پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کے دفاع میں کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید کے ایک فیس بک پوسٹ کو میں نے بہت غور سے پڑھا ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت کی نکتہ چینی کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔میں کسی کی حمایتی نہیں ہوں ہر ایک شخص کی اپنی خودداری اوراپنا ضمیر ہے ۔ سلمان اچھی طرح واقف ہیں کہ گاندھی خاندان کے ارد گرد خوش آمد پسندوں کا گھیرا ہے ۔ غلام نبی آزاد کے الزامات کافی حد تک صحیح ہیں کہ پی اے، چپراسی، گارڈ اور درباری گاندھی خاندان کو کنٹرول کررہے ہیں۔ وینسٹ وی جارج سونیا گاندھی کے ساتھ ڈرٹی پاور گیم کھیلتا ہے۔ سونیا گاندھی کے ساتھ رابطہ کرنے میں وی جارج ہیرا پھیری کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے دستخط شدہ احکامات کو بھی اپنی مرضی سے گھمادیتا ہے۔ سونیا گاندھی کو اس کے بارے میں علم ہے یانہیں پتہ نہیں۔ان کے دفتر کے ملازمین نہ صرف غیر مہذب ہے بلکہ ان کے سیکریٹریٹ کا انتظام کرنے والی خاتون بھی غیر مہذب ہیں اور راہل کو پیغامات تک نہیں دیتیں۔ ای میل کا جواب نہیں دیا جاتا اس کے علاوہ جیسا کہ سلمان خورشید بہتر جانتے ہیں کہ غلام نبی آزاد تو سنجے گاندھی کے دور کے گاندھی خاندان کے وفادار رہے ہیں۔ حال ہی میں پی ایم نریندر مودی کی راجیہ سبھا میں غلام نبی آزاد کے بارے میں تعریفی تقریر میں چاپلوسوں کے پر نوچ ڈالے ہیں۔ اوپر سے ایک جونیئر ورکر وقار رسول کو جموں و کشمیر پی سی سی کا صدر بنایا گیا ہے ۔ راجیہ سبھا میں ان کو نامزدگی نہیں دی گئی اور سی ڈبلیو سی سے ان کا نام ہٹا دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ان کا 5صفحات پر مشتمل مکتوب آزاد کے ناراض ہونے اور بے عزتی ہونے کے جذبات کا اظہار ہے۔ سلمان خورشید سینٹ اسٹیفن کالج کے دنوں کے میرے دوست ہیں اور میں ہمیشہ ان کا احترام کرتی ہوں حالانکہ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کی پارٹی کے سینئر اور مقبول لیڈر کیوں استعفیٰ دے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ مناسب وقت ہے کہ سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی واڈرا اور راہل گاندھی کے آس پاس کے پی اے چپراسی اور کام کاج دیکھنے والی منڈلی کو ختم کیا جائے۔ ان لیڈروں کو عام آدمی اور پارٹی کے ورکروں کو آسانی اور آزادی کے ساتھ وقت دینا چاہیے۔ جی ہاں میں بھوپال میں سادھوی پرگیہ سے ڈگ وجے سنگھ، 2لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہارنے والے اور پھر انہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کرلیا گیا کیونکہ وہ چاپلوسوں کی ٹولی میں ہیں۔ انہوںنے مہارائومادھوراج سندھیا کے بیٹے اور جیوتی رادتیہ سندھیا کو در کنار کرکے کمل ناتھ کو سرکار دے کر برباد کردیا۔ بدلے میں جیوتی را دتیہ سندھیہ نے مدھیہ پردیش میں کانگریس کو برباد کردیا۔ براہ مہربانی یاد رکھیں کہ انگلینڈ کے پی ایم چرچل نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی یہ دکھاوا نہیں کرتا کہ جمہوریت مکمل ہے یا وہ مکمل طورپر عقلیت پر مبنی نظام ہے۔ حقیقت میں یہ کہا گیا ہے کہ جمہوریت حکومت چلانے کا سب سے خراب طریقہ کار ہے۔ ان سبھی طریقوں کو چھوڑ کر جمہوریت آزمایا گیا ہے۔ ایک سیاستداں کی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی پیشین گوئی کرتا ہے کہ کل اگلے ہفتے اگلے مہینہ اور اگلے سال کیا ہونے والا ہے‘۔
صورت حال پر آزادانہ طریقے غور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور اور نکات پر غور کرنا ہوگا۔کپل سبل نے گاندھی خاندان سے کھلے عام قیادت سے دستبردار ہونے کو کہنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ وہ ایس پی کی حمایت سے راجیہ سبھا کے رکن نامزد ہوئے۔ کیپٹن امریندر سنگھ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب کانگریس کمیٹی کے صدر کے طور پر نوجوت سنگھ سدھو کی تقرری سے ناراض ہو کر مستعفی ہو کر اپنی پارٹی ’پنجاب لوک کانگریس‘بنا لی۔ جیوتی رادتیہ سندھیا نے 9 مارچ 2020 کو استعفیٰ دے دیا اور مدھیہ پردیش میں پارٹی قیادت کے ساتھ مسلسل لڑائی کے بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ آر پی این سنگھ جو راہل گاندھی کے قریبی مانے جاتے تھے، کانگریس پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ جیتن پرساد، جو ‘جی-23′ کی طرف سے سونیا گاندھی کو لکھے گئے مکتوب پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک تھے ۔تنظیم کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے 9 جون 2021 کو بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے استعفیٰ دے دیا۔ پرینکا چترویدی نے 27 نومبر 2021 کو استعفیٰ دے دیا اور شیوسینا میں شمولیت اختیار کی۔ یہ بتاتے ہوئے کہ پارٹی ممبران کی طرف سے ’خواتین کے تحفظ اور بااختیار بنانے کے بارے میں پارٹی کی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے استعفیٰ دیا‘۔ آل انڈیا مہیلا کانگریس کی سابق صدر، سشمیتا دیو، ایک زمانے میں نہرو-گاندھی (خاص طور پر راہل گاندھی) کے بہت قریب تھیں وہ ٹی ایم سی میں شامل ہوکر دوبارہ راجیہ سبھا کی رکن بن گئیں۔ جے ویر شیرگل نے یہ کہتے ہوئے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا کہ ’شرابی پارٹی کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں اور پارٹی اب کانگریس کارکنوں اور نوجوانوں کی امنگوں کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں رہی‘۔ کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی اور چیف وہپ بھونیشور کلیتا نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کرنے کے معاملہ پر پارٹی کے موقف پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کانگریس لیڈر سنجے سنگھ نے استعفیٰ دے دیا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے پارٹی پرماضی میں رہنے اور مستقبل سے بے خبری کا الزام لگایا۔ سابق مرکزی وزیر اشونی کمار نے کانگریس پر’زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے اور عوام کے جذبات کی نمائندگی نہ کرنے ، پارٹی کی قیادت پرکا الزام لگاتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ۔
پردیوت برمن نے پارٹی ہائی کمان سے اختلافات کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کے تریپورہ سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اداکارہ سے سیاست دان بننے والے کانگریس کی سوشل میڈیا سربراہ دیویا اسپندنا نے پارٹی کے اندر غیر صحت مند رقابتوںکا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ پی سی چاکو، سینئر کانگریس لیڈر نے پارٹی کی ریاستی اکائی میں گروہ بندی اور’قومی سطح پر مناسب قیادت کے فقدان کا الزام لگاتے ہوئے کانگریس چھوڑ دی۔ لوآئی زینوہ فلیریو، گوا کے سابق وزیر اعلی استعفیٰ دے کر ٹی ایم سی میں شمولیت اختیار کی۔کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایس ایم کرشنا نے پارٹی صدر راہل گاندھی کی مسلسل مداخلت‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بلرام جاکھڑ کے بیٹے سنیل جاکھڑ نے بھی پنجاب کانگریس سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ فہرست بہت لمبی ہے۔ جب کہ بہت سارے نامور لوگوں نے کانگریس پارٹی کی بنیادی رکنیت چھوڑ دی ہے، ان پر الزام لگانے کے بجائے، کانگریس پارٹی کے اندرونی صورت حال پر غور کرنے کا وقت آگیا ہے۔ کانگریس پارٹی خود کوکانگریس مکت بھارت’ بنا رہی ہے۔ جبکہ کانگریس پارٹی کے کارکنان ہندوستان کے کونے کونے میں ہیں۔ لیکن مقامی سطح پر ان کے پاس کوئی ٹیم لیڈر نہیں ہے اور وہ بتاپتوار کے ہیں۔ اتر پردیش میں دو اسمبلی سیٹوں کی جیت زمینی سطح پر موجودگی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ہم یہ تمام باتیں کانگریس لیڈروں سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی، راہل گاندھی کے ساتھ کسی قسم کے تعصب کے بغیر کہہ رہے ہیں کانگریس کو اپنی حکمتی عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ورنہ کانگریس ہوا ہوائی ہوجائے گی۔
(نیلم مہاجن سینئر صحافی ہیں اور دو ردرشن سے وابستہ رہی ہیں)
[email protected]