محمودعباس اپنے ہی جال میں پھنسا صیاد

0

مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی نام نہاد جمہوری طریقہ سے چنی ہوئی حکومت کب تک ہے اورایک آزاد یامختارعلاقہ کس حد تک جمہوری نظام برقرار رکھ پائے گا ایک دلچسپ سوال ہے جو فلسطینی کاز سے دلچسپی رکھنے والے مسلمانوں اور سنجیدہ طبقات کو کریدتا رہتا ہے۔ 2006میں انتخابات کے بعد مغربی کنارے میں یاسرعرفات کی ’الفتح‘ پارٹی الیکشن جیت گئی تھی اور اس وقت یاسرعرفات کو اس اتھارٹی کا صدر چن لیاگیا تھا۔ اس صدر مملکت کے عہدے پر الیکشن صرف چارسال کی مدت کے لیے ہوا تھا مگر اس کے بعد آج تک نہ تواس عہدے پر چناؤ ہوا ہے اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کے ایک دوسرے خطے جس پر بنیادی طورپر ’حماس‘ کا قبضہ ہے کوئی تبدیلی رونماہوئی ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے اور’الفتح‘ نے اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا ہے جبکہ غزہ کی انتظامی اکائی پر قابض ’حماس‘ نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کررہے ہیں اور اس کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتاہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل غزہ پر6مرتبہ حملہ کرچکا ہے۔ ’الفتح‘ یا مغربی کنارے کے انتظام وانصرام اور وسائل پر قابض سیاسی جماعت نے اگرچہ مسلم جدوجہد آزادی کو بظاہر ترک کردیاہے مگر اس کے فوجی یونٹ مغربی کنارے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے روپ میں کام کررہے ہیں۔
کئی حلقوں میں اس بات پراعتراض ہورہاہے کہ محمودعباس 86سال کے ہوگئے ہیں اور مسلسل بیمار رہتے ہیں اس کے علاوہ وہ اپنے عوام کی آزادی کے لیے نہ تو سفارتی طورپر سرگرم ہیں اور نہ ہی سیاسی طورپر عوام سے رابطے میں ہیں۔وہ اپنے محدود ترین اختیارات اورعہدے سے بری طرح سے لپٹے ہوئے ہیں۔ اکثر ان کی بیماری کی خبریں آتی رہتی ہیں اور ان خبروں کے آنے کے بعد ان کا کوئی فوٹو،ویڈیو یا ٹیلی فون کے ذریعہ ریکارڈ کرایاگیابیان منظرعام پر آجاتاہے اوران بیانات میں وہ اس بات کی تردید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی صحت کو لے کرافواہیں غلط ہیں۔ پچھلے ایک دوماہ سے وہ تھوڑا ساسرگرم بھی دکھائی دیے۔انہوں نے امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کی۔ اس سے قبل وہ اردن کے شاہ سے ملاقات کرنے بھی گئے۔ اردن کے شاہ حسین چاہتے تھے کہ وہ خطے اورعرب دنیا میں اپنی موجودگی،اہمیت اورافادیت پر توجہ مبذول کرائیں مگران کی دال نہیں گلی۔ چندروز پہلے محمودعباس نے جرمنی اورفرانس کا دورہ بھی کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی ممالک سارے انڈے ایک باسکیٹ میں نہ رکھنے کی حکمت عملی پرکارفرما تھے اورفرانس نے اسرائیل فلسطین تنازع پرمصالحانہ رول پر کام کرنا شروع کیاتھا۔ فرانسیسی صدر میکروں اس طرح مسلمانوں میں اپنی امیج نہیں بنانا چاہتے تھے مگرمحمودعباس سے ملاقات کا یہ موقع دونوں کے لیے غنیمت تھا اور دونوں کے اپنے اپنے حلقوں میں امیج بہترتوہوئی مگر بس اس کے آگے کچھ نہیں۔محمودعباس پچھلے دنوں جرمنی بھی گئے بس وہاں ہولوکاسٹ کو لے کر ان کا بیان بحث کا موضوع بنا۔
المیہ یہ ہے کہ محمودعباس ضعیف ہوگئے ہیں، ان کی پولیس اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اسرائیل کی فوج اورحکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ اسرائیل مغربی کنارے میں لگاتار اپنی رہائشی یونٹ بنارہاہے، مجاہدین کے خلاف کارروائیاں کررہاہے اور صدرفلسطین اتھارٹی اپنے جانشین کی تلاش میں سرگرداں ہیں، جو ان کی غیرموجودگی یعنی عہدے سے معزولی کے بعد بھی ان کے مفادات کا خیال رکھے۔ محمودعباس پراقرباپروری کے سنگین الزامات ہیں، وہ بے عمل ہوگئے اوراسرائیل کی جارح پالیسی حماس اوراسلامک جہاد کی سرگرمیوں کے درمیان ان کو اپناوقار بچانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے حالات میں فلسطینی جیسی جانباز قوم مستقبل کا لیڈر محمودعباس ہی کی طرح بے عمل اور بے بس ہوگا یا کوئی سرگرم مجاہد،یہ بہت اہم سوال ہے، جودنیا کے بدترین اورپیچیدہ ترین تنازع کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتاہو۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS