عارف شجر
کانگریس کی قائد سونیا گاندھی راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا کو یہ قطعی وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ ان کی سب سے پرانی پارٹی جس نے ملک کی آزادی میں اہم رول ادا کیا ہو، انگریزوں کے دانت کھٹے کئے ہوں، ملک کو آزادی دلانے میں اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا ہو، اسی کانگریس پارٹی کے وجود کو بچانے کی لڑائی لڑی جائے گی۔ جو نظر کے سامنے ہے اور جو لوگ محسوس کر رہے ہیں اس سے تو یہی پتہ چلتاہے کہ کانگریس کی لگاتار گرتی ہوئی ساکھ اور اس کے زوال کی ذمہ داری خود کانگریس قائدین کی ہی ہے، باقی جو کچھ بچی ہوئی ساکھ تھی اسے بی جے پی نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ 2014 کی مودی لہر نے کانگریس کے زیادہ تر ریاستوں سے اسے اکھاڑ پھینکا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود کو ہی ختم کر دیا یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد سے لگاتار کانگریس بی جے پی سے سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے کھڑی بھی نہیں ہو پائی۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کانگریس جہاں پورے ملک میں قابض تھی وہ اب ایک دو ریاستوں میں سمٹ کررہ گئی ہے 2014 سے پہلے کانگریس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی پارٹیاںشامل تھیں مگر 2014 کے بعد سے، اب ایسا ہوا کہ کانگریس علاقائی پارٹیوں کے ساتھ سرکار بنانے پر مجبور ہو کر رہ گئی ہے۔
ایسے وقت میں جہاں آئندہ عام انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی سے براہ راست سیاسی ٹکر ہونے والی ہے وہاں ابھی تک کانگریس نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور بی جے پی جیسی مستحکم اور مضبوط پارٹی کو شکست دینے کے لئے کوئی بھی لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہے اس کے لئے کانگریس کے صدر کا انتخاب اب تک عمل میں نہیں آیا ہے جس سے کہ پارٹی کو مضبوطی مل سکے۔ کانگریس میں اس قدر آپسی اختلافات بڑھے ہوئے ہیں کہ صدر کا انتخاب کرنے میں کانگریس کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک جانب مختلف سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی صف بندی میں مصروف عمل ہیں تو دوسری طرف کانگریس کے قد آور قائدین پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں، کئی نے تو کانگریس کو الوداع کہہ کر بی جے پی کا دامن تھام لیا ہے اور کئی الگ پارٹی بنانے کی سوچ رہے ہیں، افسوس تو تب ہوتا ہے جب مشکل حالات میںپارٹی کو مضبوطی دینے کے بجائے کانگریس کے اہم لیڈر غلام نبی آزاد، جیوتی رادتیہ سندھیا، کپل سبل ،سجتندر پرساد اور شیرگل جیسے قائدین استفیٰ دے دیتے ہیں اور کانگریس کو طوفان کے حوالے کرکے چلتے بنتے ہیں۔ ایسے حالات میں اب کانگریس کو اپنے وجود کو بچانے اور بی جے پی سے سیاسی مقابلہ کرنے کی لڑائی لڑنی ہوگی مگر فی الحال کانگریس کو مضبوط کرنے اور آئندہ عام انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی سرگرمی کانگریس کے اندر سے کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے ، کانگریس کے صدر کا انتخاب نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کانگریس کے اندر رسہ کشی شباب پر ہے کانگریس کا ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ گاندھی خاندان کے باہر سے کسی صدر کا انتخاب عمل میں آئے وہیں دوسرا گروپ یہ چاہتا ہے کہ گاندھی خاندان سے ہی صدر منتخب ہو جس میں راہل گاندھی کا نام سر فہرست ہے،اور راہل گاندھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ صدر کی کرسی نہ سنبھالیں کیوں کہ ان پر الزام یہ لگ چکے ہیں کہ راہل گاندھی کی وجہ کر ہی کانگریس اپنی حکمت عملی میں فیل ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے ہی کئی ریاستوں کو کھونا پڑاہے، اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جا سکتا کہ راہل گاندھی کی شبیہ کو بی جے پی نے سیاست کا ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کیا ہے اگر وہ کانگریس کے صدر بنتے ہیں تو کانگریس کو اسکا خمیازہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں کانگریس مجلس عاملہ کی دو روزہ میٹنگ ہوئی تھی، جس میں کئی امور پر بات چیت کی گئی تھی لیکن افسوس یہ کہ پارٹی کا اگلا صدر کون ہوگا اس پر فیصلہ نہیں ہوسکا، جو کسی ستم ظریفی سے کم نہیں، یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب کانگریس اس چھوٹے سے عمل کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی تو ملک کے مفاد میں کیسے بڑا فیصلہ کر پائے گی۔ کانگریس کی اس کارگذایوں سے ملک کے عوام میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب17 اکتوبر کو ہونے والا ہے جو19 اکتوبر کوووٹوں کی گنتی کی جائے گی، 22 ستمبر کو نوٹیفکیشن جاری ہوگا، 24ستمبر کو پرچہ نامزدگی اور 30 ستمبر تک نام واپس لئے جا سکیں گے۔ اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کانگریس کا قومی صدر کون ہوگا کاندھی خاندان سے یا پھرکانگریس کا کوئی قائد، یہ سچ ہے کہ کانگریس کا قومی صدر کون ہوگا اس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں، خصوصی طور سے بی جے پی کی اس پر گہری نظر ہے کیوںکہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی بھی اپنی حکمت عملی میں ترمیم یا تبدیلی کرے گی تاکہ 2024 کا عام انتخابات میں ان کی جیت پکی ہو سکے۔ویسے بی جے پی یہ مان کر چل رہی ہے کہ اسے کانگریس سے خطرہ نہیں ہے کیوں کہ ان کے قد آور قائدین نے پارٹی کو الوادع کہہ دیا ہے جس سے بہتر سیاسی حکمت عملی بنائی جا سکتی تھی ،اب کانگریس میں ایسے قائدین نہیں بچے ہیں جو کانگریس کو جیت سے ہمکنار کر سکیں، بی جے پی کو علاقائی پارٹیوں سے خوف لگ رہا ہے اگر یہ متحد ہو جائیں گے تو سیاسی منظر نامہ بدلنے کے کچھ حد تک چانس ہیں لیکن ان میں بھی اختلافات شباب پر ہے ، پی ایم کا چہرہ کون ہوگا یہ اب تک اپوزیشن سیاسی جماعتوں میں طے تک نہیں ہو پایا ہے جبکہ بی جے پی ابھی سے ہی یہ اعلان کر چکی ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں نریندر مودی ہی پی ایم کا چہرہ ہوںگے۔
بہر حال! کانگریس میں قیادت اور پارٹی کے وجود کو بچانے کا مسئلہ بنا ہوا ہے ، کانگریس میں کنبہ پروری سب سے زیادہ حاوی ہے،اگر کانگریس بنیادی طور پر اپنے نچلی سطح کے کارکنوں کی طاقت پر پورے ہندوستان میں پد یاترا کا اہتمام کرتی ہے، اور لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کا کام کرتی ہے، تو اسے یقینی طور پر نچلی سطح کے نئے کارکن اور ہمدرد ملیں گے۔ اس سے کانگریس کے تیزی سے زوال کو روکا جا سکتا ہے۔ پریشان کن کانگریس کے لیے یہ کامیابی براہ راست سیاسی فوائد سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پارٹی کے وجود کو بچانے میں کانگریس کے نوجوان سیاسی قائدین کتنا اہم رول ادا کرتے ہیں کیوں کہ جتنے بھی پرانے کانگریسی قائدین تھے جو کانگریس کی ریڑھ کی ہڈی مانے جاتے تھے جنہوں نے کانگریس کو اپنی سیاسی بصیرت سے اس کے وجود کو بچائے رکھا وہ پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اب سونیا گاندھی پر پوری ذمہ داری ہوگی کہ پارٹی کو مضبوط کرنے میں وہ کون سی حکمت عملی تیار کرتی ہیں اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
[email protected]
کانگریس کے وجود کی لڑائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS