اُپیندررائے
آزادی کا امرت مہوتسو منارہا ملک اب غلامی کی علامات سے بھی آزاد ہورہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اسی ہفتہ نام بدلنے کے ساتھ ہی استعمار کی ایک بڑی علامت راج پاتھ بھی تاریخ کے صفحات میں درج ہوگیا۔ راج پتھ، جسے پہلے کنگس وے یعنی بادشاہ کے راستہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسے بنیادی طور پر برطانوی حکومت کے دوران بادشاہ کے وائسرائے ہاؤس سے نکل کر جانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد جب اس کا نام بدل کر راج پتھ کیا گیا تب بھی اس میں سے راج کرنے والوں کے پتھ کا تاثر دور نہیں ہوسکا تھا۔ اب وزیراعظم نے اقتدار کی اس علامت کو کرتویہ پتھ کا نام دے کر اسے عوامی ملکیت اور جمہوری اقدار کو بااختیار بنانے کی نئی پہچان دی ہے۔
پی ایم مودی نے اسی سال 15اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے ’پانچ عہد‘ لیے تھے، جس میں ایک عہدغلامی کی نشانی کو ختم کرنا بھی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہمیں ہر اس نشانی کو مٹانا ہے جو انگریزوں سے وابستہ ہے،جو غلامی کی علامتیں ہیں۔ ملک سے اس درخواست کے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں وزیراعظم اس سمت میں آگے بڑھے ہیں۔ ویسے سچائی تو یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مودی حکومت برطانوی نوآبادیاتی دور کی نشانیاں ہٹارہی ہے۔ اس سال کی شروعات میں بی ٹنگ دی ری ٹریٹ جشن کے روایتی عیسائی بھجن ’ایبائڈ بائی می‘ کو سدابہار ’اے میرے وطن کے لوگو‘ سے بدل دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ، ہندوستانی بحریہ کے جھنڈے پر سینٹ جارج کے کراس کو شیواجی کی علامت کی مہر سے بدل دیا گیا تھا۔ جنوری میں جب امرجوان جیوتی کو نیشنل وار میموریل میں لو میں ملا دیا گیا تھا تب بھی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انڈیا گیٹ پر کندہ نام صرف کچھ شہیدوں کے ہیں جو پہلی عالمی جنگ اور اینگلو-افغان جنگ میں انگریزوں کے لیے لڑے تھے اور اس طرح وہ ہمارے نوآبادیاتی ماضی کی ہی علامت ہیں۔ 2014سے لے کر اب تک حکومت انگریزوں کے بنائے ہوئے 1500 سے زیادہ ایسے قانون ختم کرچکی ہے جن کی اب ملک کو ضرورت نہیں ہے۔ اتنے وقت سے یہ قوانین کیوں چلے آرہے تھے، یہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے۔ اس کے علاوہ کئی شہروں سے لے کر سڑکوں کے نام بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔ گڑگاؤں اب گروگرام ہوگیا ہے۔ وہیں کرزن مارگ کو کستوربا مارگ، ریس کورس کو لوک کلیان مارگ، اورنگ زیب مارگ کو اے پی جے عبدالکلام مارگ، ڈلہوزی مارگ کو داراشکوہ مارگ کردیا گیا۔
نظریاتی غلامی کی زنجیروں سے نکلنے کی سمت میں پہلی بڑی اور کامیاب کوشش دراصل ہماری نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان میں تعلیم کے بنیادی اصول اتنے برسوں تک لارڈ میکالے کی کالی چھایا میں بنے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نوآبادیاتی دور کے تعلیمی مواد کو آزادی کے بعد بھی کئی دہائیوں تک وراثت کی طرح نسل درنسل ہم پر تھوپا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ہم اندیشوں اور احساس کمتری سے متاثرہ ذہنیت سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ آج عالمی سیاست سے لے کر عالمی معیشت تک ہندوستان کی اہمیت برطانیہ سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ذہنی غلامی کی بیماری کا علاج ابھی بھی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک فریق ایسا بھی ہے جو نام بدلنے اور غلامی کی علامات کو ہٹانے کے عمل کو فضول، وقت اور پیسے کا ضیاع اور ایشوز سے توجہ ہٹانے کی قواعد بتاکر اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ کو مٹایا جانا ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ بھلے ہی یہ ہمیں اپنی غلامی کی یاد دلاتی ہو، لیکن اس کی بھی ایک مثبت قدر ہے جو ہمیں استحصال کا ڈٹ کرسامنا کرنے اور اپنے سیاہ ماضی کو سنہرے مستقبل میں بدلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ آنے والا کل اگر گزرے ہوئے کل کے تناظر میں دیکھا جائے گا تو یہ اور بھی زیادہ بامعنی ہوگا۔
اس سب کے درمیان غلامی کی یادیں مٹانے والے تمام فیصلے ’کمزور ماضی‘ کی باقیات کو دور کرنے کے ساتھ ہی ایک نئے ہندوستان کی عزت نفس کو حیات نو عطا کررہے ہیں۔ وزیراعظم مودی کی مکمل عوامی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کو لے کر وہ جس طرح کی باتیں کرتے ہیں، وہ ایک ایسے نئے ہندوستان کی باتیں ہوتی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط، زیادہ خودمختار ہے اور جس پر اب آسانی سے کسی طرح کی رائے نہیں تھوپی جاسکتی۔ ہر ملک کی ترقی کے سفر میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب ملک خود کو نئے سرے سے متعارف کرتا ہے۔ خود کو نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔ آج کے ہندوستان کے عزم اور اہداف اپنے ہیں اور اب یہ اپنے لیے نئی علامات بھی گڑھ رہا ہے۔ گزرے ہوئے کل کو چھوڑ کر نیا ہندوستان خوداعتمادی کی چمک کے ساتھ آنے والے کل کی تصویر میں نیا رنگ بھر رہا ہے۔ تبھی تو وزیراعظم نے اسے مسلسل چلنے والی ’سنکلپ یاترا‘ بتایا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو وزیراعظم نریندر مودی نے دراصل اسی روایت کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے جس کی بنیاد سوامی وویکانند اور بنکم چندر چٹوپادھیائے جیسے عظیم مفکرین نے اپنے وقت میں نوآبادیاتی نقطہ نظر کے غلبہ کو چیلنج دے کر رکھی تھی۔ بابائے قوم مہاتماگاندھی سے لے کر شری اربندو تک تقریباً سبھی قوم پرست مفکرین نے اس روایت کی شمع کو روشن رکھا۔ باپو کا ’ہند-سوراج‘ اس کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
بہرحال آزادی کے 75سال بعد ہی سہی، لیکن استعمار اور اس کی علامتیں اب چرچہ کا موضوع ہیں۔ یہ آزادی ہمیں آسانی سے نہیں ملی ہے۔ ملک نے اس کے لیے صدیوں تک جدوجہد کی، غلامی کی کسک اور آزادی کی للک کے درمیان کئی فتح و شکست دیکھی ہیں لیکن آزادی کی خواہش کو کبھی ختم نہیں ہونے دیا۔ جدوجہد اور قربانیوں کی انتہا سے حاصل آزادی میں بیشک ہم نے سیاسی اور معاشی استعمار پر قابو پالیا ہے، لیکن ثقافتی اور فکری غلامی آج بھی چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس معنی میں ہماری آزادی ابھی بھی نامکمل ہی کہی جائے گی۔ اس ذہنیت سے نجات میں ہی صحیح معنوں میں آزادی کے امرت مہوتسو کی کامیابی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)