غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر لئیق رضوی کی کتاب ’ترقی پسند ادبی صحافت‘کا رسم اجرا و مذاکرہ

0

نئی دہلی (ایس این بی) : غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایوان غالب میں ڈاکٹر لئیق رضوی کی کتاب ’ترقی پسند ادبی صحافت‘پر مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔ جلسے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ ترقی پسند ادبی تحریک نے کئی جہتوں سے اردو ادب کو ثروت مند بنایا ہے۔ کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو پاتی جب تک اس کے تمام پہلوئوں کو باقاعدہ ضابطے میں نہ لایا جائے۔ چنانچہ میڈیا کا کردار اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عوام و خواص سے یکساں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر لئیق رضوی کی کتاب نے تحریک کے اس پہلو کو بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ میں ان کی اس کامیاب کوشش کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی یہ روایت ہے کہ نہ صرف اہم موضوعات پر سمینار ہوتے ہیں اور کتابیں شائع کی جاتی ہیں بلکہ ایسی اہم کتابوں پر مذاکرے کا سلسلہ بھی رہتا ہے جن کی اپنی ایک اہمیت ہے اور علمی بحثوں کو آگے بڑھانے میں ایک کردار ہے۔ ترقی پسند تحریک تاریخ اردو ادب کی نہ صرف پہلی باضابطہ تحریک ہے بلکہ اس تحریک کے سبب ہی اردو ادب کے مباحث میں وسعت پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر لئیق رضوی نے اس کتاب کے ذریعے اس تحریک کے اہم گوشے کو گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ میں ان کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شعبہ اردو پروفیسر احمد محفوظ نے کہا ترقی پسند تحریک اردو ادب کا بہت مرکزی موضوع رہا ہے ۔ اس تحریک کے اکثر گوشوں پر خوب بحثیں ہوئیں اور لکھا گیا، لیکن ادبی صحافت کہیں نہ کہیں چھوٹ جاتی تھی۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ ڈاکٹر لئیق رضوی نے اس کمی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس پر غیر جانبدارانہ انداز میں تبصرہ بھی کیا ہے۔ پروفیسر سراج اجملی نے کہاکہ لئیق رضوی سے میرا پرانا تعلق ہے ان کی شخصیت میں احساس ذمہ داری بہت ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ بھی رہے اس کے جلسوں بھی شریک ہوتے تھے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ انھوں نے وہاں بھی اپنی ذمہ داری کا یہ ثبوت دیا کہ ایسے گوشے کو مرکز میں لے آئے جس کی طرف توجہ نہیں کی جا رہی تھی۔ یہ ایک مشکل کام اس لحاظ سے تھا کہ تمام رسائل و اخبارات تلاش کرنا کتابوں کی فراہمی سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر لئیق رضوی نے کہا کہ ایک مصنف کے لیے اس کی کتاب کی اصل قیمت یہ ہے کہ اسے اچھے قارئین مل جائیں۔ مجھے اس بات سے بڑا حوصلہ ملا کہ آج کے جلسے میں آپ لوگوں نے اس کتاب کے تعلق سے گفتگو کی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ میری کتاب پر مذاکرے کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر متین امروہوی نے تہنیتی قطعہ پیش کیا۔ مذاکرے کی نظامت معین شاداب نے کی۔ ادب اور صحافت کی دنیا کی اہم شخصیات نے اس مذاکرے میں شرکت کی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS