ذاکر حسین کالج کا 3سو سالہ سفر:ایک جائزہ

0

درسگاہ نسلیں بناتی ہے۔ ان کی پرورش کرتی ہے اور اگلی نسل کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ درس گاہ ایک ماں کی طرح ہوتی ہے جو کہ طالب علم کی ایسی تربیت کرتی ہیں جس سے کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح کی ایک در س گاہ 300سال سے آج تک اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ درس گاہ پہلے غازی الدین کے نام سے مشہور تھی۔ بعد میں اس کا نام دلی کالج پھر ذاکر حسین کالج ہوا اور آج وہ ذاکر حسین دلی کالج کے نام سے اپنا فیض تقسیم کررہی ہے۔ مغل دور میں بننے والے اس یہ مدرسہ کو نظام حیدرآباد کے ایک ہونہار سپہ سالار غازی الدین خاں نے بنا یا تھا اور اس کی شروعات دلی کے اجمیری گیٹ کے باہر ہوئی تھی۔ یہی وہ مدرسہ ہے جس نے شمالی ہند میں اردو کے درس وتدریس میں اہم رول ادا کیا۔ 1857میں جب دلی پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوگیا تب انگریزوں نے اس کو برقرار رکھا۔ یہ وہی مدرسہ ہے جہاں پر برصغیر کے ممتاز اردو شاعر مرزا غالب صرف اس لیے واپس لوٹ گئے تھے کہ اس کے پرنسپل ان کو خاطر خواہ عزت نہ دے سکے تھے اور ان کا استقبال کرنے کے لیے حاضر نہیں ہوئے تھے۔
ہندوستان کے سب سے پہلے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر (این ایس اے)جے این دکشت نے اس درس گاہ کو صرف اس لیے قبول کیا تھا کہ وہ ہندوستان کی ملی جلی تہذیب سے رو برو ہو کر ہندوستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔12ویں کلاس کے بعد جے این دکشت کے سامنے کئی اور تعلیمی ادارے تھے جہاں وہ داخلہ لے سکتے تھے لیکن انہوںنے اس ذاکر حسین کالج صرف اس لیے چنا کیونکہ یہاں پر ملی جلی تہذیب کا وہ غیر معمولی امتزاج تھا جو کسی دوسرے کالج میں میسر نہیں تھا۔ مدرسہ غازی الدین سے ذاکر حسین کالج اور ذاکر حسین کالج سے دلی ذاکرحسین کالج بننے تک 300سالہ سفر کے دوران اس کالج نے بڑے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ کئی دفعہ یہ کالج بند ہوا اور دوبارہ کھل گیا۔ 1857کے انقلاب کے بعد اس وقت دلی کالج کے نام سے منسوب یہ درس گاہ برباد کی گئی تھی مگر مجاہدین آزادی مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ کی کوششوں کے بعد یہ کالج بحال ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کالج نے دلی سلطنت کے تمام ادوار دیکھے ہیں۔ مغل دور ، کمپنی راج، برطانوی سامراج، تقسیم ہند کا سانحہ اور آزادی کے بعد کا دور یہ کالج ہر دور میں منفرد انداز میں خدمات انجام دیتا رہا۔ 1857میں غدر کی وجہ سے اس کالج کو بند کردینا پڑا تھا۔ مگر اہل علم کی مداخلت اور ہندوستان کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر اس ادارے کو ماسٹر رام چند رجیسے سپوتوں نے مغربی ومشرقی زبان اودب کا ایسا مرکز بنا یا جو کہ شمالی ہند میں طویل عرصے تک بڑی خدمت انجام دیتا رہا۔ دہلی یونیورسٹی جو آج اپنے قیام کے 100سال منا رہی ہے اس کی شاندار تاریخ میں ذاکر حسین دلی کالج کی خدمات سنہرے حرفوں میں لکھی جائیں گی۔ یہ مرکز ہے علم ودانش کا جہاں سائنسی مضامین کا اردو میں ترجمہ ہوا اور ہندوستان میں اس ادارے کی وجہ سے سائنسی روشنی کا آفتاب طلوع ہوا۔
خیال رہے کہ یہ وہی دور تھا شمالی ہندوستان میں مغربی اور جدید علوم کی تدریس کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ مغربی کتب و مطالعات اردو اور مقامی زبانوں میں منتقل کیے جائیں ۔ اس معاملے میں 1840میں اس وقت کے کالج کے پرنسپل فلیکس بوتھروز نے ورنکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی بنائی تھی جس نے ریاضی ، انگریزی، فزکس، کیمسٹری، بایولوجی اور دیگر قدرتی علوم کی کتب اردو میں منتقل کیں۔ اگرچہ یہ کالج فصیل بند دہلی کی تعلیمی ضروریات کی وجہ سے بنا یاگیا تھامگر جب ہم اس کی شاندار خدمات اور روایات پر نظرڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس درس گاہ نے شمالی ہند میں علم وہنر کو نئی روشنی دی۔ مدرسہ غازی الدین سے شروع ہونے والا یہ کالج ملی جلی تہذیب مشرق ومغرب کے امتزاج اور فرقہ وارانہ ولسانی ہم آہنگی کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ وہ کالج تھا جس سے پرانی دہلی کی تنگ گلیوں سے نکلنے والی برقع پوش خواتین اپنی علم کی پیاس بجھاتی تھیں ان کو اردو ، فاسی، عربی کے ساتھ ساتھ بنگلہ ، انگریزی، ہندی سنسکرت اور دیگر سائنسی علوم کو پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔
ماسٹر رام چندر جیسے ماہرین کی خدمات کی وجہ سے یہاں کے طلب علموں کو اپنی مادری زبان میں فزکس اور کیمسٹری پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ زمانے کی گردش کا اثر اس درس گاہ پر بھی پڑا۔ 1857کے غدر میں کالج کے پرنسپل جے ایس ٹیلر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ برطانوی سرکار نے غصے میں آکر کالج کو بند کردیا تھا اور اس کے اسٹاف اور لائبریری کو لاہور منتقل کردیا گیا۔ بعد میں تقریباً نصف صدی کے بعد اسی مدرسے میں اینگلو عربک انٹر میڈیٹ کالج کھولا گیا جو بعد میں 1925 میں دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہوگیا۔ 1929میں پھر اس کو ڈگری کالج کی شکل دے دی گئی۔ ایک دور وہ آیا جب ملک تقسیم ہوا۔ اس دور میں تقسیم کی تباہی کا اثر اس کالج پر بھی پڑا۔ بعد میں 1948میں مرزا محمود بیگ کی قیادت میں یہ کالج بحال ہوا اور اس کے احاطے سے پاکستان سے آنے سے والے شرنارتھیوں کو دوسرے مقامات پر منتقل کرکے کالج کو دوبارہ کھولا گیا۔ آزادی کے بعد کے ذاکرحسین کی الگ تاریخ ہے جس پر روشنی ڈالنے کے لیے کئی مضامین درکار ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS