آخر یوپی حکومت چاہتی کیا ہے مدارس کے سروے سے

0

امام علی فلاحی ۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ،

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔

جب سے حکومت اتر پردیش کی جانب سے یہ اعلان صادر ہوا ہے کہ یوپی کے ان تمام مدارس کا سروے کیا جائے اور انکا جائزہ لیا جائے جو مدرسہ بورڈ یعنی حکومت اتر پردیش کے تحت نہیں ہیں تب ہی سے ذمہ داران مدارس گہما گہمی کے حالات سے دو چار ہیں وہ حیران ہیں کہ آخر حکومت پرائیویٹ مدارس کے سروے سے کیا چاہتی ہے اسکی کیا منشاء ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان مدارس کا سروے کراکے اور اسمیں کوئی فولڈ بتلا کے دیگر مدارس کی طرح ان مدارس کو بھی زمیں بوس کر دیا جائے ؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلمان بچوں کو انکے مذہبی تعلیم کے حصول سے روک دیا جائے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مدارس کے زمینوں کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں ہڑپ لیا جائے؟

یہ وہ تمام باتیں ہیں جسکی وجہ سے پرائیویٹ مدارس کے ذمہ داران سہمے ہوئے ہیں ۔

اسی کے مدنظر اتر پردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے مدارس کے ذمہ داران کو اطمینان دلاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ گزشتہ چھ برس سے مدرسہ بورڈ نے کسی بھی مدرسے کو تسلیم نہیں کیا ہے، لہٰذا اس طویل مدت میں کئی نئے مدرسے وجود میں آئے ہیں لہذٰا سروے کرکے ان کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے گا اور معیار پر اترنے والے مدرسوں کا بورڈ سے الحاق کیا جائے گا۔ تاہم مدارس کے ذمہ داران اس سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔

جبکہ جمیعت علمائے ہند اترپردیش کے سیکٹری قاری ذاکر حسین نے کہا کہ مدرسوں کے سروے پر ہمیں کسی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اصل میں سارا مسئلہ نیت کا ہے، سروے کے پیچھے کیا منشا اور کیا مقصد ہے؟ اصل چیز دیکھنے کی وہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت مدرسوں کو ماڈرنائز کرنے کی بات کہہ رہی ہے لیکن سب سے پہلا سوال تو یہ ہے اس سے پہلے جو مدارس حکومت سے جڑے ہوئے ہیں، کیا حکومت ان کی کارکردگی سے مطمئن ہے اور اگر مطمئن ہے تو بتائے، ڈیٹا پیش کرے کہ کونسا مدرسہ کس کنڈیشن میں ہے اور ان مدارس سے نکلنے والے طلبہ کتنی ترقی میں ہیں؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اتر پردیش میں 16500 مدرسے ہیں اور حکومت کے دعوے کے مطابق حکومت نے سات ہزار سے زائد مدارس کو ماڈرن بنا دیا ہے لیکن ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ماڈرن مدارس کہاں ہیں، یہ زمین پر ہے یا صرف کاغذوں پرہی ۔

قارئین! ذرا غور کریں کہ جو حکومت سرکاری اسکولز کو مارڈن نہیں کرسکی وہ غیر سرکاری مدرسوں کو کیسے مارڈن کر سکتی ہے؟

آپ پرائیوٹ سکول اور سرکاری اسکولوں کا جائزہ لے لیجئے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کس کنڈیشن میں ہیں، بچے سرکاری اسکول میں جانے کو تیار نہیں ہیں ہر بچہ یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی پرایویٹ سکول میں تعلیم حاصل کرے اور ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسکا بیٹا کسی پرایویٹ سکول میں تعلیم حاصل کرے یہاں تک کہ وہ ٹیچر جو خود ایک سرکاری ٹیچر ہوتا ہے جو خود ایک سرکاری سکول میں تعلیم دیتا ہے وہ بھی اپنے بچے کو پرایویٹ سکول ہی میں بھیجتا ہے، آخر کیوں؟ کوئی تو وجہ ہوگی؟

اسی لئے ہمارے اکابرین کہتے تھے کہ مدرسوں کو مدرسے کے ہی طرز پر چلایا جائے کوئی ضرورت نہیں ہے حکومت تحت چلانے کی۔

یہی وجہ تھی کہ حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے جب دار العلوم دیوبند کو چلانے کے لئے جو رہنما اصول ”اصولِ ہشت گانہ“ کے طور پر وضع کیا تھا اس میں ایک یہ بھی تھا کہ کسی سرکار، راجا، نواب یا جاگیردار سے ادارے کے لئے کوئی خطیر رقم عطیے کے طور پر قبول نہیں کی جائے گی بلکہ عام مسلمانوں سے ایک مٹھی چاول، ایک مٹھی گیہوں، ایک مٹھی دال کے سہارے اس ادارے کو چلایا جائے گا۔

 اور خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف دیوبند ہی بلکہ تمام دینی مدارس و مکاتب جن میں سرفہرست جامعہ اشرفیہ مبارکپور، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ ، مظاہر علوم سہارنپور، مدرسة الاصلاح سرائے میر، جامعۃ الفلاح بلریا گنج، جامعہ سلفیہ بنارس، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کو اپنے فضل و کرم سے اور ان کے قائم کرنے والوں اور چلانے والوں کی للہیت کے بَل پر اس طرح نوازا کہ آج ان میں سے ہر مدرسہ دین کا قلعہ بن گیا ہے۔

 ان ہی مدرسوں کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے ہمیں امام اور مؤذن ہی نہیں دیے بلکہ مفسر، محدث، فقیہ، سب کچھ عطا کئے۔

 ہمارے یہ مدارس ہی تھے جن کے اکابرین نے انگریزی استعمار سے ٹکّر لی تھی، جس نے مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی فرقہ پرستانہ اور مذہبی نوعیت کی جداگانہ سیاست کو مسترد کیا تھا۔

آزادی کے بعد اردو پر جب شمالی ہندوستان میں زمین تنگ کر دی گئی تھی اور اسے دیس نکالا دینے کی کوششیں ہو رہی تھیں اس وقت یہ مدرسے ہی تھے جنہوں نے ہمیں اردو میں خواندہ افراد، قاری اور اردو صحافت کو کاتب فراہم کئے تھے۔

یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ اس ملک کا پہلا وزیر تعلیم آکسفورڈ اور کیمبرج تو دور کی بات ہے

بی ایچ یو اور اے ایم یو اور دیگر یونیورسٹیوں کا بھی فارغ نہیں تھا بلکہ مدرسے ہی کے نصاب کی پیداوار تھا جسکا نام مولانا ابوالکلام آزاد تھا، جس نے ہمیں آئی آئی ٹی کھڑگپور، آئی سی سی آر، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی اور سی ایس آئی آر جیسے ادارے دیے۔

قارئین! آج کے زمانے میں ہر شخص پرایوئٹ چیزوں کو ترجیح دے رہا ہے کسی کو بھی سرکاری چیزیں بھا نہیں رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج حکومت بھی چیزوں کو جیسے ریلوے، بینک، بجلی، اور جہاز کو پرایوئٹ کر رہی ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ جب خود سرکار سرکاری چیزوں کو پرایویٹ کر رہی ہے تو پرایویٹ چیزوں کو سرکاری کیوں کر رہی ہے؟ پرایویٹ مدرسوں کو سرکاری کیوں کر رہی ہے؟

اور سرکار جب خود اپنے سرکاری اسکولوں کو مارڈن نہیں کر پارہی ہے تو وہ پرایویٹ مدرسوں کو مارڈن کیسے کر سکتی ہے؟

اسی لئے آج مدرسوں کے ذمہ داروں کو سروے سے ڈر نہیں ہے بلکہ حکومت کی منشاء سے ڈر ہے، آخر حکومت حکومت سروے کراکر چاہتی کیا ہے؟

جبکہ دستور ہند میں درج ناقابل تنسیخ بنیادی حقوق کی دفعات 29 اور 30 مسلمانوں کو یہ حق عطا کرتی ہیں کہ وہ اپنی پسند کے ادارے قائم کرسکتے ہیں اور چلا سکتے ہیں اور اس کے راستے میں جو رکاوٹ بنتا ہے وہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوستان کے دستور کی توہین کا مرتکب ہوتاہے۔

بہر حال اس وقت حالات سنگین ہیں اس لیے آج مسلمانوں کو اپنے رب سے رشتہ استوار کرنے کی اور دعا کو ہتھیار بنانے کی بیحد ضرورت ہے کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے، اس لیے اپنی تنہائیوں میں اپنے رب کے سامنے مدارس کے بقا کے لیے آنسو بہانے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ مدارس دینیہ نہ رہے تو ارتداد کا دروازہ کھل جانے کا پورا اندیشہ ہے اس لیے خوب دعائیں کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ دلوں کو مضبوط کرکے مدارس کی بقاء کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کی بھی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS