صبیح احمد
کہا جاتا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ یہ حقیقت ہے، جب تک انسان حرکت نہیں کرتا، اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی بھی اب حرکت میں آگئی ہے اور کمر کس کر میدان میں اترگئی ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق صدر راہل گاندھی نے گزشتہ 7 ستمبر کو کنیا کماری سے کشمیر تک کے 35,00کلومیٹر طویل اور 5 مہینوں پر مشتمل عوامی رابطہ کا جرأت مندانہ سفر ’بھارت جوڑو یاترا‘ شروع کیا ہے۔ ملک کو آج جس راستے پر لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے پیش نظر وقت کا تقاضہ ہے کہ صرف امید نہیں کی جانی چاہیے بلکہ اس یاترا کو سماج کے ہر طبقہ سے بھر پور تعاون ملنا چاہیے کیونکہ جد و جہد آزادی کے بعد ہندوستان کو کانگریس کی سب سے زیادہ ضرورت ابھی آن پڑی ہے۔ اس لیے کانگریس میں جتنی جلدی دوبارہ جان آ جائے، ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ کانگریس کو چاہیے کہ وہ منفی اپروچ کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ سماج کے ہر طبقہ اور ہر فرقہ سے راست رابطہ قائم کرے اور خود کو ان کے ساتھ جوڑے۔ ٹھیک اسی طرح سے جس طرح جنگ آزادی کے دوران مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو جیسے کانگریس کے لیڈروں نے بلا تفریق مذہبی، سیاسی و سماجی وابستگی ملک کے ہر کنبہ کے ایک ایک فرد کو کانگریس سے جڑنے کے لیے مجبور کر دیا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کانگریس میں ضم کر لیاتھا۔ حالانکہ راہل گاندھی کو ابھی اس مقام پر پہنچنے میں کافی وقت لگے گا لیکن یہ کہنا قطعی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ راہل گاندھی بہت ہی وسیع الذہن اور بڑے دل کے ایسے لیڈر ہیں جنہیں سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں جس طرح ان کی غیر سنجیدہ اور بچکانہ شبیہ بنانے کی کوشش کی گئی اور ابھی تک کی جا رہی ہے، اگر ان کی جگہ کوئی ڈھلمل رویے اور ضعیف الاعتقاد والا انسان ہوتا تو راستے سے بھٹک گیا ہوتا۔ ان کی مثبت سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ درون ملک اور خود ان کی پارٹی کے اندر سے مسلسل حملوں کے باوجود وہ اپنی راہ پر اٹل ہیں اور اپنے نصب العین اور منزل سے ذرا بھی بھٹکنے کو تیار نہیں ہیں۔ گاندھی اور نہرو کو تو غیر ملکیوں سے لڑنا تھا، راہل کو اپنے ہی لوگوں کا سامنا ہے۔ یہ بھارت جوڑو یاترا در اصل کانگریس پارٹی میں نئی جان پھونکنے کے ان کے عزم کا ہی ایک حصہ ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’بھارت جوڑو یاترا‘ کانگریس کے لیے ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ثابت ہو گی؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ یاترا ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب کانگریس سیاسی اور تنظیمی دونوںسطح پر داخلی انتشار کا شکار ہے۔ غلام نبی آزاد اور کپل سبل جیسے بااثر لیڈر پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور ’جی 23 ‘کے ان کے ہم خیال دیگر سینئر لیڈر بھی وقفہ وقفہ سے ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے پارٹی کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ ان رہنمائوں سے قبل خود راہل گاندھی کے بے حد قریبی مانے جانے والے نوجوان لیڈروں کی ٹیم بکھر چکی ہے۔ ایک طرح سے پارٹی کے اندر افراتفری کا ماحول ہے لیکن راہل گاندھی کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کبھی کانگریس کا دروازہ بند کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، یعنی کسی کو روکنے یا منانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس حوالے سے ان کا موقف یہ رہا ہے کہ یہ دور نظریاتی لڑائی کا ہے اور ایسے حالات میں نظریاتی طور پر کمزور لوگوں کو ساتھ لے کر یہ لڑائی جیتی نہیں جا سکتی، اس لیے جنہیں جانا ہے تو وہ خوشی سے جا سکتے ہیں۔ جو لوگ نظریاتی طور پر مضبوطی کے ساتھ کانگریس کے ساتھ کھڑے ہیںوہ ہی اس لڑائی کے لیے کافی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کانگریس میں فی الحال مضبوط قیادت کا فقدان ہے۔ جی 23 کی تجاویز میں سے ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ ایک مستقل اور مضبوط صدر کا انتخاب کیا جائے جو باضابطہ طور پر انتخابی عمل سے گزر کر آئے ۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ابھی تک پارٹی کو ایک مستقل صدر بھی نہیں مل سکا ہے۔ منانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود راہل گاندھی کے تیار نہ ہونے کی صورت میں سونیا گاندھی عبوری صدر کی حیثیت سے پارٹی کی قیادت کر رہی ہیں۔ حالانکہ ان کی صحت یہ اہم ذمہ داری نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن پارٹی کے مفاد میں وہ اسے انجام دے رہی ہیں۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ ایک مضبوط قیادت یعنی صدر کی غیر موجودگی میں کیا اس یاترا کے نتائج اور مضمرات کو پارٹی کے حق میں استعمال کیا جاسکے گا؟ پارٹی صدر کے انتخاب کے حوالے سے راہل گاندھی کا جواب بڑا دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود صدر بنیں گے یا نہیں، اس سوال کا جواب الیکشن کے بعد خود بخود مل جائے گا۔ اور یہ کہ وہ ’بہت واضح طور پر فیصلہ‘ کر چکے ہیں کہ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ اس یاترا پر یہ کہہ کر بھی تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ’ون مین شو‘ ہے اور پارٹی کے دیگر ارکان پارلیمنٹ کا اس میں کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ راہل گاندھی خود کو اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا قائد بھی نہیں مانتے، اس کا صرف ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ اس یاترا کو ہندوستان کو مزید قریب سے دیکھنے اور اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش بتاتے ہیں۔
یہ یاترا کانگریس پارٹی کے مقصد کو پورا کر پائے گی یا نہیںیا اسے اقتدار کے کتنے قریب پہنچا پائے گی، قطعی طور پر اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ گزشتہ 8 برسوں میں عوامی سطح پر پارٹی جس طرح سے الگ تھلگ پڑ گئی ہے، اس جمود کو توڑنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ اس دوران عوام سے کٹ جانے کے سبب پارٹی کا مستقبل ہی خطرے میں پڑتا نظر آ رہا تھا۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کم از کم اس خطرے کو ٹالنے میں بہت حد تک مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ کانگریس گزشتہ 7-8 سالوں میں عوام سے کافی دور ہو گئی ہے۔ ذیلی تنظیمیں زمینی سطح پرکمزور ہو چکی ہیں، مقامی سطح پر پارٹی کارکنان غیر فعال ہو چکے ہیں۔ اب یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ راہل گاندھی یاترا کے دوران عوام سے کتنا رابطہ کرنے اور ان کو خود سے کتنا قریب کر پانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ بہرحال اگر کانگریس پارٹی اور دیگر غیر بی جے پی پارٹیاں نیشنلزم اور ڈیولپمنٹ کے غیر فرقہ وارانہ بیانیہ کے ساتھ بلا تفریق ملک کے سبھی لوگوں کے ذہنوں اور دلوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتی ہیں تو سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو درپیش موجودہ خطرات کو آسانی سے ٹالا جاسکتا ہے۔ خصوصاً کانگریس کو ایک تاریخ ساز اور ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے بشمول آر ایس ایس تمام لوگوں کے ساتھ خواہ ان کی نظریاتی وابستگی کسی کے ساتھ ہو، ملک کے مفاد میں تعمیری ڈائیلاگ شروع کرنا چاہیے۔ ہندوستان سبھی لوگوں کا ہے، اور کوئی بھی اسے کانگریس مکت، آر ایس ایس مکت یا مسلمان مکت نہیں بنا سکتا۔ تمام لوگوں کو اپنے دامن میں جھانکنا ہوگا اورخامیوں کو درست کرنا ہوگا اور ہماری جمہوریت، ترقی، سماجی انصاف اور قومی بھائی چارے میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے ختم کر کے حقیقی ’بھارت جوڑو‘ کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ تبھی ہم ’وشو گرو‘ کہلانے کے حقدار ہوسکیں گے۔
[email protected]