مغربی بنگال کی سیاست میںتشدد اور بدعنوانی معمول کی شکل اختیار کرگئی ہے۔انتخاب کے دوران تشدد، قتل و غارت گری کا دور ٹھنڈا پڑتاہے تو بدعنوانی اور گھوٹالہ بازی کے معاملات اجاگر ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران ریاست کی حکومت کے کئی وزراا ور لیڈران کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات لگے ہیں اور ان میں سے کئی ایک جیل میںبھی بند ہیں۔ بدعنوانی کے سنگین الزامات کے بعدایک طرف سی پی آئی ایم ریاست بھر میں ’چور دھرو- جیل بھرو‘ مہم چلارہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بھارتیہ جنتاپارٹی نے بھی ممتاحکومت پر اپنے حملے تیز کردیے ہیں۔ آج بھارتیہ جنتاپارٹی نے ریاستی سکریٹریٹ ’نوانو‘ گھیرائو کی مہم کا اعلان کیاتھا۔ انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود پارٹی اپنی مہم پر اڑی رہی۔نوانو کی جانب بڑھ رہے بی جے پی کارکنان کے خلاف پولیس نے سختی کا رویہ اپنایا۔اضلاع سے لے کر کولکاتا و ہوڑہ تک سڑکوں پر بی جے پی کارکنوں اور پولیس کے درمیان زبردست تصادم ہوااور نتیجہ میں سڑکیں میدان جنگ کا نمونہ بن گئیں۔ اس تصادم میں بی جے پی کے سیکڑوں کارکن زخمی ہوئے تو سو سے زائد پولیس اہلکار بھی مشتعل کارکنوں کا نشانہ بن گئے اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔ پولیس لاٹھی چارج کے دوران کئی بڑے لیڈروں کے سرپھٹے تو اپوزیشن لیڈر سوبھندو ادھیکاری،ریاستی صدر سوکانتومجمدار سمیت بی جے پی کے درجنوں لیڈروں کو گرفتار بھی کر لیاگیا۔
اس واقعہ کے بعد الزام در الزام کا دور بھی شروع ہوگیا ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ نوانومہم کو سبوتاژ کرنے کیلئے پولیس نے ان کے لیڈروں و کارکنوں کو بری طرح زد و کوب کیا، ریلی کے بیچ میں بم دھماکے کیے، پولیس کے سادہ پوش افراد نے وردی پوشوںپر اینٹ، پتھر برسائے اورپولیس اپنی گاڑیوں کو خود ہی آگ لگاکر اس کا الزام بی جے پی پر ڈال رہی ہے۔اپنے الزام کے ثبوت کے طور پر بی جے پی نے ایک ویڈیو بھی وائرل کیا ہے جس میں دیکھاجارہاہے ایک پولیس اہلکاربی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کے منہ پر مسلسل گھونسے مار رہا ہے۔ پارٹی نے یہ ویڈیو ٹوئٹر پر ڈال کر سوال کیا ہے کہ کیا پولیس ایسا کر سکتی ہے؟ پارٹی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ بنگال پولیس ترنمول کانگریس کے ایک غلام کی طرح کام کررہی ہے۔بی جے پی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایک پرامن ریلی اور سیاسی مہم کے دوران حکومت کی جانب سے طاقت کاوحشیانہ استعمال اس بات کی علامت ہے کہ بنگال میں ممتابنرجی کے اقتدار چھوڑنے کا اب وقت آگیا ہے۔ ممتا کابینہ کے زیادہ تر افراد بدعنوان اور گھوٹالہ بازتو ہیںہی، سیاسی مخالفین کے تئیں حکومت کا رویہ بھی ’جمہوریت کا قتل ‘جیسا ہی ہے، ممتا حکومت جمہوریت کی قاتل بن گئی ہے۔
ممتاحکومت پر یہ الزامات اس بی جے پی نے لگائے ہیںجس کے دامن پر خود ہی اتنے داغ ہیںکہ ان کاشمار کیاجانا مشکل ہے۔ جمہوریت پرشب خون مارنا ہویا انتخابات میں دھاندلی، بدعنوانی، گھوٹالہ بازی ہویاغریب عوام کے خلاف سرمایہ داروں سے ساز باز ان سب میں بی جے پی کو خصوصی امتیازحاصل ہے۔ گزشتہ 8برسوں کی سیاسی تاریخ بی جے پی کے ایسے ہی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے میں کسی دوسرے کی بدعنوانی کے خلاف احتجاج یا دوسرے کو جمہوریت کا قاتل ٹھہرانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیںرہ جاتا ہے۔
دراصل بی جے پی کایہ احتجاج بدعنوانی کے الزامات میںگھری ممتا حکومت کے خلاف ایک طرح سے طاقت کامظاہرہ ہے۔مغربی بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی 2سے اپوزیشن کے درجہ پر ضرور پہنچ گئی ہے لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔اب جب کہ ممتاحکومت پر بدعنوانی اور گھوٹالوں کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں، بی جے پی اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے اورایسے کسی بھی موقع کو وہ سیاسی رنگ دے کر مغربی بنگال میںاپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی رہے گی۔
اب یہ ممتابنرجی کی سیاسی حکمت عملی پر منحصر ہے کہ وہ بی جے پی کی اس موقع شناسی سے کیسے نپٹتی ہیں۔آیا ترنمول کانگریس اور اپنی حکومت کے دامن پر لگنے والے بدعنوانی اور گھوٹالے کے داغ صاف کرتی ہیںیا پھر اسے بی جے پی کی سیاسی مخالفت سمجھ کر اس سے نمٹنے کیلئے جوابی طاقت کا استعمال کرتی ہیں۔اگروہ موخر الذکر کارروائی پر مصر رہیں تو پھر بھارتیہ جنتاپاٹی کے حوصلوں کو لگام دینا مشکل ہو جائے گا، ویسے بھی کسی سیاسی جماعت کے احتجاج، ریلی، جلسے جلوس کے خلاف طاقت کا استعمال غیر جمہوری عمل ہے۔ آج کولکاتا اور ہوڑہ کی سڑکوں پر جو کچھ ہوا ہے، وہ مغربی بنگال کی سیاسی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے اور یہ داغ صاف کرنا بھی ممتابنرجی کی ہی ذمہ دارہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ممتابنرجی مغربی بنگا ل میں جڑ پکڑچکی بدعنوانی اور گھوٹالے کے خلاف موثر اقدامات کرکے سیاسی مخالفین کیلئے یہ دروازہ ہی بندکردیں۔
[email protected]
بنگال میںبی جے پی کی مہم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS