کیا گیان واپی مسجد دوسری ’بابری مسجد‘ بنے گی؟ اس سوال کی اہمیت بڑھ گئی ہے، کیونکہ آج یعنی 12 ستمبر، 2022 کو وارانسی کی عدالت کو اس ایشو پر فیصلہ سنانا تھا کہ گیان واپی مسجد کے احاطے میں واقع شرنگار گوری کے مستقل درشن پوجن کے مطالبے کی عرضی قابل سماعت ہے یا نہیں اور اس نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ یہ قابل سماعت ہے۔ وارانسی کے ضلع جج ڈاکٹر اجے کرشن وشویش نے مسلم فریق کی یہ عرضی خارج کر دی ہے کہ یہ معاملہ قابل سماعت نہیں ہے۔ ان کی طرف سے فیصلے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کا نفاذ اس معاملے پر نہیں ہوتا۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ 1991 میں ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ پاس ہوا تھا۔ اس کے تحت یہ بات کہی گئی تھی کہ 1947 میں جو عبادتگاہیں جس حالت میں تھیں، وہ اسی حالت میں رہیں گی۔ بابری مسجد پر ہندوستان کے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر مسلمانوں نے اسی ایکٹ کی وجہ سے یہ سوچ کر اطمینان کیا تھا کہ ان کی کسی اور عبادت گاہ پر آنچ نہیں آئے گی۔ 1947 سے پہلے جو مسجدتھی، وہ آج بھی مسجد ہی رہے گی مگر جج صاحب کے یہ کہنے سے، کہ گیان واپی مسجد کے احاطے میں واقع شرنگار گوری کے مستقل درشن پوجن کا مطالبہ قابل سماعت اس لیے ہے، کیونکہ اس پر ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ نافذ نہیں ہوتا، بابری مسجد کے بعد ایک اور مسجد پر سماعت کا سلسلہ شروع کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گیان واپی مسجد دوسری ’بابری مسجد‘ بنا دی جائے گی تو اندیشہ اس بات کا بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کی موجودگی کے باوجود مختلف عبادت گاہوں پر سماعتوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، کیونکہ ہندوستان میں حالیہ دنوں میں ہی ایک سے زیادہ عبادت گاہوں پر تنازعات سامنے آئے ہیں۔
بابری مسجد تنازع پر عدالتوں نے ثبوتوں پر کتنی توجہ دی تھی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، البتہ یہ سمجھنے کی ضرورت ضرور تھی کہ بابری مسجد تنازع نہ صرف فسادات کی وجہ بنا تھا اور وہ فسادات کئی لوگوں کی جانوں کے اتلاف کا سبب بنے تھے بلکہ بابری مسجد کی مسماری نے عالمی برادری کو حیرت زدہ بھی کیا تھا، کیونکہ 6 دسمبر، 1992 سے پہلے تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان میں ایسے کسی سانحے کے وقوع پذیر ہونے کی گنجائش نہیں ہے مگر مسماری نے یہ ثابت کر دیا کہ بدلتے حالات کا اثر لوگوں کے مزاج پر ہی نہیں، ان کے قول و عمل پر بھی پڑتا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حالات کی تبدیلی میں سیاسی تبدیلیوں کا بڑا رول ہوتا ہے، حالات سیاسی نفع نقصان کے حساب کتاب کی مناسبت سے بدلتے ہیں، اس لیے گیان واپی مسجد معاملے پر غور کرتے وقت بھی حالات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، یہ بات بھی نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں دو سال بھی نہیں بچے ہیں۔
اگست، 2021 میں 5 خواتین نے وارانسی سول جج(سینئر ڈیویژن) کو گیان واپی مسجد میں واقع شرنگار گوری میں روزانہ پوجن درشن کی اجازت دینے کی عرضی دی تھی۔ اس ایشو نے شدت اختیار کی۔ یہ ایشو ملک کے سپریم کورٹ تک پہنچا۔ 20 مئی، 2022 کو سپریم کورٹ نے وارانسی ضلع جج کو یہ ہدایت دی کہ وہ عرضی کی میرٹ پر فیصلہ لیں۔ وارانسی کے ضلع جج ڈاکٹر اجے کرشن وشویش نے 24 اگست، 2022 کو سنوائی پوری کی۔ مسجد کمیٹی کی دلیل یہ تھی کہ عرضی قابل سماعت نہیں ہے ، کیونکہ شرنگار گوری میں پوجا کرنے کی اجازت دینے کی عرضی ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے خلاف ہے مگر عدالت نے ان کی بات نہیں مانی۔ عدالت نے اسے قابل سماعت مانا۔ اب اس کی اگلی سنوائی 22ستمبر، 2022 کو ہوگی۔ مطلب یہ کہ اب گیان واپی مسجد سرخیوں میں رہے گی۔ اس سلسلے میں مسلم فریقوں کو اس طرح کا خواہ مخواہ کا بیان نہیں دینا چاہیے کہ انہیں ہندوستان کے قانون میں یقین ہے، فیصلہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہوگا، قانون کے مطابق ہوگا، کیونکہ ان سے کوئی یہ پوچھ نہیں رہا ہے کہ کیا آپ کا یقین ہندوستان کے قانون میںہے، کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ فیصلہ جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہوگا، قانون کے مطابق ہی ہوگا؟
بہرکیف، گیان واپی مسجد معاملے کے بڑھنے کا ہی اندیشہ ہے، کیونکہ ہندوفریق کی طرف سے پہلے ہی یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ فیصلہاگر ان کے حق میں آئے گا تو وہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سروے اور ’شِولنگ‘ کی کاربن ڈیٹنگ کا مطالبہ کریں گے اور اب فیصلہ ان ہی کے حق میں آیا ہے۔ فیصلے پر ہندوفریق کے عرضی گزار سوہن لال آریہ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہندو کمیونٹی کی جیت ہے۔‘
[email protected]
گیان واپی مسجد: کیا دوسری ’بابری مسجد‘ بنے گی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS