئے سپریم کورٹ کی گہارلگائی ۔جو امیدکی آخری کرن بن کر سامنے آیاہے ۔
سپریم کورٹ میں جب مرکزی حکومت نے عرضی کی سماعت کے دوران حلف نامہ داخل کیا تو اس سے یقینا طلباکوجھٹکابھی لگا اورمایوسی بھی ہوئی ،کیونکہ سرکارنے حلف نامہ میں نیشنل میڈیکل کونسل کے ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے صاف صاف کہدیاکہ یوکرین سے واپس لوٹے طلباکو مقامی میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ نیشنل میڈیکل کونسل ایکٹ 1956اورنیشنل میڈکل کمیشن 1919 کے تحت کسی بیرونی میڈیکل ادارے میں رجسٹرڈ یا زیرتعلیم طلبا کو موجودہ سیشن یعنی کورس کے دوران کسی بھی ہندوستانی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ دینے کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ اس لئے یوکرین سے لوٹے طلباکو یہاں داخلہ نہیں دیا جاسکتا۔مرکزی وزارت صحت نے یہ بھی کہاکہ ان کو داخلہ دینے سے یہاں کی طبی تعلیم کے معیارپر اثرپڑے گا ۔ اس کے ساتھ ہی بتایا کہ طلباصرف 2وجوہات کی بناپر غیرملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں ، ایک نیٹ امتحان کے میرٹ میں خراب کارکردگی، دوسری دیگر ممالک میں ہندوستان کے مقابلہ میں سستا کورس۔ جبکہ ایک تیسری وجہ بھی ہے ، جس پر ان طلبا کی واپسی کے وقت ملک میں بحث ہوئی تھی کہ یہاں میڈیکل سیٹوں کی تعداد خواہشمند طلبا کے لحاظ سے بہت کم ہے ۔جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔بہرحال سرکارکے حلف نامہ کے بعد فاضل ججوں نے سرکارکو ایسے مشورے دیے جو باعث راحت ہوسکتے ہیں ۔کورٹ نے سرکار سے کہا کہ وہ یوکرین سے لوٹے طلباکے تناظرمیںایک ویب پورٹل بنائے،جس پر ان تمام یونیورسٹیوں کی تفصیلات موجود ہوں ،جہاں سے وہ سرکارکے اکیڈمک موبلٹی پروگرام کے مطابق اپنا کورس مکمل کرسکتے ہیں۔ نیشنل میڈیکل کونسل نے بھی 6ستمبرکو وزارت خارجہ کے مشورے سے اس طرح کے پروگرام کی منظوری دے کر اس کا نوٹیفکیشن جاری کیاہے لیکن سوال یہ ہے کہ یوکرینی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی طرف سے دوسرے ممالک میں کورس کی تکمیل کی اجازت پھر اصل ادارے کی طرف سے ڈگری کی فراہمی کیسے ہوگی؟یہ تو طلبااپنے طورپر نہیںکر سکتے ، اس کیلئے بھی سرکارکو ہی کوشش کرنی ہوگی ،تبھی بات بنے گی ۔بات گھوم پھیرکروہیں پہنچتی ہے کہ سرکار ان طلباکیلئے کچھ کرے۔یہی طلبابھی چاہتے ہیں اورسپریم کورٹ بھی۔ اگر یہ مسئلہ اسی وقت حل کرلیا جاتا جب پوری دنیا کو پتہ چل گیا تھا کہ یوکرین کی جنگ طول پکڑے گی ۔
یوکرین جنگ چھڑنے کے بعد طلباکو محفوظ واپسی کی فکر تھی تو اب محفوظ مستقبل اور کریئرکی۔ پہلا مرحلہ طے ہوگیا، اب دوسرے مرحلہ کی باری ہے ۔ان کی یوکرین واپسی نہیں ہوسکتی، اس لئے سرکارکو ہندوستان ہی سے ان کی تعلیم کی تکمیل اورڈگری کے حصول وانٹرن شپ کا انتظام کرنا چاہئے۔ طلبابھی یہی چاہتے ہیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی مدد کرے ، اس کی مدد کے بغیر ان کا کام نہیں ہوسکتا۔اگرنیشنل میڈیکل کونسل کے ضوابط کوتبدیل نہیں کرسکتے تو ا س کے متوازی کوئی اورانتظام توکرہی سکتے ہیں ۔
[email protected]
یوکرین سے لوٹے طلباکا مستقبل!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS