نیلم مہاجن سنگھ
ملکہ الزبتھ دوم کی موت 96سال کی عمر میں بال مور اسکاٹ لینڈ میں ہوگئی۔ تاریخ داں پر گہری نظر ہونے کے سبب میں نے ان کے مختلف آزاد ملکوں کے تئیں رویے پر غور کیا ۔ ایک وقت ایسا تھا جب برطانیہ کا سامراج پوری دنیا میں پھیلا ہواتھا اور ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ ایک طرف ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف برطانیہ کے استعماری حکمرانوں کے لیے آنسو بہار رہے ہیں۔ ہاں بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے تحت سربراہان مملکت کے ذریعہ تعزیتی پیغام دینا ایک ضرورت ہوسکتی ہے۔ یوروپ سے انٹلیکچول انتہا پسند نظریات کے لیے برطانیہ سے امریکہ 13 کالونیوں میں جا کر امریکہ میں بس گئے۔ بوسٹن ٹی پارٹی میں چائے کی پتی سے بھرے جہاز کو سمندر میں ڈوبو دیا تھا۔ برطانیوی سامراج پر بہت ریسرچ ہوئی ہے ۔ ہندوستان میں بھی 1757پلاسی کی جنگ میں برطانوی استعماری طاقتیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں داخل ہوئی تھیں۔ یوروپ میں نشاۃثانیہ کی شروعات ہوچکی تھی۔ برطانوی سرکار کے خلاف زیادہ تر ملکوں نے آزادی کی لڑائی لڑی اور وہ بہت مناسب طریقے سے پیش قدمی کررہے تھے۔ برطانیہ کے حکمرانوں میں زیادہ تر ظالمانہ فطرت کے لوگ تھے اور دنیا کے ہر ملک کا اقتصادی استحصال کیا جارہاتھا۔ فرانسیسی انقلابی لفیاتی نے لیبرٹی(آزادی) ایکلولیٹی برابری اور فرٹنیٹی رواداری کا نعرہ دیا تھا۔ ہندوستان پر بھی یوروپی انقلابیوں نے اثر ڈالنا شروع کردیا تھا۔ آرنالڈ ٹوینبی نے صنعتی انقلاب کا نعرہ دیاتھا۔ برطانیہ نے ہر ملک کو غلام ہی سمجھا ہوا تھا اور ان ملکوں کے عوام پر زبردست مظالم ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ سوتیلی ماں کے جیسا رویے اختیار کیا تھا۔ یہ صنعتی انقلاب عسکری نقطۂ نظر سے برطانیہ سرکار نے بھاری ،بنیادی اور سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جو جدید کاری کی بنیاد پر پیدا ہوا تھا۔ صنعت کاری کے میدان میں اسے پوری طرح سے سامراج وادی دنیا پر منحصر ہونا پڑا۔ کچھ سال پہلے ڈاکٹر ششی تھرور نے کیمرج یونیورسٹی میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک شاندار تقریر کی تھی۔ جس میں ا نہوںنے برطانیہ کے حکمرانو ںکی دھجیاں اڑائی تھی۔ ان کی یہ تقریر دنیا بھر میں وائرل ہوگئی تھیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں ششی تھرور کی اس تقریر کے لیے تعریف کی تھی۔ جس ملک کے حکمرانوں نے ہندوستان کے مجاہدین آزادی پر اتنے ظلم کیے ہوئے ہوں اس کی ملکہ کے لیے ہم کیوں آنسو بہائیں۔ کیا ہم جنرل ڈائر کے جلیان والا باغ کو بھول گئے ہیں۔ کیا بھگت سنگھ ، سکھ دیو، راج گرو کی شہادت کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔
پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے کچے کپاس کو برآمد کرکے ملک کے کسانوں کو لوٹا اور اپنے ملک میں کارٹن کپاس کو بنایا۔ اس مدت کے دوران صنعتی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس مدت میں غیر ملکی سرمایہ میں اضافہ ہوا اور یہ 1930 کے دہائی کی آخر تک صنعتی اور کامرس کے میدانوں میں حاوی تھی۔ ان سب سے اوپر صنعت کاری کا وہ عمل تھا جو بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعہ آگے بڑھایا گیا۔ استعماری طاقتوں اور حکمرانوں کے ذریعہ ہندوستانی سرمایہ کے ذریعہ صنعت کاری کی ضرورت کو نظرانداز کیا گیا۔
یہ ہندوستان سے نکاسی کی سرمایہ تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کی بڑھتی آمد نے ہندوستان کی معیشت پر برطانوی راج کی بالادستی کو مضبوط کیا۔ بد قسمتی سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے نام پر باہری دنیا سے پونجی ہندوستان میں زیادہ نہیں آئی۔ یہ ہندوستان سے ایک طرفہ سرمایہ کاری کی منتقلی سے کم نہیں تھا۔ اس سے قبل اس غیر ملکی سرمایہ کاری نے پہلے کچے مال اور غذائی اجناس سے پیداوار اور درآمد پر خصوصی توجہ دے کر ہندوستان کی مضبوط معیشت کو اپنے طریقے سے ڈھالنے میں مدد کی۔اس لیے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ہندوستان ایک اقتصادی انقلاب سے گزر رہاتھا۔ لیکن ہم صنعتی انقلاب اس کو نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ جدید کاری کی کوششوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی اس میں شامل تھا۔ ریلوے نے ایک اقتصادی یاتجارتی انقلاب کی شروعات کی اور اس میں ملک کی صنعتی ضرورتوں کے مطابق تال میل نہیں بٹھا یا گیا۔ پروفیسر وپن چندرا (ہسٹری آف مارڈن انڈیا)کے الفاظ میں ہم اپنی موجودہ حال کی بحث کو اس طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔ ہندوستان کی اقتصادی ترقی میں اہم اصلاح اس دور میں ہوئی جب عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہندوستان کے سامراج وادی اصولوں پر مبنی اقتصادی مراسم کو مستقل طور پر مخدوش کیا اور اس سے کئی روکاوٹیں پیدا ہوئیں ۔ دوسری جانب ان اکائیوں کے مضبوط ہونے سے پچھڑا پن اور رکاوٹ پیدا ہوئی۔ تجارت میں ہندوستان کا زرعی اور صنعت میں پسماندگی اور تعطل اور توقف جزوی طور پر اس کے خارجی تجارت (جیسے ایکسپورٹ کی کم قیمت)کا اثر ہے۔ سامراجیہ وادی کے اثر میں ہندوستان میں ایک تجارتی تبدیلی آئی ۔ جس نے عالمی بازار کے ساتھ تامل میل کیا لیکن اسے ایک خاص نقطۂ نظر سے کمزور کردیا۔ ہندوستان نے اپنی پالیسیوں کو اس طرح سے نافذ کیا کہ ہندوستان کے کچے مال اور غذائی پیداوار کو مسلسل بنا یاگیا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور اقتدار میں ہوا۔
اس صورت حال میں 1857کے بعد ایک اہم موڑ آیا۔ قیمتوں کی ادائیگی میں ہوم چارج (قرض پر سود ، شہری اور فوجی سامان، انفرادی غیر ملکی سرمایہ پر سود اور فائدہ ، غیر ملکی بینکنگ کو ایک صنعت بنانے کے لیے سروس ٹیکس اور شیپنگ کی صنعت وغیرہ) شامل تھے۔ ہندوستانی سماجی گروپوں اور طبقات پر سامراج وادی سرمایہ دارانہ اور سیاسی بالادستی کی تشریح پر اب تک ہم نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ سامراج واد اور ہندوستانی آبادی کی ایک بڑے حصے کے درمیان کئی تبدیلیوں کو دیکھا۔ ایک ہی وقت میں بہت سے ہندوستانی لوگو ںکو برطانوی سلطنت کی استحصالی اور استبدالی حکمت عملی کا احساس ہوا۔ جو اکثر سامراج وادی استحصال سے فائدہ اٹھانے کے مقصد سے ایجنٹوں کے ذریعہ سے لائے جاتے ہیں۔ زمیندار ، پردھان اور ساہو کار وغیرہ جیسے کہ ان پڑھ کسانوں ، زمینداروں ، ساہو کاروں ، وکیلوں اور پجاریو ںکو بھی قوم پرستوں کے ذریعہ واضح کیاگیا۔ برطانوی استمراریت کے منصوبوں سے سب سے زیادہ پریشان کسان تھے۔ ہندوستانی زراعت میں سامراج وادیو ںکے جذبات نئے طریقے سے ظاہر ہوئے اور یہ زمین پر سرچارج اور دیگر ٹیکسوں کے ذریعہ ممکن بنا ئے جاسکے تھے۔ اس عمل میں سب سے طاقتور ذریعہ زمین پر عائد ہونے والا ٹیکس اور سرمایہ پر دیگر ٹیکسوں کو جمع کرنا تھا جو کسانوں کو زمینداروں اور ساہو کاروں کے چنگل میں دھکیل دیتا تھا۔ دستکاری کی صنعت کو تباہ کرنے اور زمین پر عائد ہونے والے ٹیکس کو لگاتار بڑھانے سے بہت سے دستکاروں اور زراعت کرنے والوں کو روزگار سے باہر کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ان طبقات نے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں اہم رول ادا کیا۔ لینن نے ایک بار کہا تھا کہ جہاں سیاست کی شروعات ہوتی ہے وہاں جنتا ہوتی ہے۔
پروفیسر آئی ایچ کار کے الفاظ میں واقعات تاریخ میں گنے جاتے ہیں۔ 19ویں صدی کے ابتدائی دور میں صنعتی کارخانوں اور صنعتی اکائیوں کے ساتھ ساتھ ایک نیا طبقہ بھی پیدا ہوا۔ جن کو ہم صنعتی مزدور کہتے ہیں لیکن صنعت کاری کی سستی کی وجہ سے 20ویں صدی کی شروعات سے ہی مزدوروں کے مسائل سنگین ہوتے گئے۔ مزدور طبقے کے رہنے اور کام کرنے کے حالات ہر طریقے سے خراب تھے۔ 1881اور 1891کے فیکٹری قوانین کے باوجود مزدوروں سے 15,16 اور 18گھنٹے تک کام کرایا جاتا تھا جو کہ اصولی طور پر حقیقی کام کے مقررہ وقت کے مقابلے میں ایک دن کا کام کے گھنٹے مقرر تھے۔ اور یہ ایک معمول تھا۔ ویسے بھی برطانوی حکمرانو ںکے دور میں مزدور طبقات کی افسوسناک صورت حال تھی۔ 1938میں جرگن کجنسکی کے ذریعہ واضح طور پر سامنے رکھی گئی تھی۔ جانوروں کی طرح بنا صاف ہوا پانی کے ہندوستانی صنعتی مزدور سب سے زیادہ استحصال زدہ افراد میں سے ایک تھے۔ جدید سرمایہ کاری کی دنیا 1858 کے بعد ملک میں سرمایہ دار طبقہ پیدا ہوا۔ ہندوستان میں صنعتی ترقی میں تین طبقات پیدا ہوئے۔ پارسی ، گجراتی اور مار واڑی ۔ سودیشی انڈسٹری میں کچھ حد تک ہندوستان کلچر کی بنیاد کو فروغ دیا تھا۔ ہندوستان کے کارخانوں میں کپاس مل سب سے بڑا صنعتی سیکٹر تھا اور حقیقت میں وہ خاص طور پر ہندوستانی سرمایہ سے ہی اس قدر بڑا ہوا تھا۔ ایک دوسری اہم صنعت جو کہ پارسی صنعت کار جے این ٹا ٹا او ران کے بیٹے دورا باجی کے ذریعہ بنا ئی گئی تھی۔ وہ تھا لوہا اور اسٹیل صنعت۔ سرمایہ دار طبقہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا تھا۔ کسی بھی ملک میں صنعتی بنیاد کو مضبوط بنانا سرکار کے رول میں اہم تھا۔ یہ یقینی طور پر دیگر یوروپی ملکوں میں ہوا۔ مغربی یوروپی ملکو ںمیں صنعتی ترقی کو آگے بڑھانے میں سرکاری مشینری کا بہت اہم تعاون رہا۔
انگریزوں نے ایک طرف آزاد تجارت کی حکمت عملی کو اختیار کیا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے سرکار کی پالیسی آزاد معیشت پر مبنی تھی۔ لیکن برطانوی حکمرانوں کی استحصالی حکمت عملی کی وجہ سے ان دنوں طبقات کے درمیان تعلقات میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ہم بی آر ٹاملسن کے الفاظ میں اس اقتباس کو ختم کرتے ہیں۔ ’ اس وقت کے مغربی ایشیا کے قانون ادارے اور سماجی نظام اس طرح کا تھا کہ شاہی نظام کے اندر کم مزدوری پر کام کرنے والے مزدور کم قیمت کے پروڈکٹ کے لیے برطانیہ کی ضرورت تھے اور اس پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے اہم طبقات کو معرض وجود میں لانا تھا۔ پچھلے 100سالوں سے زراعت اور صنعتی سرمایہ کاری اس استحصالی پیداوار کے روپ میں پہنچانی جاتی ہے۔ استعماری اور مغربی سامراج وادی سرمایہ دارانہ نظام میں لگاتار تبدیلی آتی گئی اور اس کے کئی روپ نکل کر سامنے آئے۔ جنہیں پیداوار یا مزدوری میں اضافے میں ضرورت نہیں تھا۔ یہ واضح ہے کہ استحصال کی نسلوں کی تعمیر کرتاہے۔ انگریزو ںکے بنیادی سامراج وادی کردار اور ہندوستانی معیشت اور ہندوستانی عوام پر اس کے اثر نے ملک میں قومی تحریک کے روپ میں جانی جانے والی سامراج وادی تحریک کو جنم دیا۔ آج ہندوستان کی آزادی کے 76ویں سالگرہ میں ہم ’ہر مجیسٹی ‘ ملکہ الزبتھ دوم کے لیے آنسو نہ بہائیں۔ ریسٹ ان پیس برٹش سامراج واد۔
(مضمو ن نگار سینئر صحافی اور سالیٹسر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]
استعماری نظام کی علامت الزبتھ دوم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS