حکیم محمدخالدصدیقی
حکیم عبدالحمید ؒنے فطرت کے آغوش میں پرورش پائی تھی۔محض چودہ برس کے تھے کہ والد کے سایہ سے محروم ہوگئے،ایسی کم سنی میں پدرانہ سایہ سے محرومی عام طور پر وجود کو بکھیر دیتی ہے،مگریتیمی کے حادثہ سے دوچار ہونے کے باوجودحکیم صاحب مرحوم نے اپنے آپ کوٹوٹنے نہیں دیا،خود کوسنبھالا،اہل خانہ کا سہارابنے اور جب بڑے ہوئے توٹوٹی بکھری قوم کوسنبھالادیا۔
حکیم عبدالحمید ؒنے زندگی کی پرواز فطرت سے سیکھی تھی،فطرت کی تربیت سے انہوں نے عزم و حوصلے کے بوتے زندگی گزارنے کاسلیقہ پایاتھا،اس لیے کسی کاکبھی سہارانہیں لیابلکہ ہمیشہ دوسروں کاسہارابننے کی کوشش کی۔ایسے لوگ بڑے بیش قیمت ہوتے ہیں ،ان کاوجود ہزاروں اور لاکھوں زندگیوں کاسامان ہوتاہے،ایسے بیش قدرلوگوں کی دنیاسے رخصتی پرصرف گھراوراہلِ خانہ میں ماتم نہیں ہوتابلکہ ان کی موت پرپوری قوم روتی ہے۔
حکیم عبدالحمیدؒبے کسوں کاسہاراتھے،سماج کے محروم طبقے کے لیے ان کی زندگی مسیحاکاکرداررکھتی تھی،ملی اداروں کے ہمیشہ وہ سرپرست رہے،قوم کی زندگی میں روشنی کے لیے وہ شمع بن کرجلتے رہے اور اجالے بکھیرتے رہے۔22جولائی1999کوان کی وفات سے قوم کا ایک بہی خواہ چھن گیا اور وہ دردمندچلاگیاجوقوم کے دکھ درد کاساتھی بنارہاتا تھا،وہ فرد چلاگیاجو لاکھوں بے کسوں کاسہاراتھا،تعلیم کامیرِکارواں تھا،تعلیمی اور لسانی امور کانگہبان تھا،ادارہ سازتھااور بہت سے قومی و ملی اداروں کاپاسبان تھا۔
حکیم عبدالحمیدؒ پیشے سے طبیب تھے،ان کانام فنِ طبابت کاوقار تھا،ان کے دستِ شفا نے لاکھوں مریضوں کوصحت بخشی،وہ تاعمرطبی تحریک کے روحِ رواں رہے اور ایوانِ حکومت میں طبی مسائل کی ترجمانی کرتے رہے ،یونانی مطب و معالجہ کوعوام تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہے اور یونانی طب کے تعلیمی و تحقیقی اداروں کے قیام اور استحکام میں تن من دھن سے لگے رہے،لہٰذاان کی موت سے طبی برادری کوناقابلِ تلافی نقصان ہواہے،صدمہ سے دوچار حلقۂ اطباء میں ان کاماتم توہونا ہی تھا،سوخوب ہوااور اب تک ہورہاہے،لیکن ان کی رحلت سے طب اور اطباء ہی کانقصان نہیں ہوا ہے اسی لیے ماتم کرنے والوں میں جودوسرے لوگ نظرآرہے ہیں ان کی تعداد بھی بے شمارہے۔
حکیم عبدالحمیدؒ کے والد محترم حکیم حافظ عبدالمجیدؒنے کاروبارِزندگی کے لیے’ہمدرد‘کے نام سے دلی کے محلہ حوضِ قاضی میں دواؤں کی ایک چھوٹی سی دکان شروع کی،اس کے ابتدائی خدوخال جیسے حکیم عبدالمجیدؒ کے زمانے تک ملتے ہیںوہ ایک اوسط درجہ کے عطارخانہ کے ہیں جہاں مفرددوائیں اور کچھ تیارمرکبات ملاکرتے تھے ،اب تک کاروباری وسعت کے لحاظ سے اس کی کوئی نمایاں حیثیت نہیں تھی ،ایسے حجم کے اس وقت دلی میں بے شمارعطارخانے تھے۔22جون1922کوحکیم عبدالمجیدؒ کی وفات کے بعدساری ذمہ داری حکیم عبدالحمیدؒکے کاندھوں پرآن پڑی۔ جیسے اسی کم سنی میں اکبراعظم نے زمام اقتدارسنبھال لی تھی،لیکن اکبرکوتخت وتاج ملے تھے،جب کہ حکیم عبدالحمیدؒنے اپنے سرپرذمہ داریوں کا پہاڑ اٹھایا تھا، اس وقت انہیں سنبھالنے اور حوصلہ عطاکرنے والے صرف دو لوگ تھے،ان کی والدۂ ماجدہ محترمہ رابعہ بیگم اوردوسرے کاروباری منتظم قاضی مشرف علی صاحب پوری،ان دونوں کی رہنمائی و مشورے اور حکیم اسرارالحق و حکیم خواجہ نیاز احمدکے تعاون سے حکیم عبدالحمیدؒ کے خلاق ذہن نے ہمدردکوایسی وسعت بخشی کہ یونانی طب کی تاریخ میں کسی دواسازادارہ کی ایسی ترقی کی مثال نہیں دیکھنے کوملتی۔
والد کی وفات کے بعد حکیم عبدالحمیدؒنے’ہمدرد‘کی ذمہ دار سنبھالی تو بڑے کم سن تھے،اتنے کہ اس مرحلہ میں جسم اور ذہن و شعور سب ناپختہ ہوتے ہیں،مگر انہوںنے جس بالغ نظری سے کاروبار کووسعت دی اس سے ان کی فطری صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔اس وقت ان کے سامنے’ ہمدرد ‘کوترقی دینے میں سب سے بڑاچیلنج تھاکہ’ہندوستانی دواخانہ‘بڑی ترقی یافتہ صورت میں موجود تھااورحکیم اجمل خاں کے عزیزحکیم غلام کبریاخاںعرف بھورے میاں (وفات:19مئی 1935)جن کے بیٹے حکیم احمد سعید خاں سے حکیم اجمل خاں کی ہمشیرہ منسوب تھیں،نے 1926میں ’’بڑا دواخانہ‘‘ کے نام سے یونانی دواسازی کی ایک کمپنی شروع کی تھی جواس زمانہ میں بہت مشہور ہوئی تھی،ان بڑے اداروں کے سامنے حکیم عبدالحمیدؒنے’ہمدرد‘کوقومی سطح پر نہ صرف شناخت عطاکی،بلکہ ایسی مستحکم بنیاد پرکھڑاکردیاکہ آج تک کوئی دواسازادارہ اس کے مقابل کھڑے ہونے کاحوصلہ نہیں کرپایاہے۔یہ سب محض اُن کے جوش ،لگن،عزم،استقلال ،وژن اورمنصوبہ بندی کاکارنامہ ہے کہ آج ہمدرد قومی اور بین الاقوامی سطح پریونانی دواسازی کے سب سے معروف نام کے طور پر جانا جاتا ہے، ایسا معروف نام کہ بہت سے عام لوگ یونانی کوہمدرد کے نام سے جانتے ہیں۔
شربت روح افزا’ہمدرد‘ کااسٹار پروڈکٹ ہے،یہ پہلی بار 1907 میں بازار میں آیاتھا،حکیم عبدالحمیدؒنے اسے مشروبات کی دنیاکاایسانام بنادیاکہ ہرگھر میں ضیافت کے ایک سامان کے طور پررکھاجانے لگا،اس کی تقلید کرتے ہوئے سکیڑوں کی تعداد میں متعدد کمپنیوں کی طرف سے خوشنمامشروب پیش کیے گئے لیکن روح افزاجیسی مقبولیت کسی کونہیں مل پائی۔
حکیم صاحبؒ کی نگرانی میں ہمدرد نے دواؤں کے معیار میں بہتری کے لیے کئی طرح کے تجربے کیے ہیں جو ہمدرد فارما کوپیا (1964)، قرابادین ہمدرد (1967) اور قرابا دین مجیدی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔مؤخرالذکرکوفارماکوپیاکمیٹی نے 2008میں نیشنل فارمولری آف یونانی میڈیسن پارٹ5کی صورت میں آفیشیل ڈاکومنٹ کادرجہ دے دیاہے،حکومت کی طرف سے یہ قرابادین مجیدی کی اہمیت کے اعتراف کا بڑااظہار ہے۔ہمدردفارماکوپیا،،قرابادین ہمدراور قرابادین مجیدی کی شکل میں یونانی دواسازی کو معیار و میزان عطاکرنے کاجو کام حکیم عبدالحمیدؒ نے ہندوستان میں کیا تھا وہی کام پاکستان مین حکیم محمد سعید نے ہمدرد فارماکوپیاآف ایسٹرن میڈیسن کی صورت میں انجام دیا ہے۔
دیسی ادویات کی معیار بندی کے لیے حکومتی سطح پر اب جو نظام قائم ہے اس ضمن میں حکیم عبدالحمید اور حکیم محمد سعید کی کوششیں بہت پہلے سے دیکھی جاسکتی ہیں،چنانچہGood manufacturing practices(GMP) اورامریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) کے مقررہ معیاروں سے ہم آہنگی اور عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے ضابطوں کی پابندی کااہتمام ہمدرد میں بہت پہلے سے ملتاہے،اس کے لیے باضابطہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا شعبہ قائم ہے،اس کے ذریعہ ہمدرد میں دواؤں کی محفوظ اور مؤثر اثرپذیری کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حکیم صاحبؒ نے ’ہمدرد‘کووسعت دیتے ہوئے 1952 میںکان پور میں اس کادفترقائم کیا،1956میں پٹنہ میں برانچ شروع کی ،1971میں پٹنہ میں فیکٹری بنائی، 1970-73 میں غازی آباد میں ہمدرد کی فیکٹری شروع کی، پھر 1990 میں اوکھلاانڈسٹریل ایریا میں نیا پروڈکشن پلانٹ قائم کیا،1964سے حکیم صاحب کے بڑے صاحبزادہ محترم عبدالمیعد صاحب نے ہمدرد کی انتظامی ذمہ داری سنبھالی اور حکیم صاحبؒ کی رہنمائی میں کام کرناشروع کیا۔ان کی آمد کے بعد کاروبار کو بیش بہا ترقی حا صل ہوئی۔
کسی کے ذاتی کاروبارسے علم و ادب کی تاریخ کوئی دل چسپی نہیںرکھتی،لیکن حکیم عبدالحمید ؒکے اس کاروبار سے رفاہِ عام جڑاہواہے،علم و ادب کے فروغ میں حکیم صاحب کے اس کاروبارکا تعاون شامل رہاہے اور طبی اداروں اور تحریکوں کو ’ہمدرد‘سے معاونت ملی ہے جو تاریخ کابڑاروشن عنوان ہے،جس کاروبار کے سوتوں سے لاکھوں کوسیرابی ملے اور جس نے عوامی و فلاحی کاز کو اتنی مدد فراہم کی ہو،ایسے تجارتی ادارہ کوکارِخیر کاسرچشمہ ہونے کے ناطے علمی و ادبی تاریخ کاعنوان بننا ہی چاہیے،اسی لیے علم و ادب کی تاریخ لکھنے والوں نے’ ہمدر دواخانہ کا‘ بڑے اہتمام سے ذکر کیاہے۔
حکیم عبد الحمیدؒ کی ذات ’پارس‘ تھی جس کے لمس سے آدمی سونابن جاتاتھا،ان کی صحبت کے فیض نے بہت سے ذروں کو آفتاب بنادیا،لیکن بھائی حکیم محمد سعید کی تربیت میں انہوں نے اپناسراپاڈال دیاتھا،ایساکہ انہیں ’عبدالحمید ثانی‘بنادیاتھا،طبیعت کی وہی خوبو،شخصیت میں بانکپن کاوہی انداز،مزاج میں جہدِ پیہم کاوہی جوہر،وہی قوم کی دردمندی اور فکرمندی۔جوحکیم عبدالحمید ہندوستان میں تھے ،وہی حکیم محمدسعید پاکستان میں بنے،مزیدبراں انہوں نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش میں بھی معیاری دواسازی کے ذریعہ یونانی طب کے فروغ کی راہیں استوار کیں۔
حکیم صاحبؒ کی فکریات کے جائزہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرسیدؒ اور حکیم اجمل خاںؒ کی طرح قوم کی فلاح تعلیم میں دیکھتے تھے،انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کاجوخواب دیکھاتھاجامعہ ہمدرد اسی کی تعبیر ہے،انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈمیڈیکل ریسرچ (IHMMR)کاقیام ان کے تعلیمی منصوبوں کی پہلی کڑی ہے،1962میں اس کاسنگِ بنیاد پنڈت جواہرلال نہرونے رکھاتھا،اس کے بعد 1963انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز قائم کیا،1970میں جب IHMMRکی بلڈنگ بن کر تیار ہوئی تواندراگاندھی کے ہاتھوں اس کے افتتاح کی رسم اداکروائی تھی،اس کے بعد حکیم صاحب نے اپنے منصوبوں کووسعت دیتے ہوئے ،ہمدرد کالج آف فارمیسی(1972)، رابعہ گرلس اسکول(1973)،سنٹرفارایڈوانسڈ سوشیو لیگل اسٹڈیز (1980) ہمدرد پرائمری اسکول(1981)،سنٹرفارفیڈرل اسٹڈیز (1991)، رفیدہ نرسنگ اسکول(1984)،ہمدرداسٹڈی سرکل (1992)قائم کیے۔
جامعہ طبیہ جسے حکیم محمد الیاس خاں اور ان کے رفقاء نے قائم کیاتھا،حکیم محمد الیاس خاں اپنی حیات تک اس کی دیکھ بھال کرتے رہے،آخر وقت میں انہیں خیال آیاکہ اگریہ مضبوط ہاتھوں میں نہیں رہاتو اپنے وجود کوباقی نہیں رکھ پائے گا،لہٰذااسے حکیم عبدالحمید کی تولیت میں دے دیا،1980میں حکیم صاحب نے اسے گلی قاسم جان سے ہمدرد کے کیمپس میںمنتقل کرنے کافیصلہ کیا،یہاں اسے ہمدرد طبی کالج کے نام سے موسوم کیاگیا۔مختلف اداروں کے قیام سے ہمدرد کاجب بڑاکیمپس تیار ہوگیاتو حکیم صاحب نے اسے یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کامنصوبہ بنایا،یکم اگست 1989 کو جامعہ ہمدرد ایک یونیورسٹی کی شکل میں معرض وجود میں آیا،اس کاافتتاح اس وقت کے وزیراعظم راجیوگاندھی نے کیاتھا،محض چوبیس برس کے عرصہ میں یونیورسٹی کے خواب کووہ بھی صرف ذاتی وسائل سے پورا کرلینابے پناہ عزم کااظہار ہے جو حکیم عبدالحمیدؒجیساکوئی عبقری فرد ہی کرسکتاہے۔ان کے اداروں کی فہرست پرنظرڈالنے سے اندازہ ہوتاہے کہ تعلیم کے فروغ کے ساتھ صنفی توازن کی اہمیت بھی ان کے پیش نظر تھی،چنانچہ وہ چاہتے تھے کہ خواتین زیورِتعلیم سے آراستہ ہوکرمعاشی لحاظ سے خودکفیل ہوں،رابعہ گرلس اسکول اور رفیدہ نرسنگ اسکول کاقیام بھی ایسا ہی نقش قدم ہے۔
حکیم عبدالحمیدؒ نے خواندگی مشن کی شروعات اعلیٰ تعلیمی اداروں سے کی تھی ،یہ ایسے ادارے تھے جو اپنے سبجیکٹ کے ماڈل کہے جاسکتے ہیں ،یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ عملی زندگی میں کامیابی کی مثال بن رہے ،کسی اچھے ادارے کا یہی معیار تصور کیاجاتاہے،مگر حکیم صاحب ان حصول یابیوں سے مطمئن نہیں ہوپا رہے تھے ،تعلیم کے ساتھ ذہنی و فکری تربیت نہ ہوپائے تو ایسی درس گاہیں تعلیم یافتہ بنانے کی فیکٹری تو ہوسکتی ہیں ،مگر شخصیت سازی کاادارہ نہیں بن سکتیں ۔حکیم صاحب کاخیال تھا کہ ہائرایجوکیشن کے ان اداروں سے تعلیم کی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے ،مگر ذہنی و فکری تربیت کے سلسلے میں یہ خاطرخواہ نتیجہ خیز نہیں ہوپارہے ہیں۔جس عمر میں ذہن نشو و نما پارہاہوتاہے دراصل فکری تربیت کا یہی اصل زمانہ ہوتا ہے،اس عمر میں ذہن کے اندر تربیت کے اثرات قبول کرنے کی بہتر استعداد ہوتی ہے،لہٰذااس مرحلہ میں جیسی صورت گری کردی جائے وہ شکل تاحیات باقی رہتی ہے،شخصی تعمیر کے تناظر میں تربیت کا یہ زمانہ انسانی عمر کا اہم ترین دور ہوتا ہے جو schooling ageکہلاتاہے۔مشنریزکے اسکولوں میں فکری تربیت کے مقصد سے تعلیم دی جاتی ہے اس لیے ان کے یہاں اسکول سطح کی تعلیم پر اصل توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔تربیت کے اس فلسفے کاحکیم عبدالحمیدؒ کو جب ادراک ہوا تو انہوں نے ہمدرد کے قریب سنگم وہار میں تعلیم آباد کے نام سے ایک کیمپس تعمیر کیااور1993میں یہاں ہمدرد پبلک اسکول کی بناڈالی،یہاں تعلیم و تربیت کے ذریعہ حکیم عبدالحمیدؒ طلبہ کی ایک ایسی نسل تیارکرنا چاہتے تھے جو آگے چل کر صرف تعلیم یافتہ نہ کہلائے بلکہ اخلاق و کردار سے متصف اور ملی و قومی شعور سے بہرہ ور ہو،جو عملی زندگی میں ملت کاایک اچھافرد اور ملک کااچھا شہری بن سکے ،اسی لیے ہمدرد پبلک اسکول میں طلبہ کی فطری صلاحیتوں کونکھارنے ،ان کے اندر ملی و قومی شعور بیدار کرنے ،زندگی کو سمجھنے ،زندگی کے مسائل سے نمٹنے اور تکثیری سماج سے خود کو ہم آہنگ کرنے کا مزاج تشکیل دینے پر سب سے زیادہ زور صرف کیاجاتاہے۔
حکیم صاحب نے محترم سیدحامد صاحب کے اشتراک سے 1991 میںہمدرداسٹڈی سرکل شروع کی،اس کے قیام کا مقصد تھا کہ اقلیتی طلبہ کی رہنمائی کرکے انہیں آئی اے ایس کے مقابلہ جاتی امتحان کے لیے تیار کیاجائے،اس وقت ہمدرد اسٹڈی سرکل کاشمار سول سروسز کی کوچنگ فراہم کرنے والے ایک اہم مرکز کے طور پرہے،یہاں منتخب طلبہ کے مفت قیام و طعام اور تربیت کا انتظام ہے ،اس سے استفادہ کرکے سیکڑوں طلبہ اہم عہدوں پر ملک و قوم کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
حکیم صاحب کی حیات تک ہمدرد کیمپس اور تعلیم آباد میں جوتعمیرات ہوئیںاور جوادارے قائم ہوئے،ان میں ہرایک اپنی اہمیت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے،ان کی تعمیر و ترقی کا کام حکیم صاحب کی زندگی میں ہی پورا ہوگیاتھا،اب ایک آخری کام وہ اپنی زندگی میں اور کرنا چاہتے تھے،ہمدردآرکائیوزاینڈ ریسرچ سنٹر کی تعمیر،اس کے قیام کا مقصد تھاکہ انہوں نے زندگی کے طویل عرصہ میں جو دستاویزیں جمع کررکھی ہیں محفوظ کردیں تاکہ ان کی مددسے ماضی کی تعلیمی اور تحریکی کوششوں کوسمجھاجاسکے اور مستقبل میں ان کی رہنمائی سے ایسے کاموں کے منصوبے اورلائحۂ عمل بنائے جاسکیں،یہ حکیم صاحب کاڈریم پروجیکٹ تھا،اس کاسنگ بنیاد 1998میں انہوں نے رکھ دیالیکن اس کی تعمیر2004 میں ہوئی اور حکیم صاحب وفات پاچکے تھے ۔اس وقت جب آرکائیوز زیر تعمیر تھا، صحت کی خرابی کی وجہ سے حکیم صاحب چلنے پھرنے سے معذورتھے اس لیے وہیل چیر پر بیٹھ کر اسے دیکھنے آتے تھے،ان کی خواہش تھی کہ یہ پروجیکٹ ان کی زندگی میں پوراہوجائے اور وہ اسے عملی شکل میں دیکھ لیں ،لیکن یہ خواہش ادھوری رہی۔اب آرکائیوز تیار ہوچکاہے،یہ ریسرچ سنٹر بھی بن جائے توحکیم صاحبؒ کاآخری خواب بھی پوراہوجائے۔
حکیم صاحب کی وفات کے بعد ان کے وژن کے مطابق ہمدرد کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے کا موجودہ ذمہ داروں میں بھیجذبہ دیکھاجارہاہے،اس سلسلے کی ایک کوشش ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ (HIMSR)کاقیام ہے،یہاں تعلیم کاآغاز2012 سے ہواہے،مختصر عرصہ میں اس ادارہ نے حیرت انگیز ترقی کی ہے اور اس وقت اس کا شمار جدید طبی علوم کے اہم اداروں میں ہے جو قومی سطح پر شناخت کاحامل ہے،چونکہ اس کاقیام حکیم صاحب کے تعلیمی مشن کے ایک حصہ کے طور ہواہے اس لیے اس کے ہاسپیٹل کو حکیم صاحب کے نام معنون کیاگیاہے جس میں 740بیڈ کی سہولت ہے،ایم بی بی ایس،ایم ڈی اور ایم ایس کے علاوہ یہاں کئی پیرامیڈیکل کورسز کی تعلیم کا بھی انتظام ہے۔
حکیم عبدالحمیدؒ نے ہمدرد دواخانہ کے ذریعہ معیاری ادویات، ہمدرد طبی کالج کے ذریعہ معیاری تعلیم اور آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے ذریعہ یونانی طب اور حکماء کے حقوق کی بازیافت کے ساتھ یونانی طب کو نظریاتی اساسوں پرقائم رکھنے کے لیے کئی اہم کام کیے ہیں، القانون فی الطب اور ادویۂ قلبیہ کے انگریزی تراجم ،تھیوریز اینڈ فلاسفیز آف میڈیسن،فلاسفیزآف میڈیسن اینڈ سائنس: پرابلم اینڈ پرس پیکٹیو،عرب میڈیسن اینڈ ریلیونس ٹو ماڈرن میڈیسن،اکسچینج بیٹوین انڈیا اینڈ سنٹرل ایشیااِن دی فیلڈ آف میڈیسن وغیرہ کی جمع وترتیب اور تالیف و تدوین اس سلسلے کے بڑے اہم کارنامے ہیں،جوحکیم صاحب کے علمی مفاخرمیں شمارہوتے ہیں۔
حکیم صاحب یونانی طب کے بنیادی نظریات کو فنی تشخص سمجھتے تھے ،وہ چاہتے کہ ان کی روح کو چھیڑے بغیرانہیں ایسی شکل میں پیش کیاجائے جو جدید دنیاکے لیے قابلِ فہم ہو،عناصریونانی طب کے اساسی نظریات میںہیں ،طبی فلاسفہ کے مطابق صحت و مرض کے سلسلے میں یہ جسم کے اندر اہم کردار اداکرتے ہیں ،’’صحت و مرض میں عناصرکاکردار‘‘کے موضوع پر فروری1983میں حکیم صاحب نے جامعہ ہمدرد میں ایک عالمی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں اٹھارہ ممالک کے 82مندوبین نے شرکت کی تھی،نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسداں پروفیسر عبدالسلام بھی اس کے شرکاء میں تھے،طبی نظریات کی طرف جدید محققین کی توجہ مبذول کرنے میں اس کانفرنس نے اہم کردار اداکیاہے۔اس موقع پرمستقبل میں عناصرپر تحقیقی کاموں کوجاری رکھنے کے لیے عنصریات کے ماہرین کی ایک تنظیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔
دہلی ہندوستان کادارالسلطنت ہونے کے ناطے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت کاحامل ہے،عرصہ سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ یہاں کوئی ایساسنٹرہوناچاہیے جو قومی ہم آہنگی،رواداری اور انسانی اقدار پر مبنی اسلامی شبیہ کو پیش کرنے کاذریعہ ہو،مسلمانوں کے مطالبہ پراندراگاندھی کے زمانۂ حکومت میں لودھی روڈ پر ایک قطعۂ آراضی فراہم کیا گیا،اس کے بدلے حکومت کو سترلاکھ روپے دینے تھے،اس خطیررقم کابند و بست مسلمانوں کے لیے مشکل تھا،اس وقت حکیم صاحب نے یکمشت یہ رقم دے کرکے انڈیااسلامک کلچرسنٹر کی یہ زمین حاصل کی تھی۔
اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعاون کے واقعہ سے بھی کم لوگ واقف ہیں،جامعہ اپنے ابتدائی دنوں میں کئی بار مشکلوں کاشکار ہواہے،گاہے حالات ایسے ہوگئے کہ وجود کی بقاکامسئلہ ہوگیا،ایک بار حکیم اجمل خاں کے زمانے میںجب اس قسم کی صورت پیدا ہوئی تو انہوں نے ہیرے کی انگوٹھی بیچ کرجامعہ کی ضروریات کانظم کیا تھا۔ڈاکٹرذاکرحسین کی وائس چانسلرشپ کے زمانہ میں ایک بار کچھ ایسے ہی حالات پیدا ہوگیے تھے،اس وقت مدد کے لیے انہوں نے حکیم عبدالحمید صاحب کولکھاکہ مکتبہ جامعہ بند ہونے کے کگار پرہے اور طلبہ کے فاقہ کی نوبت آگئی ہے،حکیم صاحب مدد،مد،دمدد!،جیسے ڈوبنے والاسہارے کے لیے کسی کوآوازدیتاہے۔حکیم صاحب نے فوراً دس ہزار روپے بھجوائے،یہ اس زمانے کے دس ہزار روپے تھے جب سونے کی قیمت فی تولہ 75-80روپے تھی،تعاون کی یہ رقم کتنی بڑی تھی سونے کی موجودہ نرخ سے موازنہ کرکے اندازہ کیا جاسکتاہے۔اتنی بڑی رقم پاکر ڈاکٹرذاکرحسین نے حکیم صاحب کی خدمت میں ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ تشریف لانے کی دعوت دی ،لیکن حکیم صاحب نہیں پہنچ سکے ،شاید انہوں نے خودنمائی کے خدشے سے جاناپسند نہیں کیا،وہ نیکی کرکے بھول جانے والوں میں سے تھے۔اس واقعہ کے سال دوسال بعد انہوں نے جامعہ کے مزید تعاون کے لیے پندرہ ہزار روپے بھجوائے،اس پر ذاکر صاحب نے لکھا کہ’ حکیم صاحب اب مجھے یقین آیاکہ آپ یقیناً ولی ہیں‘ حالات کوازخود محسوس کرکے دست تعاون دراز کرنے والاکوئی حکیم عبدالحمید ہی ہوسکتاہے۔
حکیم صاحب تہذیب کے پروردہ تھے اس لیے تہذیبی امور سے خاص لگاؤ رکھتے تھے،اردو ہندوستان میں مسلم تہذیب کی بڑی علامت سمجھی جاتی ہے اور غالب کو اس کا سب بڑانمائندہ خیال کیاجاتاہے،غالب کے شایان شان ایک یادگار کامنصوبہ حکیم صاحب کے ذہن میں 1935 سے تھا،اس کے لیے غالب کے مزار سے متصل بستی حضرت نظام الدین میں اپنی جیب خاص سے ایک پلاٹ خرید رکھاتھا،اس پر1969میں غالب کے جشن صد سالہ کے موقع پرذاتی صرفہ سے غالب اکیڈمی تعمیرکروائی اور22 فروری1969کو اُس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین سے اس کا افتتاح کروایا،غالب نوازی کاایسا مظاہرہ اب تک نہیں دیکھاگیاہے۔
اعزازات،عہدے اور مناصب بہت سے لوگوں کے لیے باعثِ فخراور موجبِ شناخت ہوسکتے ہیں،لیکن کچھ لوگوں کامعاملہ برعکس ہے دراصل ان لوگوں سے اعزازات کواعتبار حاصل ہوتاہے،حکیم عبد الحمیدؒ بھی اسی مرتبہ کی شخصیت رکھتے تھے،ان کو پدم شری(1965) اور پدم بھوشن(1992) جیسے اعلیٰ شہری اعزاز عطاہوئے،لیکن صحیح معنوں میں ان کی شخصیت بھارت رتن کی مستحق ہے،اسی سے ان کی خدمات کا قرار واقعی اعتراف ہوگا۔حکیم صاحب جامعہ ہمدرد کے بانی چانسلر تو تھے ہی ،ان کی شخصیت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی چانسلری (11 اگست 1996 تا 10اگست 1999)کے عہدے کو بھی توقیر بخشی گئی ہے،حکیم صاحب کی گرانقدر علمی خدمات کے اعتراف میںروس نے ابن سینا ایوارڈ (1993) پیش کیا ہے اور ہمدرد یونیورسٹی کراچی پاکستان نے ڈاکٹریٹ(1995) کی اعزازی ڈگری تفویض کی ہے۔
حکیم صاحب ایک فکری انسان تھے ،ان کے ذہن میں منصوبوں کی ایک دنیاآباد تھی،خاص طور پر مسلمانوں کے تعلیمی معاملات، اردو کے ترقیاتی کاموں اور یونانی کے تعلیمی،تحقیقی اور تحریکی امور سے متعلق وہ اپنے ذہن میں بڑے منصوبے رکھتے تھے،ان کے مطالعہ کے لیے ان کی شخصیت سے منسوب ایک چیر قائم ہوجائے تو ’حمیدی فکریات‘ کے مطالعہ کاایک مستقل سامان ہوجائے ۔کاش یہ ہوسکے!۔ ہوجائے تو حکیم صاحب کے شایانِ شان ایک یادگار ہوگی،چندبرس پہلے حکیم عبد الحمید ایوارڈجاری کرنے کااعلان ہواتھا،یہ سلسلہ شروع ہوجاتاتوطبی دنیامیں حکیم صاحب کے وژن اور فکریات کو آگے بڑھانے میں ایک محرک کاکرداراداکرتا۔
مضمون نگارسکریٹری جنرل آل انڈیایونانی طبی کانفرنس و سابق ڈائرکٹر جنرل سی سی آریوایم،نئی دہلی ہیں
حکیم عبدالحمیدؒ:ایک عبقری شخصیت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS