مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی
مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوہ کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل کام ہے کیونکہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے ۔ صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صبر ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور اللہ تعالی کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقوی کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا۔
صبر کی اہمیت و افادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ہاں اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔ آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالی کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقینا انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔
گویا گھرکے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک عام آفس بوائے سے لے کر اس ادارے کے سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کامیاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے۔
اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والے سبھی شرکا تجربہ کار اور دوڑ کے اہل ہوتے ہیں، ہر ایک کو دوڑتے ہوئے کم یا زیادہ مگر تکلیف ضرور ہوتی ہے مگر جیتتا صرف وہی ہے جو آخر تک صبر سے کام لیتا ہے۔
امرء القیس کا صبر:دورِ جاہلیت کے مشہور شاعر اور قبیلے کے سردار امرء القیس سے کسی دوسرے قبیلے کے سردار نے پوچھا کہ آپ کا قبیلہ آپ کی بڑی عزت و قدر کرتا ہے جب کہ وہ سب کچھ میں بھی کرتا ہوں جو تم کرتے ہو تو پھر تم میں ایسی کون سی بات ہے جو مجھ میں نہیں؟ امرء القیس نے جواب دیا کہ میں مشکلات برداشت کرتا ہوں اور انہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا جب کہ تم ایسا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امرء القیس کا نام آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بلکہ امورِ اطاعت و فرمانبرداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے عذاب پر صبر کرنے سے اس کی اطاعت پر صبر کرنا زیادہ آسان ہے۔ آج صبر کی اس اہمیت اور اس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اس معاشرے کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔
صبر: قرآن پاک کی روشنی میں :صبر کرنے والے کو اللہ تعالی کی معیت نصیب ہوتی ہے۔اللہ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے)مدد چاہا کرو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا)ہے۔(سورۃالبقرہ ، 2/ 153)
آزمائش پر صبر اللہ تعالی کی بشارت کا ذریعہ ہے۔دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو اللہ تعالی کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوشخبری اللہ خود دیتا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے :اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال)ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔(سورۃ البقرہ)
سورہ رعد کی آیت نمبر 122 میں رب کی رضا جوئی کے لئے صبر کرنے والوں کو آخرت میں حسین گھر کی خوشخبری دی گئی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے :اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی)بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک وہ آخرت میں (بھی)صالحین میں سے ہوں گے۔صبر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا خاصہ رہا ہے۔ سورہ الانبیا کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرمایا: اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل کو بھی یاد فرمائیں، یہ سب صابر لوگ تھے۔ اللہ تعالی نے سچے پرہیزگاروں اور شدائد و آفات میں صبر کرنے والوں پر صبر کی شرط لگائی اور صبر کے ذریعہ ہی ان کی صداقت و تقوی کو ثابت کیا۔
صبر: احادیث مبارکہ کی روشنی میں:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں صبر کی اہمیت و فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ!لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیا ء کرام کی، پھر درجہ بدرجہ اللہ تعالی کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (یعنی ایمانی حالت)کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کمزور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتی کہ(مصائب پرصبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا۔