ہر ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چنوتیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھے، خود کو اقتصادی طو پر مستحکم سے مستحکم تر بنائے، اس کی اقتصادی ترقی دیگر ملکوں کے لیے حیران کن ہو۔ اپنے ملک بھارت کی بات کریں تو وہ قومی اور بین الاقوامی چنوتیوں کا سامنا کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، اس نے خود کو اقتصادی طور پر مستحکم سے مستحکم تر بنایا ہے، اس کی اقتصادی ترقی دیگر ملکوں کے لیے باعث حیرت ہے، کیونکہ وہ برطانیہ جس کا کبھی بھارت پر قبضہ تھا، اسے پیچھے چھوڑتے ہوئے وہ دنیا کی پانچویں بڑی طاقت بن گیا ہے اور امید یہی کی جاتی ہے کہ اس کی اقتصادی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ’ورلڈومیٹر‘ کے مطابق، اقتصادی طور پر برطانیہ چھٹے نمبر پر ہے اور عالمی اقتصادیات میں اس کا حصہ 3.26 فیصد ہے جبکہ بھارت کا حصہ 3.28 فیصد ہے۔ اقتصادی محاذ پر امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی ہی بھارت سے آگے ہیں۔ اقتصادی طور پر امریکہ پہلے، چین دوسرے، جاپان تیسرے، جرمنی چوتھے نمبر پر ہیں۔ عالمی اقتصادیات میں امریکہ کا حصہ 24.08 فیصد، چین کا 15.12 فیصد، جاپان کا 6.02 فیصد اور جرمنی کا 4.56 فیصد ہے۔ مساوی قوت خرید کے لحاظ سے تو بھارت امریکہ اورچین کے بعد تیسرے نمبرپر ہے۔ بھارت کے بعد جاپان ہے مگر وہ اس معاملے میں اس سے بہت پیچھے ہے۔ مساوی قوت خرید میں اچھی پوزیشن ہونے کی وجہ سے بھی بھارت دنیا بھر کے ملکوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسے اس پوزیشن کو برقرار رکھنا ہوگا بلکہ مساوی قوت خرید میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ اس کی اہمیت میں اور اضافہ ہو، سرمایہ کاروں کی دلچسپی اس سے بڑھے، سرمایہ کاری میں اضافہ ہو مگر مساوی قوت خرید میں اضافہ کرنااور اقتصادی شرح نمو کو برقرار رکھنا کسی چنوتی سے کم نہیں ہوگا، کیونکہ کورونا وائرس نے عالمی اقتصادیات پر اثرات مرتب کیے ہیں، یہ وائرس کئی ملکوں کو اقتصادی طور پرخستہ بنانے کی وجہ بنا ہے تو یوکرین جنگ نے بھی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ یوکرین یا روس کی کوئی بھول کہیں جنگ کا دائرہ وسیع نہ کر دے اوریوروپ کے بڑے حصے تک نہ جنگ پھیل جائے، خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ ایسی صورت میں تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔ دوسری طرف امریکہ کی چین سے چپقلش، تائیوان سے اس کی بڑھتی قربت اور چین کی تائیوان کو قبضے میں لے لینے کی چاہت نے بھی عالمی امن کو خدشات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چین اگر تائیوان کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے اور امریکہ اس کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو یہ جنگ کافی مہلک ہوگی۔ اس کا نہایت ہی برا اثر عالمی اقتصادیات پر پڑے گا، کیونکہ جنگ کی صورت میں چین جنوبی بحیرۂ چین کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینا چاہے گا اور اس کا تباہ کن اثر عالمی تجارت پر پڑے گا، اس لیے کہ جنوبی بحیرۂ چین کے راستے ہی دنیا کی آبی راستوں سے ہونے والی ایک چوتھائی تجارت ہوتی ہے۔ ان حالات کے مدنظر بھارت کو اپنی اقتصادی شرح نمو کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ’ووکل فار لوکل‘ پر زیادہ توجہ دینی ہوگی، امپورٹ کم کرنا ہوگا اور ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔
مالی سال 2021-22 میں بھارت کا ایکسپورٹ 421.894 ارب ڈالر اور امپورٹ 612.608 ارب ڈالر تھا۔ بھارت کا امپورٹ جتنا زیادہ ہوگا، ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر گرنے کا اتنا ہی زیادہ بوجھ اس کی اقتصادیات پر پڑے گا، زرمبادلہ کم ہوگا اور ادھر کے کچھ مہینوں میں یہ یو ں بھی خاصا کم ہوا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق، 26 اگست کو پورے ہونے والے ہفتے میں بھی اس میں 3 ارب ڈالر کی کمی آئی ہے اور اب بھارت کے پاس 561.046 ارب ڈالر کا زرمبادلہ ہے یعنی اپریل سے اب تک بھارت کا زرمبادلہ 45 ارب ڈالر کم ہو چکا ہے۔ زرمبادلہ بڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ امپورٹ کم کیا جائے اور ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جائے، ایکسپورٹ میں اضافے کے لیے پروڈکشن بڑھانا ضروری ہے اور اس کے لیے مہنگائی پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، کیونکہ ڈیمانڈ میں اضافہ نہیں ہوگا تو پروڈکشن میں بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ مطلب یہ کہ اقتصادی محاذ پر بھارت کا برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دینا بڑی بات ضرور ہے مگر اس کے لیے شرح نمو کی رفتار کو برقرار رکھنا اور اپنی اقتصادیات کے حجم کو وسعت دیتے رہنا کسی چنوتی سے کم نہیں ہوگا مگر توقع یہی ہے کہ مودی حکومت ہر چنوتی سے کامیابی سے نمٹے گی۔
[email protected]
بھارت کی ایک بڑی کامیابی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS