اِک نگاہ لطف آقاؐ
پیکر انوارِ حق ہے سید ابرارؐ کا
جس سے یہ دنیا ہے روشن نور ہے سرکارؐ کا
ہے منور نور سے روضہ مرے سرکارؐ کا
لمحہ لمحہ منتظر ہوں پھر میں ایک دیدار کا
ورد رکھ تو اسم اعظم احمد مختارؐ کا
چل رہا ہے دو جہاں میں سکہ اس سرکارؐ کا
یا علیؓ مولیٰ علیؓ شیرؓ خدا جان رسولؐ
اک نگاہ لطف آقا زور ہے اغیار کا
تھام کے روضہ کی جالی ایک دیوانہ کہے
کام دیوانہ کا کیجئے دور ہے اغیار کا
فخر اس پر، ہوں میں اس در کے غلاموں کا غلام
صدقہ بٹتا ہے جہاں پر سید ابرارؐ کا
شان و شوکت خیر و برکت ہے وہیں پر بس ضیاءؔ
ذکر ہوتا ہے جہاں پر احمد مختارؐ کا
ضیاء قادری اجمیری
٭٭٭
مشیت کام کرتی ہے
خُدا خاموش رہتا ہے مشیّت کام کرتی ہے
ہمارے واسطے اُس کی محبت کام کرتی ہے
وہ پیاسوں کے لئے زم زم نکالے ابر برسائے
ضرورت کے مطابق اُس کی حکمت کام کرتی ہے
بڑی محنت مشقّت سے بھلے ہی ہم کماتے ہوں
کمائی میں ہماری اُس کی برکت کام کرتی ہے
وہ دیتا ہے مگر واپس نہیں لیتا کبھی ہم سے
ہر اک نیکی میں اُس کی نیک نیّت کام کرتی ہے
جب اُس کا حُکم آجاتا ہے دُنیا سے نکلنے کا
نہ دولت کام کرتی ہے نہ شہرت کام کرتی ہے
مصیبت کے بھنور میں گِھر کے رہ جاتا ہے جب کوئی
تو ایسے میں فقط اُس کی حمایت کام کرتی ہے
ہم اُس کو دیکھ پانے میں رہے ہیں آج تک معذور
بہت محدود تر اپنی بصارت کام کرتی ہے
میں ورنہ اپنے بل بوتے پہ کچھ بھی کہہ نہیں پاتا
مری ہر حمد میں اُس کی عنایت کام کرتی ہے
کسی کو کچھ پتہ چلتا نہیں بھر جاتے ہیں دامن
کچھ اس انداز سے اُس کی سخاوت کام کرتی ہے
ہمارے ہاتھ حرکت میں نظر آتے تو ہیں حافظؔ
مگر در پردہ اس کے رب کی طاقت کام کرتی ہے
ڈاکٹر حافظؔکرناٹکی
٭٭٭
بشر کو تو شعورِ خندہ پیشانی بھی دیتا ہے
سمندر کو تلاطم خیز طغیانی بھی دیتا ہے
تو ہی تپتے ہوئے صحراؤں کو پانی بھی دیتا ہے
سبق دے کر خلوص و عاجزی و خاکساری کا
بشر کو تو شعورِ خندہ پیشانی بھی دیتا ہے
تو ہی غیض و غضب میں صورتوں کو مسخ کر دیتا
اور اپنے فضل سے چہروں کو تابانی بھی دیتا ہے
عطا کرتا ہے جب تو سر بلندی اپنے بندوں کو
جہاں گیری، جہاں داری، جہاں بانی بھی دیتا ہے
کبھی اُلجھائے رکھتا ہے ہمیں برسوں مسائل میں
کبھی تو مشکلوں کا حل بہ آسانی بھی دیتا ہے
کبھی معزول کر دیتا ہے تو مسند نشینوں کو
گداگر کو کبھی تختِ سلیمانی بھی دیتا ہے
ترے ہی حکم سے ہر سو گھٹائیں رقص کرتی ہیں
زمیں سر سبز رکھنے کیلئے پانی بھی دیتا ہے
جنونِ شوق کر دیتا ہے جب گم کردۂ منزل
دریدہ دامنوں کو اشک افشانی بھی دیتا ہے
وہ اپنے فضل سے مخمورؔ اِس دنیا میں شاعر کو
سخن گوئی، سخن فہمی، سخن دانی بھی دیتا ہے
ڈاکٹر مخمور ؔکاکوروی، لکھنؤ
٭٭٭
ساری دنیاکی چیزفانی ہے
رب ہے واحد، نہ اس کا ثانی ہے
سارے عالم پہ حکمرانی ہے
اس کے جلوے ہزار ہیں جس میں
دھوپ، دریا ہے، آگ پانی ہے
ایک مولیٰ کی ذات ہے باقی
ساری دنیا کی چیز فانی ہے
چاند، سورج سے ہے جہاں روشن
اس کی قدرت کی یہ نشانی ہے
سورہ اخلاص سے ہے یہ ثابت
حمد کیا ہے؟ یہ حق بیانی ہے
لم یلد سے وہ ذات ہے ظاہر
ہے خدا کیا؟ وہ ترجمانی ہے
کن کہا اس نے، باغ ہے اس کا
اس کی مرضی سے باغبانی ہے
حمد لکھتا ہے لاڈلہ اس کی
جس کا ہم سرنہ کوئی ثانی ہے
میم عین لاڈلہ،جگدل