مسلم پرسنل لاء:ایک بار پھر قانون کی زد میں

0

پروفیسر اخترالواسع

حالیہ دنوں میں ملک کی عدالت عالیہ کے اندر پھر سے مسلم پرسنل لاء کے چند مسائل کو زیر بحث لانے کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ان میں طلاق احسن، حلالہ اور تعدد ازدواج پر بحث متوقع ہے۔ یہ عجیب بد قسمتی ہے کہ ملک میں باشندوں کو در پیش بے شمار سنگین مسائل کے ہوتے ہوئے مسلم پرسنل لاء کے ان مسائل کو شد ومد کے ساتھ نہ صرف بار بار اٹھایا جاتا ہے بلکہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو ان بنیادوں پر گرم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو مسلمانوں کی داخلی زندگی کا حصہ ہیں اور ان کے لیے مذہبی شناخت کا درجہ رکھتے ہیں۔
یوں تو ملک عزیز میں مسلمانوں کے چند ہی ایسے عائلی مسائل ہیں جن پر انہیں دستور کے مطابق اسی طرح عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے جس طرح دوسری مذہبی اقلیتوں اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے۔ یہ مسائل مسلمانوں کے مذہب اور ان کی شرعی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ کوئی موجودہ دور کی پیداوار بھی نہیں ہیں بلکہ اسلام کے آغاز سے یعنی ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمانوں کی زندگی میں رچے بسے ہیں اور پھر نہ صرف اس ملک کے مسلمان بلکہ پوری دنیا میں رہنے والے اسلام کے پیرو کار، ان پر عمل کرتے ہیں۔ پھر بھی ان پر قانونی داؤ پیچ کی نئی بزم سجائی جاتی ہے اور ملک وقوم کے وسائل کا کافی حصہ ان پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔
حلالہ کے مسئلہ کو لے لیجیے، گزشتہ دنوں اس پر کافی بحثیں کی گئی ہیں اور اسلامی قانون کے ماہرین نے یہ بات واشگاف کر دی ہے کہ حلالہ اسلامی قانون میں سرے سے نہیں ہے۔ یہ مسلم پرسنل لاء میں کہیں بھی درج نہیں ہے۔ سماج میں اگر کہیں یہ چیز موجود بھی ہے تو وہ اسی طرح سماجی برائی ہے جیسی صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے یہاں ایسی بہت سی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ اسلام کی نظر میں حلالہ جیسا عمل لعنت کا مستحق ہے۔ ابوداؤد شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت ہے۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 2076) قرآن کریم میں دراصل اس ضمن میں ایک استثنائی صورت کو بیان کیا گیا ہے۔ اگر کسی خاتون کو تین طلاق ہو گئی ہے تو وہ اب اپنے اسی طلاق دینے والے شوہر کے ساتھ نیا نکاح نہیں کر سکتی ہے۔ ہاں دوسری جگہ اس کا نکاح ہو سکتا ہے، اور دوسرا نکاح بھی کسی وجہ سے ختم ہوجائے تو اب وہ اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ گویا تین طلاق کے بعد اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کی یہ ایک امکانی صورت ہے۔ تو پھر اس کا تعلق اس بدترین عمل سے کیسے ہوسکتا ہے جو سنجیدہ نکاح نہیں بلکہ جنس وزر کا منصوبہ بند کھیل ہو۔
جہاں تک طلاق احسن کا معاملہ ہے، تو یہ طلاق دینے کا ایک سنجیدہ اور معقول طریقہ ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اگر صلح صفائی کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں اور وہ دونوں فریق علیحدگی ہی کو اپنے لیے بہتر سمجھنے لگ جائیں تو ایسی صورت میں شوہر، بیوی کی پاکی کے دنوں کا انتظار کرے اور پاکی کے دنوں میں شوہر صرف ایک طلاق رجعی دے۔ اس طلاق کے بعد میاں بیوی ایک ہی چھت کے نیچے رہیں گے اور تین ماہ کی عدت کے گزرنے کا انتظار کریں گے۔ اس دوران دونوں کو اپنے فیصلہ پر نہ صرف ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنے کا موقع ملے گا، بلکہ ایک چھت کے نیچے ہونے کی وجہ سے اس بات کا بھی نفسیاتی طور پر قوی موقع ہوگا کہ زبانی یا کسی ازدواجی نوعیت کے ذریعہ دونوں طلاق سے رجوع کر لیں۔ عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ طلاق جو رجعی تھی، اب بائن ہو جائے گی، یعنی اب رجوع کرنے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور دونوں علیحدہ ہوجائیں گے، لیکن چونکہ یہاں ایک طلاق رجعی ہی دی گئی ہے اس لیے عدت کی مدت گزرنے پر یہ طلاق بائن ہوجانے کے بعد بھی ان دونوں کو از سر نو نکاح کر کے نئی زندگی کے آغاز کا موقع باقی رہے گا اور نئے نکاح کے بعد دو طلاق کے اختیارات باقی رہیں گے۔ یہ طلاق احسن ہے۔
اس کے بعد طلاق کی دوسری قسم طلاق حسن ہوتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان نا اتفاقی، صلح صفائی کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی اس مرحلہ کو پہنچ جائے کہ وہ دونوں علیحدگی کو اپنے لیے بہتر سمجھنے لگیں تو ایسے موقع پر عورت کی پاکی کے دنوں میں شوہر ایک طلاق رجعی دے۔ اس طلاق کے بعد دونوں میاں بیوی ایک ہی چھت کے نیچے رہیں گے، بہت ممکن ہے کہ دونوں اپنے فیصلے پر شرمندہ ہوں اور ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنے پر آمادہ ہو جائیں تو شوہر کا زبان سے رجوع کر لینا یا دونوں کا ازدواجی طور پر ساتھ رہنے لگ جانا کافی ہوگا اور بغیر کسی مزید عمل کے وہ دونوں میاں بیوی ہوجائیں گے۔ لیکن اگر اگلی ماہواری کے بعد پاکی کے دن آجانے تک وہ دونوں اپنی سابق رائے پر باقی رہتے ہیں تو شوہر دوسری طلاق دے گا۔ اب پھر دونوں ایک ہی چھت کے نیچے رہیں گے اور انہیں اپنی ازدواجی زندگی کے آغاز کا سابق طریقہ پر موقع باقی رہے گا۔ پھر اگلی ماہواری کے بعد پاکی کے دنوں میں وہ اپنے سابق فیصلے اور عمل پر برقرار ہیں تو شوہر اب تیسری اور آخری طلاق دے گا اور اس طرح تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی۔ اس کے بعد بیوی اپنی عدت پوری کرے گی اور دونوں میں دائمی جدائیگی ہوجائے گی۔ یہی طلاق حسن ہے۔ اس میں نہ صرف سنجیدگی سے اور ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ غور کرنے کے لیے ایک لمبا وقفہ مہیا ہوتا ہے بلکہ ایک چھت کے نیچے دونوں کے رہنے سے اس بات کا بھی نفسیاتی طور پر قوی امکان پیدا ہوتا ہے کہ وہ طلاق سے رجوع ہو جائیں۔ طلاق کی یہ صورت طلاق حسن کہلاتی ہے۔ اور دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں نہ صرف سوچ سمجھ کر دونوں کی رضا مندی کے ساتھ طلاق کا فیصلہ لیا جا رہا ہے، بلکہ کم وبیش تین ماہ کی مدت بھی اس طرح گزرتی ہے کہ دونوں ایک ہی جگہ ہوتے ہیں اور طلاق سے با آسانی رجوع کر لینے کا قدم قدم پر موقع مہیا رہتا ہے۔ کیا طلاق دینے کی ان دونوں سے بہتر بھی کوئی صورت ہو سکتی ہے۔
زیر بحث ایک مسئلہ تعدد ازدواج کا بھی ہے۔ ایک سے زائد شادی کو قرآن نے سماج کے گمبھیر مسئلہ کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسلامی شریعت نے گھر کی تمام تر مالی ذمہ داری اور خاتون اور بچوں کی کفالت صرف مرد پر رکھی ہے۔ چاہے عورت کتنی ہی مالدار ہو، یہ ذمہ داری قانوناً مرد ہی پر ہوتی ہے۔ بیوی کے لیے علیحدہ رہائش کی فراہمی بھی مرد کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام نے جنسی بے راہ روی پر سخت روک لگائی ہے۔ زنا کو سماج کا سنگین جرم اور اس کی آمدنی کو حرام بنایا ہے۔ سماج کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ کوئی مرد یا عورت بے شادی شدہ نہ رہے۔ نوجوان مرد وعورت ہی نہیں بلکہ طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین و مرد بھی شادی کے بندھن سے جڑ جائیں۔ اس تصور کی عملی صورت گری کو معقول طریقہ پر پیش کرتے ہوئے قرآن نے کہا ’اگر تم عدل اور انصاف کر سکتے ہو اور تمہارے اندر مالی اور جسمانی استطاعت ہے تو ایک سے زائد خواتین کے قانونی ذمہ دار بن سکتے ہو، اور یہ اجازت بھی چار تک ہی محدود رہے گی، اور اگر ایسی مالی اور جسمانی حیثیت نہیں ہے تو پھر ایک نکاح پر ہی اکتفاء کرو۔‘ اسلام میں ازدواجی ناانصافی پر سخت ترین وعید بھی سنائی گئی ہے۔ یہی ہے تعدد ازدواج۔ اور چونکہ یہ مزید ذمہ داریوں کا اٹھانا ہے اس لیے مسلم سماج میں بالخصوص موجودہ وقت میں ایک سے زائد نکاح کی مثالیں بہت ہی کمیاب بلکہ ہمارے ملک میں نایاب کہی جا سکتی ہیں۔ تعدد ازدواج کی یہ روح ہمیں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیؐ کے نکاحوں کے اندر ملتی ہے کہ آپ نے 54 سال کی عمر کے بعد ان بیوہ اور مطلقہ خواتین سے نکاح فرمایا جن کی ذمہ داریوں کو اٹھانا آپ نے ضروری سمجھا، اور جہاں سے ازدواجی روابط کے بڑے انسانی اور سماجی مصالح تھے۔ آج بھی اگر سماج کو جنسی پاکیزگی سے آراستہ رکھنا ہے اور بے شادی شدہ کمزور خواتین کو صرف سامان تفریح نہیں بلکہ بیوی کے قانونی مقام اور اعلیٰ حیثیت پر لانا ہے جہاں انھیں نہ صرف شوہر کی جائیداد میں حصہ ملے بلکہ اس کی اور اس کے بچوں کی ہر طرح کی کفالت ہو، اور عزت وسکون کی زندگی وہ گزار سکیں، تو اس کے لیے اسلام کے اس معقول تعدد ازدواج سے بہتر کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ تعدد ازدواج مردوں کے لیے ایک ذمہ داری اور خواتین کے لیے حقیقی معنوں میں اعزاز ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleمارگریتھ بن گئیں یوروپ میں سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والی ملکہ
Next articleیوپی: اردو والوں کیلئے اچھی خبر
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh