بہار میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے ’آپریشن لوٹس‘ کو ’آپریشن کیچڑ‘ میں بدلنے والے نتیش کمار کے حوصلوں کو پر لگ گئے ہیں اور اب ان کی ہر کوشش2024کے انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو دھول چٹاتے ہوئے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونا ہے۔ ان کی تقریریں، بیانات اور سیاسی میٹنگوں سے بھی یہی پیغام مل رہاہے۔ حالیہ دنوں انہوں نے اپوزیشن اتحاد کابھی ڈول ڈالا تھا۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کو پٹنہ میں مدعو کیا اور ان سے طویل ملاقات کی، اس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے کیلئے دہلی تک پہنچ گئے ،وہاں انہوں نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی، سماج وادی پارٹی کے بانی سربراہ ملائم سنگھ یادو، اکھلیش یادو، سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری اور کئی دوسرے اپوزیشن لیڈروں سے بھی ملاقات کی۔ان سیاسی میٹنگوں کا کیا حاصل ہوا، اپوزیشن کہاں تک متحد ہوپایا ہے، یہ اب تک پردہ اخفا میں ہے۔ لیکن نتیش کمار کویہ یقین ہے کہ اگلی بار 2024میں مرکز میں غیر بی جے پی پارٹیوں کی حکومت بنے گی۔
آج انہوں نے اس یقین کا اظہار کرتے ہوئے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ اگرمرکز میں غیر بی جے پی پارٹیوں کی حکومت بنتی ہے توبہار سمیت تمام پسماندہ ریاستوں کو خصوصی درجہ دیا جائے گا۔یادرہے کہ اگر کسی ریاست کو خصوصی ریاست کا درجہ ملتا ہے تو مرکزی حکومت کی اسکیموں کیلئے 90 فیصد رقم مرکزکی جانب سے ملتی ہے اور صرف 10 فیصد رقم ہی ریاستی حکومت کو دینی پڑتی ہے۔ جبکہ عام حالات میں مرکزی حکومت کی اسکیموں میں مرکزکا حصہ60فیصد اور ریاستی حکومت کی شراکت 40 فیصد ہوتی ہے، بعض اسکیموں میںیہ تناسب 50-50فیصد کا بھی ہوتا ہے۔اس وقت ملک کی 10 ریاستوں، ایک مرکزی علاقہ کو خصوصی درجہ حاصل ہے جن میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، سکم، تریپورہ، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈجب کہ مرکزی علاقہ جموں و کشمیر بھی شامل ہے لیکن بہار کو اس فہرست سے باہر رکھاگیا ہے۔نتیش کمار جب این ڈی اے میںتھے اور بہار سے مرکز تک میں ان کی طوطی بول رہی تھی تو بھی وہ بہارکو خصوصی درجہ نہیںدلاپائے حالانکہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دیے جانے کا مطالبہ بہت پرانا ہے اور بہار اس کا مستحق بھی ہے۔ جنتادل متحدہ ہی نہیں بلکہ راشٹریہ جنتادل اور دوسری پارٹیاں بھی عرصہ سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہیںلیکن ان کا مطالبہ مرکز نے بوجوہ تسلیم نہیں کیا۔بہار کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں ہوا، اس کا جواب تو بی جے پی ہی دے گی۔ اگربہار کو خصوصی درجہ مل جاتا تو مرکزی امداد اور مختلف قسم کے ٹیکسوں میں ملنے والی چھوٹ میں اضافہ ہوتا اور اس کی وجہ سے بہار ترقی یافتہ ریاستوں کے ساتھ کھڑاہوسکتا تھا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہار کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھی نتیش کمار نے اب تک کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔بہار کی ترقی، لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری، فی کس آمدنی میں اضافہ، انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صنعت اور سرمایہ کاری جیسے تمام محاذ پر نتیش کمار ناکام ہیں۔ گزشتہ مہینہ اگست میں انہوں نے8ویں بار بہارکی کمان سنبھالی ہے لیکن غربت کی شرح میں نہ تو کوئی کمی آئی ہے اور نہ فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ مزدوروں اور ہنرمندوں کی ریاست سے باہر منتقلی کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے۔ صنعت کاری کے معاملہ میں بھی بہار سب سے نچلے زینہ پر کھڑا ہے۔بڑی کیا چھوٹی صنعتی اکائیاں بھی انگلیوںپر گنی جاسکتی ہیں۔ کاروبار و تجارت میںآسانی اور سہولت کے معاملہ میں بہار کا اسکور دوسری ریاستوں سے کافی کم ہے۔نتیش کمار بہار کی اس زبوں حالی کو خصوصی درجہ نہ دینے کی آڑ میں چھپاتے رہے ہیں۔ اب انہوں نے بہار کے لوگوں کو2024کا خواب دکھانا شروع کردیا ہے۔بہاراور دوسری پسماندہ ریاستوں کیلئے خصوصی درجہ کا وعدہ تک کرلیا ہے۔
اگلے لوک سبھا انتخاب میںفقط ڈیڑھ سال کی مدت باقی رہ گئی ہے لیکن اپوزیشن اتحاد کی اب تک کوئی حقیقی تصویر نہیں بن پائی ہے۔ ملک میںفی الحال اپوزیشن پارٹیوں کی جو صورتحال ہے، اس میں استحکام اور اتحاد کی تلاش پھوس کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں جہاں مختلف علاقائی مسائل پر آپس میں بٹی ہوئی ہیں، وہیں قیادت کا معاملہ بھی سنگین صورت لیے ہوئے ہے۔مغربی بنگال میں ترنمول سپریمو اپوزیشن اتحاد کی قائد بننے کی خواہش مند ہیں تو مہاراشٹر میں این سی پی سربراہ شرد پوار اور جنوبی ریاستوں کے کئی اپوزیشن لیڈران بھی اس کے خواہش مند ہیں، اب ان میں نتیش کمار کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حالات میں متحد اپوزیشن ایک خواب سے زیادہ کوئی حیثیت نہیںرکھتا ہے۔اگر نتیش کمار کو بہار اور دوسری پسماندہ ریاستوں کی ترقی مقصود ہے تو انہیں قیادت کا سہراسجانے اور وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے کے بجائے صرف اپوزیشن اتحاد کے قیام پر توجہ دینی ہوگی تاکہ مرکز میں غیر بی جے پی حکومت کے قیام کی کوئی صورت نکل پائے۔
[email protected]
نتیش کمار کا وعدہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS