گلوبل وارمنگ :گزشتہ 7 ہزاربرسوں میں شدید ترین سطح پر

0

گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت سے مراد کرۂ ارض کی سطح پر تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے۔ ماحولیاتی مطالعات کی روشنی میں برابر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ زمین پر درجہ حرارت لگاتار بڑھ رہا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق پچھلی صدی میں زمین کا درجہ حرارت0.75 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا تھا۔ انٹرنیشنل پینل آن کلائمٹ چینج کی جائزہ رپورٹ جو کہ 2018 میں شائع ہوئی اس میں بتایا گیا تھا کہ آنے والے وقت میں زمین کا اوسط درجہ حرارت 2.0 ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر4.5ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ مزید کہا گیا تھا کہ ایک اور اندازے کے مطابق یہ اضافہ 6 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی ہو سکتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دنیا بھر میں جنگلات کے جلنے، سیلاب اور خشک سالی کے امکانات میں کافی اضافہ ہوا۔
جب لوگ کوئلہ ،تیل یا قدرتی گیس جلاتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (سی او ٹو) پیدا ہوتی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جب پودوں اور سمندر میں جذب ہونے سے بچ جاتی ہے تو فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ان وسائل کا بے دریغ استعمال آلودگی کا باعث بن بنتاہے۔ آکسیجن تمام جانداروں کے لیے ناگزیر ہے۔ جنگلات کا صفایا اس کمی کا باعث بن رہا ہے۔ آکسیجن کے تین ایٹموں کے ملنے سے اوزون گیس بنتی ہے۔ یہ گیس ہماری بیرونی فضا میں زمین سے 12کلو میٹر سے 48کلو میٹر تک اکٹھی ہو رہی ہے۔ اوزون کا یہ ہالہ ہمارے سیارے کو سورج سے آنے والی مضر شعاؤں سے بچاتا ہے۔ فضا میں آلودگی کی وجہ سے اوزون لہر میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔
درخت کے تنے میں موجود چھلے ماضی کی موسمی کیفیات کے بہترین قدرتی دستاویزات میں سے ایک ہیں کیوں کہ درخت بارش اور درجہ حرارت جیسے مقامی موسم کے عوامل کے لیے حساس ہوتے ہیں۔ گرم اور مرطوب سالوں میں درخت کے یہ چھلے عموماً چوڑے ہوتے ہیں جبکہ سرد اور خشک سالوں میں یہ سکڑ جاتے ہیں۔قطبین کے نواحی علاقوں میں درختوں کی نمو عموماً درجہ حرارت کی تبدیلی کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہے اور اگر درختوں کی نمو اور درجہ حرارت کے ریکارڈ کے اعداد و شمار کے درمیان موازنہ موجود ہو تو قدیم درختوں کے چھلوں کی چوڑائی سے ماضی کے درجہ حرارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ رشیئن اکیڈمی آف سائنسز اور یورل فیڈرل یونیورسٹی کے سائنس داں شمال مغرب سائبیریا میں جزیرہ نما یامل کے علاقے میں گزشتہ 40 سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں اور فاسل لکڑیاں تجزیے کے لیے اکٹھی کر رہے ہیں۔ روس میں ڈینڈروکرونولوجی کے بانی اسٹیپن شیاٹوف اس خطے میں ملنے والے قدیم درختوں کی اہمیت محسوس کرنے والے اور ان نمونوں کو باقاعدہ طور پر جمع کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ رشیئن اکیڈمی آف سائنسز کے محققین نے تب سے اب تک دو درجن سے زیادہ مشن کر لیے ہیں اور قدیم درختوں کے تنوں کے 5 ہزار سے زائد نمونے جمع کر لیے ہیں۔ جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے بتایا کہ شمال مغربی سائبیریا اس وقت 7ہزار سالوں میں سب سے گرم موسمِ گرما سے گزر رہا ہے۔
اثرات : گلوبل وارمنگ سے پوری دنیا کے حرارت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوتا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ جہاں بارش ہو رہی ہوتی ہے وہاں خشکی آسکتی ہے اور جہاں خشکی ہے وہاں بارشیں ہونا شروع ہوسکتے ہیں۔ اسی کچھ علاقوں میں بالکل قحط طاری ہو سکتا ہے اور کچھ علاقے سیلاب کے لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ عالمی حرارت سے گلیشیر پگھل کر پانی میں تبدیل ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔
روک تھام: کچھ طریقہ کار ایسے ہیں جن سے عالمی حرارت کو روکنے یا کم از کم اس میں اضافے کو کم کیا جاسکتا ہے جو درج ذیل ہیں:
-1شجرکاری: عالمی حرارت کو کم کرنے کا سب سے بہترین راستہ شجرکاری (یعنی نئے پودوں کو اگانا )ہے۔ پودے اور درخت کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرلیتے ہیں اور ماحول میں اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔
-2مختلف توانائیوں کا استعمال کم کیا جائے جو گلوبل وارمنگ میں اضافہ کرسکتے ہیں، جو توانائی جتنی بار دوبارہ استعمال کی جاسکتی ہے اسے دوبارہ استعمال کیا جائے۔
-3ہیٹر اور ایئر کنڈیشنروں کا استعمال کم کیا جائے۔ حرارتی بلب کو انرجی سیور سے متبادل کیا جائے۔
-4آگاہی: معاشرے میں اور یا کم از کم اپنے خاندان میں بھی اگر انسان اس بارے میں آگاہی پیدا کریں تو اس سے گلوبل وارمنگ پوری طرح ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن کم از کم اپنے توفیق تک انسان کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسروں کو آگاہی دینا اور ان کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا انتہائی اہم قدم ہے۔
-5قابل تجدید توانائیوں کا استعمال: اگر زیادہ تر قابل تجدید توانائی استعمال کی جائے تو اس سے کافی حد تک گلوبل وارمنگ میں کمی کی جاسکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS