ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
یومِ اساتذہ ہرسال ۵؍ستمبر کو منایاجاتاہے۔ہندی میں استاد کو ’گورو‘کہاجاتاہے۔’گو‘ کے معنی تاریکی اور ’رو‘ کے معنی روشنی کے ہوتے ہیں۔اس طورپر استاد وہ ہوتاہے جوتاریکی سے روشنی کی طرف لے جاتاہے۔
استاد شاگرد کے تعلقات والدین اور بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔اس والد کی طرح جواپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے محبت کرتاہے، اسی طرح استاد کو اپنے شاگردوں سے محبت کرنی چاہیے۔چنانچہ اساتذہ پر ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔بڑی حدتک طلبہ کے مستقبل کا انحصار ان کے اتالیقوں اور معلمین پر ہوتاہے۔یہ استاد ہی ہوتاہے جو طلبہ میں میلانِ طبع اور آرزو پیداکرتاہے، انہیں اچھے اعمال کرنے کی ترغیب دیتاہے اور افعالِ شیطانی سے باز رکھتاہے۔ہر مذہب میں استاد کو ایک بلند پائے پر رکھاجاتاہے۔اسلام میں بھی ایسا ہی ہے۔اسلام ان کو بڑی اہمیت دیتاہے۔ نبی کریم محمدؐ کا ارشاد ہے:’مجھے بطورایک استاد کے بھیجاگیاہے‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا:’مجھے عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہے‘۔
سنت کبیر کے الفاظ میں:’اگر پوری روئے زمین قلم میں بدل جائے پھر بھی وہ ایک حقیقی استاد کی عظمت بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگی‘۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آج اس شریفانہ پیشے نے اپنی عظمت کھودی ہے۔اساتذہ نے تقریبًا اپنی عزت ووقار خود کوغیرپاکیزہ اور بیہودہ سرگرمیوں میں ملوث کرکے کھودی ہے۔ان کے کچھ مجرمانہ اور بے حسی کے واقعات کی وجہ سے لوگوں کو استاد شاگرد کے تعلقات پر بھروسہ نہیں رہا۔
ہم سولہ سالہ لڑکی کا واقعہ یادکرسکتے ہیں جس میںدہلی کے ایک سرکاری اسکول میں پرنسپل اور اس کے رفقاء نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کیاتھا۔ایسے واقعات ہمارے روزناموں کا مستقل موضوع ہیں۔علاوہ ازیں ان کے سزادینے کے غیر انسانی واقعات بھی بالکل عام ہیں۔
ایک اخبار کی اطلاعات کے مطابق، ککریا پرائمری اسکول ، فرخ آباد، یوپی کا طالب علم برجیش پرجاپتی درجے میں بات کرتاہواپایاگیا۔اس بات پر اس کا استاد اتنا ناراض ہوگیا کہ اس نے اس کو اتنا مارا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔اودے پور میں بارہویں کلاس کا ایک طالب علم ارپت کواڈیاکو اس کے استادنے اتنی بار مارا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔اس کی وجہ صرف یہ تھی اس کا پیر ڈیسک کے بارنکلاہواتھا۔اسی سے استاد بیزار ہوگیا۔بروی پور میں ہایئر سکنڈری اسکول کے آٹھویں درجے کے طالب علم پرساد نسکر کو اس کے ہیڈماسٹر نے بے رحمی سے پیٹاکیونکہ وہ اسکول یونیفارم میں نہیں تھا۔ہیڈماسٹر نے لڑکے کو تبھی چھوڑاجب وہ بے ہوش ہوگیا۔
بلاشبہ، اخلاقیات کی کمی اور مناسب تربیت کے فقدان کی وجہ سے ایسے سنگین جرائم اور رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات روز کی بات بن چکے ہیں۔
وقت آگیاہے کہ اساتذہ اپنے اندراچھے اوصاف اور بلند اصول پیداکریںاور خود کو حقیقی ’گرو‘ کے طورپر تیار کریں تبھی ’یوم اساتذہ‘ کا منانا مناسب اور معنی خیز ہوگا۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی مختصر حالات زندگی بیان کی جائے جن کے یومِ پیدائش پر یومِ اساتذہ منایاجاتاہے۔وہ ۵؍ستمبر۱۸۸۸ء کو تمل ناڈو کے ایک گاؤں ٹروٹنی میں پیداہوئے۔انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم تروپتی مشن اسکول اور بیلر کالج ، بیلر میں مکمل کی۔انہوں نے بی۔اے اور ایم۔ اے کرسچین کالج مدارس( چنئی) سے کیا۔ ۱۹۰۹ء میں انہیں مدراس کے پریسیڈنسی کالج میں فلسفے کا استاد مقرر کیاگیا۔بعد میں انہوں نے بطور پروفیسر فلسفہ میسور اور کلکتہ کی یونیورسٹیوں میں خدمت انجام دی۔وہ آندھر یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے عہدہ وائس چانسلر پر سرفراز ہوئے۔یہ ذکر کرنا اہم ہے کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی پڑھایا اور سوویت روس میں ہندوستانی سفیر کے طور پر بھی خدمت انجام دی۔وہ یونیسکو کی مجلس عاملہ کے ۴۹-۱۹۴۸ء کے درمیان صدر بھی رہے۔وہ ۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۲ء کے بیچ ہندوستان کے نائب صدر جمہوریہ رہے ، اور ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۷ء تک صدر جمہوریۂ ہندرہے۔ان کی مدتِ صدارت میں ۱۹۶۲ء کی ہندوچین جنگ اور ۱۹۶۵ء کی ہندوپاک جنگ ہوئی اور فتح حاصل ہوئی۔
وہ ایک عالمی شہرت یافتہ مقرر بھی تھے۔سامعین ان کی بصیرت شعار تقریروں سے مبہوت ہوجایاکرتے تھے۔فن خطابت میں اپنی غیر معمولی فصاحت اور سلاست کی وجہ سے بسااوقات انہیں ہندوبیرونِ ہندتقریر کی دعوت دی جاتی تھی۔
وہ ایک معروف استاد تھے۔اپنے بے نظیر طریقِ تعلیم کی وجہ سے وہ اپنے طلبہ کے درمیان بڑے مقبول تھے۔اپنے تمامتر کمالات اور لاتعداد خدمات کے باوجود وہ پوری زندگی ایک استاد ہی رہے۔وہ اشاعتِ تعلیم کے لیے اپنے طلبہ کر تیار کرنے کے لیے ان پر خاص توجہ دیتے تھے۔انہوں نے اپنے پیچھے اعلیٰ نقوش چھوڑے۔ کہا جاتا ہے: ’استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن وہ بادشاہ گر ہوتاہے‘۔انہوں نے بالکل درست فرمایاتھا کہ:’ملک میں اساتذہ بہترین ذہن ودماغ کے حاملین کو ہوناچاہیے‘۔
قوم کے تئیں ان کی غیر معمولی خدمات کے لیے انہیں ہندوستان کا سب سے بڑا شہری ایواڑ بھارت رتن ۱۹۵۴ئء میں دیاگیا۔۱۶؍اپریل ۱۹۷۵ء کو ان کا انتقال ہوا۔
’استاد بادشاہ نہیں ہوتا ‘لیکن وہ بادشاہ گر ہوتاہے‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS