پنکج چترویدی
اسی سال مئی میں گوا کے کئی سمندری ساحلوں پر آئل کارسینوجینک ٹاربال کی وجہ سے چپچپے ہورہے تھے۔ گوا میں 2015 کے بعد 33 ایسے واقعات ہوچکے ہیں۔ ٹاربال کالے بھورے رنگ کے ایسے چپچپے گولے ہوتے ہیں جن کا سائز فٹ بال سے لے کر سکے تک ہوتا ہے۔ یہ سمندری ساحلوں کی ریت کو بھی چپچپا بنا دیتے ہیں اور ان سے بدبو تو آتی ہی ہے۔ گوا میں سنکورم سے لے کر موراجم تک، باگھا، ارمبول، وارکا، کیویلوسن، بینیلم سمیت 105 کلومیٹر کے سمندر ی ساحل کے زیادہ تر حصے پر اس طرح کی گندگی آنا بہت عام بات ہے۔ اس سے سیاحت تو متاثرہوتی ہی ہے، ماہی گیری سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ روزی روٹی کا سوال بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہے سمندر میں تیل یا خام تیل کا رساؤ، بسا اوقات یہ راستوں سے گزرنے والے بحری جہازوں سے ہوتا ہے تو اس کی بڑی وجہ مختلف مقامات پر سمندر کی گہرائی سے خام تیل نکالنے والے پلانٹ بھی ہیں۔ ویسے بھی حد سے زیادہ سیاحت اور بے قابو مچھلی پکڑنے کے ٹرولر سمندر کو مسلسل آئلی بنا رہے ہیں۔
حال ہی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی (این آئی او) کی ایک تحقیق میں ملک کے مغربی ساحل پر تیل کے رساؤ کے لیے قصوروار تین اہم مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان سے نکلنے والا تیل مغربی اور جنوب مغربی ہندوستان میں گوا کے علاوہ مہاراشٹر، کرناٹک کے سمندری ساحلوں کو آلودہ کرنے کے لیے ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ اس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ ’مینوئل کلسٹرنگ‘ طریقہ اپنا کر ان نامعلوم عوامل کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
گجرات کے قدیم سمندری ساحل، مہاراشٹر، گوا، کرناٹک موڑ اور گجرات کے مغربی ساحل پر سب سے مصروف بین الاقوامی سمندری آبی گزرگاہیں ہیں جو تیل کے رساؤ کے سبب خطرناک ٹاربال کی وجہ سے سنگین ماحولیاتی بحران کا شکار ہورہی ہیں۔ این آئی او گوا کے محققین کے ذریعہ کی گئی ایک تحقیق میں وی ٹی راؤ، وی سنیل، راج ونشی، ایم جے الیکس اور پی ٹی انٹونیا لانگ دی ایسٹرن عرب سی (ای اے ایس) نامی جہازوں سے حساس علاقوں میں تیل کا رساؤ پایا گیا۔ یہاں تک کہ کووڈ کے دوران لاک ڈاؤن میں بھی یہ جہاز تیل کی تلاش اور بین الاقوامی ٹینکر آپریشن کی وجہ سے سمندر میں تیل چھوڑتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ تیل کے رساؤ کا اثر سمندر کے حساس علاقوں میں زیادہ ہے۔ حساس علاقے یعنی کچھوؤں کی افزائش کے مقامات، مینگروو، کورل ریفس(مرجان کی چٹانیں) کا مقام۔ وزیراعلیٰ منوہر پاریکر کے دورمیں گوا ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ (جی پی سی بی)کے ذریعے تیار کردہ گوا اسٹیٹ آئل اسپل ڈیزاسٹر ایمرجنسی پلان میں کہا گیا تھا کہ گوا کے ساحلی علاقوں میں منفرد نباتات اور جانداروں کا ٹھکانہ ہے۔ اس رپورٹ میں تیل کے بہاؤ کی وجہ سے ہجرت کرنے والے پرندوں پر پڑنے والے منفی اثرات پر بھی چرچہ کی گئی تھی۔ معلوم نہیں دو جلدوں کی اتنی اہم رپورٹ کس لال بستے میں کھوگئی اور تیل کی مار سے بے حال سمندری ساحلوں کا دائرہ بڑھتا گیا۔ مسلسل چار سال 2017 سے 2020 (مارچ-مئی) تک حاصل کیے گئے اعدادو شمار کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ تیل پھیلاؤ کے تین ہاٹ اسپاٹ زون ہیں۔ جہاز سے ہونے والا تیل رساؤ زون-1 (گجرات سے آگے) اور 3 (کرناٹک اور کیرالہ سے آگے تیسرا، زون-2 جو مہاراشٹر سے آگے ہے، یہ تیل کے لیے کانکنی کی وجہ سے ہیں۔ کووڈ-19کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران، زون-1 میں صرف 14.30 مربع کلومیٹر (1.2فیصد) تیل کا رساؤ درج کیا گیا تھا جو کہ بہت کم تھا۔ ’جبکہ زون 2 اور 3 میں سال بہ سال تیل کے رساؤ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ170.29 مربع کلومیٹر سے195.01 مربع کلومیٹر کے درمیان ہی رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی تیل کے لیے کانکنی اور بین الاقوامی ٹینکر کی آمدورفت پر کوئی اثر نہیں ہوا، جس کی وجہ سے تیل کا رساؤ بدستور برقرار رہا۔
سمندر میں تیل کے رساؤ کی سب سے زیادہ مار اس کے جانداروں کی دنیا پر پڑتی ہے، وہیل، ڈولفن جیسی مخلوق اپنی روایتی جگہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر لیتی ہیںتو پانی کے ذخائر کی گہرائی میں پائے جانے والے چھوٹے پودے، چھوٹی مچھلیاں مونگا جیسے ڈھانچوں کو مستقل نقصان پہنچتا ہیں۔ کئی سمندری پرندے مچھلی پکڑنے نیچے آتے ہیں اور ان کے پنکھوں میں تیل چپک جاتا ہے اور وہ پھر اڑ نہیں پاتے اور تڑپ تڑپ کر ان کی جان نکل جاتی ہے۔ اگر سمندری طوفان سے متاثرہ علاقوں میں تیل کا رساؤ ہوتا ہے تو یہ تیل لہروں کے ساتھ زمین پر جاتا ہے، بستیوں میں پھیل جاتا ہے اور یہاں پیدا ہونے والی مچھلیوں کو کھانے سے انسان کئی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
تیل کے رساؤ کا سب سے منفی اثر تو سمندر کے پانی کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہے جو کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے دور میں زمین کے وجود کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ارتھ سائنس کی وزارت کی ایک رپورٹ کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے سمندر بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والی گرمی کا 93 فیصد حصہ سمندر پہلے تو جذب کرلیتے ہیں، پھر جب انہیں اگلتے ہیں تو کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم جانتے ہی ہیں کہ بہت سی انتہائی قدرتی آفات جیسے کہ برسات، لو، طوفان، پانی کی سطح میں اضافہ وغیرہ کا اصل منبع سمندر ہی ہوتے ہیں۔ جب فضا کی گرمی کی وجہ سے سمندر کا درجۂ حرارت بڑھتا ہے تو زیادہ بادلوں کی پیداوار کی وجہ سے خوفناک شدید بارش، گرمی کے ارتکاز کی وجہ سے طوفان، سمندر کی گرم بھاپ کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں شدید گرمی ہونا جیسے واقعات ہوتے ہیں۔
’اسیسمنٹ آف کلائمیٹ چینج اوور دی انڈین ریجن‘ عنوان کی یہ رپورٹ ہندوستان کی طرف سے تیار کی گئی اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے، جو ملک کو آب و ہوا میں تبدیلی کے ممکنہ خطرات سے خبردار کرتی ہے اور تجاویز بھی پیش کرتی ہے۔ یہ سمجھنا آسان ہے کہ جب سمندر کے اوپری حصے پر آتش گیر تیل کی تہہ دور تک پھیلی ہو گی تو ایسے پانی کا درجۂ حرارت یقینی طور پر بڑھے گاہی۔ بڑھتے ہوئے سمندری درجۂ حرارت کے تئیں آگاہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحر ہند کی سمندری سطح پر درجۂ حرارت میں 1951-2015 کے دوران اوسطاً ایک ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ اسی مدت میں عالمی اوسط ایس ایس ٹی وارمنگ سے 0.7 ڈگری سیلسیئس زیادہ ہے۔ سمندری سطح کے زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے شمالی بحرہند میں سمندر کے پانی کی سطح 1874-2004کے دوران ہر سال 1.06-1.75ملی میٹر کی شرح سے بڑھی ہے اور گزشتہ دہائیوں (1993-2017) میں 3.3 ملی میٹر سالانہ تک بڑھ گئی ہے جو عالمی اوسط سمندر کی سطح میں اضافے کی موجودہ شرح کے برابر ہے۔
سمندر کی وسعت اور شفافیت انسانی زندگی کو کافی حد تک متاثر کرتی ہے، عام آدمی اس حقیقت سے تقریباً ناواقف ہے جبکہ جس سیارے ’زمین‘پر ہم رہتے ہیں، اس کے موسم اور آب و ہوا میں باقاعدہ تبدیلیوں کا کافی کچھ دارومدار سمندر پر ہی ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ سمندر کے ماحولیاتی سائیکل میں پانی کے ساتھ ساتھ اس کا بہاؤ، گہرائی میں اِلگی کا جمع ہونا، درجۂ حرارت جیسی کئی باتیں شامل ہیں اور ایک کے بھی گڑبڑ ہونے پر سمندر کے قہر سے بنی نوع انسان بچ نہیں پائے گا۔ سمندر کی عظیم وسعت ویسے تو ہر طرح کے ماحولیاتی بحرانوں سے نبرد آزما ہو جاتا ہے لیکن ایک بار اگر یہ ٹھٹھک گیا تو اس کا کوئی حل ہمارے پاس نہیں ہے۔ سمندر سے تیل نکالنا اور نقل و حمل بھلے ہی آج بہت پرکشش ہو لیکن اس سے سمندر کے قہر کا بڑھنا زمین کے وجود کے لیے چیلنج ہے۔
[email protected]