بچوں کو نظم وضبط کا عادی بنانے کےعملی طریقے

0

خان مبشرہ فردوس
نظم و ضبط کی تعریف عموما یوں کی جاتی ہے: ’’اصول و ضوابط کے مطابق زندگی گزارنا،مخصوص اصول و ضوابط کی خود پابندی کرنا اور دوسروں کو پابندی کروانے کا نام ڈسپلن ہے۔ ‘اور سیلف ڈسپلن ، نظم و ضبط بنیادی طور پر مستقبل کی ترقی کے لیے رویے کو معتدل رکھنے کا نام ہے جو انہیں تاعمر آموزشی عمل سے گزرنے میں مستعد رکھتا ہے ۔نظم و ضبط کے عمومی معنی پابندی کے لیے جاتے ہیں، لیکن یہاں مراد سماج میں متوقع اور ناقابل قبول امور و معاملات سے آگاہی اور سماج کے معمول ( Social Norms)کا سلیقہ سیکھنا ہے ۔ڈسپلن کے نام پر نہ ہم بچوں کو سماج میں تقلیدی رول ادا کرنے والا بنائیں ،نہ ہی سماج میں آزادانہ زندگی وہ تصور رکھیں جو مغربی دنیا کا مادر پدر آزاد معاشرہ روا رکھتا ہے ۔نظم وضبط ان کے لیے زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہونا چاہیے ۔
زندگی کو انسانیت کی سچی بہی خواہی کے لیے وقف کرنے اور مقصدِ زندگی کو سمجھنے کے لیے. بچوں کونظم وضبط کا پابند بنایا جائے، انہیں اللہ کے حدود کی پابندی سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے طریقےکو سمجھنے میں والدین کیسے مدد گار ہوسکتے ہیں ۔بچوں کو ہم ہر عمل سے پہلے قائل کریں کہ وہ یہ کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں ۔ پڑھنا ہو یا ، دعا یاد کروانا ہو ، ادب آداب سکھانا ہو ،یا ہم موبائل کے استعمال کرنے پر انہیں پابند کرنا چاہتے ہوں ہر متوقع کام کروانے کے لیے ہم انہیں سیکھنے پر آمادہ کریں آمادگی کے لیے انہیںمنطقی انداز سے لاجیکلی قائل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ جبراًکسی کام کو کروا نے کی پالیسی کو ہم یکسر بدل دیں ۔ اس سلسلے میں جبر کا طریقہ درست ہے نہ ہی تقابل کا۔ اکثر والدین دوسرے بچوں سے تقابل کرتے ہوئے ترغیب دینا چاہتے ہیں ۔تقابل کے طریقے کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جبر کی دین میں ممانعت اسی وجہ سے ہے کہ انسانی طبیعت پر زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتا ۔ذیل میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی عملی تکنیک پیش کی جارہی ہے ۔
تربیت کا عملی فطری طریقہ :عملی طریقے کو ہم ماڈلنگ کہہ سکتے ہیں۔ بچہ اپنے ماحول اور والدین نیز دیگر افراد کے مشاہدے سے بہت کچھ سیکھتا ہے ۔والدین اپنے بچے کے سب بڑے استاد ہیں ۔ بچے سے والدین توقع کرتے ہیں کہ وہ ہر کام کو منظم طریقے سے انجام دے ۔بچے کو ادب و آداب کا سلیقہ آئے ۔جب بچہ گھر کے بڑوں منظم دیکھتا ہے تو اسے بھی عمل کرنا آسان لگتا ہے۔ عملاً اپنانے کے لیے زیادہ مشقت پیش نہیں آتی ہے ۔جب والد کو اپنے بزرگوں کے ساتھ ،اپنی اہلیہ کے ساتھ، اپنے بچوں کے ساتھ احترام سے پیش آتے دیکھتا ہے ،اسے خود بھی آسانی سے اپنالیتا ہے ۔محمدؐ کی سیرت سے ہمیں تربیت کا عملی انداز ہی ملتا ہے۔بچوں کے ساتھ محبت کا اظہار ہو یا بچوں کا احترام ۔
بچوں میں سیلف کنٹرول کیسے پیدا کریں:سیلف کنٹرول آسان کام نہیں، اکثر بڑوں میں بھی ہم سیلف کنٹرول کی کمی پاتے ہیں۔ مثلا ًبڑے باشعور افراد جانتے ہیں کہ سگریٹ پینا،بے حیائی کے قریب جانا،غصہ پر قابو پانا،صحت کے اصول پر پابند رہنا ،کسی ضرورت مند کی مدد کرنا،قرابت داروں کے حقوق ادا کرنا یا بچوں کی تربیت کے لیے خود بدلنا ناگزیر ہے، اس کے باوجود سیلف کنٹرول کی کمی افراد کو بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ اپنے معمول کو جانتے ہوئے بھی تبدیل نہیں کرپاتے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں میں سیلف کنٹرول پیدا کریں تو ہمیں ان تدابیر کو اپنا کر بچوں میں سیلف ڈسپلن پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے Duckworth Et Al ڈک ورتھ ایٹ ایل نے 2016 ءمیں اپنے ریسرچ آرٹیکل Situational Strategies for Self-Control””میں اپنی تحقیق پیش کی ہے کہ ’سیلف کنٹرول کے لیے سب سے اہم ہے کہ جس چیز کو آپ اصول کے خلاف سمجھتے ہیں اس سے دوری بنالیں ۔‘ بچہ آپ سے آلو چپس اور اسٹریٹ فوڈ کے لیے ضد کررہا ہو تو اسے گھر کا بنا ہوا پکوڑا کھانے یا گھر کا بنا سینڈوچ کھانے پر اکسائیں، اوراسکی گھر میں تیاری تک ا سے صبر کرنے دیں۔ہر خواہش بچے کی بہت توجہ سے سنیں لیکن والدین فوراً سے پیشتر تکمیل کے بجائے انہیں صبر کرنے کے بعد ہی ان تک پہنچائیں اس طرح مستقل ہر معاملے میں صبر کی عادت ان میں سیلف ڈسپلن پیدا کرے گی ۔سمجھنے کی آسانی کے لیے ہم ذیل میں کچھ اور مثالیں پیش کریں گے اکثر والدین بچے کے مسلسل مطالبات سے پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے فوراً سے پیشتر بچے کی خواہش کی تکمیل کو لازم سمجھتے ہیں، جبکہ بچوں کے مطالبات پر فوراً انکار یا اقرار کا ردعمل ان کے سیلف کنٹرول کو متاثر کرتا ہے ۔5سے 7 سال کی عمر کے بچوں کے مطالبات کو بغور سن لینے کے بعد آپ ان دوستانہ مشاورت کریں ۔کیا یہ چیز آپ کے لیے لازم ہے ؟اس مطالبے کامقصد کیا ہے ؟کیا اس کے علاوہ کوئی اور اسمارٹ آئیڈیاہے جس کے بغیر ممکن ہو ؟اب آپ فیصلہ کریں کہ وہ مطالبہ بچے کی صحت یا تربیت کے لیے کیساہے اگر وہ بچے کے حق میں کارآمد ہے تو صبر کی عادت پیداکرنے کی غرض سے کچھ تاخیر سے بچے کا مطالبہ پورا کریں، اس طرح صبر کی عادت،اپنے فیصلے سے پہلے مشاورت کی عادت پیدا ہوگی،چیز مل جانے کے بعد شکر کی عادت پیدا ہو گی ۔
نقصاندہ فرمائشوں پر کنٹرول :جیسے چھوٹی عمر میں موبائل کا مطالبہ،یا مستقل ہوٹلنگ کا مطالبہ یا غیر ضروری اشیاء کے خریدنے کی عادت جیسے مطالبات ہوں، توجہ کے بدلنے کی تکنیک کارگر ہوسکتی ہے ۔جیسے آپ شاپنگ مال میں کھلونے اورمٹھائیوں،واٹر بوتل اور ٹفن کی گیلری کو بدل کر کچن کے سامان کی طرف بہت اسمارٹ طریقے سے کنی کاٹ لیتے ہیں، اس اسمارٹ طریقے سے کہ بچہ بھول کر کتابوں اور چارٹس پینسل کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔اسے ڈک ورتھ ایٹ ایل نے Process Model of Self Control کا نام دیا ہے۔
جائز فرمائش میں انتخاب کی آزادی :بچے کی فرمائش سننے کے بعد والدین ان کو فوراً پورا کرنے کے بجائے تیسری تکنیک کے طور پر چیزوں میں آپشن دیں اور انتخاب کا طریقہ سکھائیں ۔آپ نے مارش میلو ٹیسٹ سے متعلق سناہے ۔مارش میلو ٹیسٹ میں بچوں کے سامنے چاکلیٹ دو فیلور اور مختلف مزے کے طور پر رکھے جاتے ہیں اور انتخاب کی آزادی دی گئی، اور انتخاب کے بعد بھی ہدایت ملنے کے بعد ہی چاکلیٹ کھولنے کی تلقین کی گئی ۔جن بچوںکو صبر اور انتخاب کا ماحول گھر میں پایا تھا اور وہ ڈسپلن کے عادی تھے، انہوں انتخاب بھی کیا اور انتظار بھی کیا Celeste Kidd سلیسٹ کڈ نے مشاہدہ کیا کہ انتخاب اور انتظار کے عادی بچوں نے بڑے ہونے کے بعد زندگی کے مشکل ترین مراحل کو آسانی سے حل کیا ۔ دراصل ہدایت پر عمل آوری کا تعلق فرمانبرداری سے ہے۔بچوں میں فرمانبرداری نہ ہونے کی اکثر والدین کو کاؤنسلنگ کے دوران شکایت رہتی ہے ۔والدین تربیت کی شعوری کوشش میں بچے کے سامنے وعدہ خلاف،سنجیدہ سامع ثابت نہ ہوں تو بچوں کی نظر میں والدین بےاعتبار ٹھہرتے ہیں اور وہ نافرمانی کرنے لگتے ہیں ۔
بہتر نظم ضبط کے لیے کام کی بروقت یاددہانی :بچے کو نظم و ضبط کا عادی بنانے کے لیے ان کے مدد گار بنیں، انہیں وقت پر ان کے کاموں کی یاددہانی کروائیں ۔آپ نے انہیں ٹائم ٹیبل بناکر دیا ہے، نماز کا چارٹ بھی بنادیا کہ آپ نماز کی ادائیگی کے بعد ٹک کرلیں، لیکن اتنا کافی نہیں ہے ۔بچے کا ذہن بڑوں سے مختلف ہے اس کے باوجود یاددہانی کے لیے اللہ تعالی نے اذان کو لازم کیا ہے ،کیونکہ فطرتاً انسان اپنے کام میں انہماک بنانے کے بعد کام کی تکمیل کو ترجیح دیتا ہے۔ کام چھوڑ کر نماز کو دوڑنا اس کے لیے گراں ہے تاہم اسے قرآن میں بارہا تاکید کی اور یاددہانی کے لیےاذان کا سسٹم موجود ہے ۔اسی طرح بڑوں میں تذکیر کے ذریعہ احکامات کی یاددہانی کار گر ہوتی ہے ۔بچوں کے لیے بھی بروقت یاددہانی ناگزیر ہے ۔مطلب والدین کہ سوال نہ پوچھیں کہ نماز قضا کیوں ہوئی نماز کیوں نہیں پڑھی؟نماز کے وقت پر دوستانہ انداز میں بروقت کہیں چلو نماز پڑھ لیتے ہیں ۔یا ہوم ورک کیوں نہیں کیا؟
اس طرح کے سوالات بچے کو مجرم ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس طرح کے استفسار میں جھوٹ بولنے کی گنجائش اس کا دماغ نکال سکتا ہے کہ ہاں پڑھ لیا ۔مثلاً ایک بچے کی والدہ نے بچے سے نماز کی تصدیق کے لیے اس کے گیلے آستین چیک کیا اور مطمئن ہوگئیں ۔بچے نے عادت بنالی کہ جب بھی اس سے سوال کیا جاتا وہ اپنی وضو کی گیلی آستین چیک کرواکر ماں کے چہرے کے اطمینان سے سکون پاتا ۔بچے کا میکانزم والدین کو خوش دیکھ کر سکون پاتا ہے ۔ایک مرتبہ جاڑے کے موسم میں فجر کی نماز میں بچے کے والد نے دیکھا ،بچہ تاخیر سے نماز کے لیے آیا، وضو گاہ میں بچہ صرف آستین گیلی کرنے لگا، اس نے وضو سردی کی شدت کے باعث نہیں کیا ،بعد ازاں آخری صف میںآخری رکعت کا سلام پھیر کر رخصت ہوگیا ۔ماجرا کیا ہے؟ والد صاحب نے بچے کو دیکھا ،وہ اپنی والدہ کو بطور تصدیق آستین کا گیلا پن چیک کروارہا تھا ۔اس لیے تربیت کے اصول اور یاددہانی کے لیے کیے جانے والے سوالات بچے کو جرم پر اکسانے والے یا مشکوک بنانے والے یا اعتماد کو کمزور کرنے والے نہ ہوں ۔
مذکورہ بالا سوالات کے بجائے دوستانہ لہجے میں کہیں چلیں مل کر نماز پڑھ لیتے ہیں یا آپ مسجد سے نمازادا کرکے آجائیں تب تک میں بھی ادا کرلوں ،اور بچے پر اعتماد کریں۔گاہے بہ گاہے اس کا اظہار بھی ہو کہ میرا بچہ جھوٹ نہیں کہتا ،وہ محسوس کریں کہ آپ سب سے زیادہ اس پر بھروسہ کرتی ہیں ۔اسی طرح دیگر امور میں یہ کہنے بجائے کہ ہوم ورک کیوں نہیں کیا ؟ آپ کہیں اب ہوم ورک کرلیتے ہیں ۔آپ اپنا ہوم ورک کریں ہم اپنا کام کررہے ہیں ۔ اس طرح کے جملے دوستانہ جملوں کے اثرات کام کا بوجھ نہیں بناتے، بلکہ کام میں بچے کے مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔یاددہانی بروقت ہوتو بچے بہت سہل انداز میں عادی بنتے جاتے ہیں ۔تربیت کو بوجھ بناکر انجام دینے سے ہوتی نہیں صرف بوجھ بناتی ہے ۔بروقت کام یا یاددہانی بروقت ہوتو بچے بہت سہل انداز میں عادی بنتے جاتے ہیں ۔تربیت کو بوجھ بناکر انجام دینے سے ہوتی نہیں، صرف بوجھ بناتی ہے ۔ بروقت کام یاددہانی اور انجام دہی نظم و ضبط کا عادی بناتی ہے۔
احساس ذمہ داری پیدا کرنا :بچے کو جو والدین یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ اس سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں،یہ یقین بچے کو ہو کہ والدین اسے مکمل آزادی دیتے ہیں، لیکن مشورے کی تلقین کرتے ہیں۔بچے کو آپ بچہ نہیںسمجھتے، بالکل اس پر مکمل اعتماد کرتے ہوں ۔کسی قسم کا خوف والدین اسے نہیں دلاتے ۔بہت بڑے نقصان پر بھی آپ کاردعمل انا للہ پڑھ کر مطمئن رہنے والا ہے ۔
توجہ کوتبدیل کرنا ایک مہارت ہے :بچہ جس چیز کے لیے ضد کررہا ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے آپ دوسرے کھیل یا کسی کھلونے کی طرف اس کی توجہ بٹادیں یا اس سے سوالات پوچھیں اسے سامنے بٹھاکر پوری توجہ اس پر مرکوز کردیں اور اس کی توجہ بانٹ دیں ۔بچے کی توجہ کسی اہم کام کی جانب مرکوز کرنا اور توجہ بٹانا دونا کام بہت اہم ہیں، جو پوری مہارت کے ساتھ انجام دینے ہوتے ہیں ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS