پروفیسرعتیق احمدفاروقی
چینی جاسوسی جہاز یو آن وانگ5نے سری لنکا کی بندرگاہ ہن بن ٹوٹا پر لنگر ڈال لیاہے۔ اس سے پہلے ہندوستان نے اس جہاز کو لے کر سری لنکا کے سامنے اپنا اعتراض درج کیاتھا ۔نتیجتاً سری لنکانے چین سے درخواست کی کہ وہ اس جہاز کی آمد کو ملتوی کردے۔پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق اس جہاز کو11اگست کوہن بن ٹوٹا آناتھا۔سری لنکا حکومت کے بدلے رویہ سے پریشان چین نے کولمبو پر دباؤ ڈالا۔چونکہ سری لنکاچین کے بھاری قرض کے بوجھ سے دباہوا ہے اور اس نے ہربن ٹوٹا بندر گاہ بھی چین کو 99برس کیلئے لیز پر دے دیاہے توچینی جہاز کو روکنے کے معاملے میں سری لنکا ایک حد سے تجاوز نہیں کرسکتا تھا۔اس نے اس دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے 13اگست کو چینی جہاز کو آمد کی اجازت دے دی تھی۔ یہ جہاز 22اگست کوہن بن ٹوٹا بندرگاہ پر پہنچ گیا۔چین کا کہناہے کہ یہ جہاز امن اور دوستی کے فروغ کے مقصد سے بھیجا گیاہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔یوآن وانگ -5 اپنی جاسوسی صلاحیت کیلئے مشہور ہے۔یہی سبب ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارا ملک ناراض ہے۔ہندوستان کی تشویش بے وجہ نہیں ہے۔یو آن وانگ قسم کے جہاز جاسوسی کیلئے ہی بنے ہوتے ہیں۔چینی زبان میں یوآن وانگ کا مطلب ہی دور تک نظر رکھنے والا ہوتا ہے۔اس کا کنٹرول چینی بحریہ کے ہاتھ میں ہوتاہے۔فطری بات ہے جس جہازکا کنٹرول ایک ہی جارح فوج کے ہاتھ میں ہو تو اس کا مقصد امن اور دوستی کا فروغ کیسے ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے یہ جاسوسی جہاز خطرناک صلاحیتوں سے لیس ہے۔اس میں جدید ترین رڈار وسنسر وغیرہ آلات لگے ہیں جو میزائلوں اور سیاروں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اس کا میزائل رینج انسٹومنشن اینٹینا 750کلومیٹر دور تک میزائل یا راکٹ کا پتہ لگا سکتا ہے۔یہ 16اگست سے جس ہن بن ٹوٹا میں کھڑا ہے وہاں سے کنیاکماری کی دوری قریب 450کلومیٹر ہی ہے۔ہماری متحدہ میزائل ٹیسٹ رینج بھی اڑیسہ کے چاندی پور میں ہے اور اپنی صلاحیتوں سے یہ وہاں تک نظر رکھنے کا اہل ہے۔اس لئے ہندوستان کی تشویش جائزہے۔ ہن بن ٹوٹا کی جائے وقوع بھی تزویری ہے ۔یہ بحر ہند میں ایک اہم مقام پر واقع ہے۔ان حالات میں چینی جاسوسی جہاز یہاں ایک نئی جنگ اور ٹکراؤ کے بیج بو سکتا ہے۔ قریب سوا دو سو میٹر لمبے اس جہاز پر تقریباً دو ہزار افراد کی موجودگی بھی شک پیدا کرتی ہے۔آخرنام نہاد تحقیق اور کھوج کے لئے چینی جہاز کو اتنی دور کیوں آنا پڑا؟
چینی جاسوسی جہاز کی آمد کا وقت اور اس کے پیچھے چین کی نیت کو اگرسمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس میں ایک خاص رجحان دیکھنے کو ملے گا۔گزشتہ کچھ عرصہ سے ہندوستان اور سری لنکا کے تعلقات میں ڈرامائی اصلاح ہوئی ہے۔ڈرامائی طور پر اس لئے کہ ویسے تو ہند سری لنکافطری شراکت دار اور روایتی دوست رہے ہیں لیکن ایک وقت چین سے مل رہے بھاری قرض اور دیگر فوائد کے چلتے کولمبو نئی دہلی کے درمیان گرم جوشی میں کمی آگئی تھی۔ بعد ازاں سری لنکا میں غیر متوقع اقتصادی بحران آیا جس کیلئے چین کا بھاری اور عملی طورپر غیرمناسب قرض بھی کافی حد تک ذمہ دار تھا۔مصیبت کی حالت میں چین نے سری لنکا کی امدادتو دور الٹے قرض کی شرطوں میں رعایت دینے تک سے انکار کردیا۔اسی دوران ہمارے ملک ہندوستان نے نہ صرف مالی بلکہ خردنی اشیاء، ایندھن اور دواؤں وغیرہ جیسی ضروری اشیاء فراخ دلی سے سری لنکا کو فراہم کی۔اس چیز نے سری لنکا میں ہندوستان کے تئیں دوستانہ ماحول پیدا کیا جبکہ یہاں پر ایک بڑا طبقہ ان آفات کیلئے چین کو مورد الزام ٹھہراتاہے۔ان بدلتے حالات میں ہی سری لنکا کی حکومت چینی جہاز کو آنے سے منع کررہی تھی۔یہ بات چین کو ناگوار گزری۔حال میں تائیوان کولے کر امریکہ سے ہوئی نوک جھونک کے چلتے چین کی پہلے ہی بے عزتی ہوچکی ہے۔امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان دورے کولے کر اس کی دھمکیاں گیدڑ بھپکیاں ہی ثابت ہوئیں۔ایسے میں وہ سری لنکا اور ہندوستان کی بڑھتی قربت اور اس سے اپنے گھٹتے رعب کولے کر ہونے والی بے چینی سے بچنا چاہتا تھا۔چین میں جیسے گھریلو حالات اور بے اطمینانی پیدا ہو رہی ہے اس کے مد نظر شی جن پنگ کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں ہونے والے کمیونسٹ پارٹی کے جلسہ سے قبل اپنی جارح شبیہ کو نئے تیور دے کراپنی مضبوط گرفت دکھائیں۔ ویسے چین نے ایسا پہلی بار نہیں کیا ہے۔سال 2017میں وزیراعظم نریندر مودی کے سری لنکا دورہ کے دوران بھی اس نے وہاں اپنی ایٹمی پنڈبیوںکو بھیجنے کا منصوبہ بناکر اپنے اثر کا اشارہ دینے کی کوشش کی تھی ۔سری لنکا حکومت کی درخواست پر بعد میں چین نے ایسا نہیں کیا لیکن اس کی نیت تو ظاہر ہوگئی تھی۔واضح ہے کہ ہن بن ٹوٹا کے پیچیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں چین کو روکنے کیلئے ہندوستان کوہر سطح پر ہرممکن کوشش کرناچاہیے۔دراصل چین اب بحر ہند میں اپنادبدبہ بڑھانا چاہتاہے کیونکہ یہی مستقبل میں اقتصادی سرگرمیوں کامرکز بننے والا ہے۔
چینی جہاز کو سری لنکاکے ساحل پر جگہ دینے کا مسئلہ اس ملک کی داخلی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔سری لنکاکو اپنی فوری ضرورت کے لیے ساری دنیاسے مالی وسائل چاہئیں۔وہ چین سے بھی چارارب ڈالر امداد کی امید رکھتا ہے۔پھر ہن بن ٹوٹا کی چین کوملے پٹے کامعاملہ بھی ہے۔
ان حالات میں سری لنکاکے ساحل پر چینی جہاز کی آمد کو روکنے کے معاملے میں سری لنکاکی پریشانی سمجھی جاسکتی ہے۔ پھر بھی اسے سمجھنا ہوگا کہ وہ ہندوستان کے اعتراضات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔چین کے برعکس ہندوستان اور سری لنکا دونوں میں ہی جمہوری نظام ہے۔مصیبت کے وقت ہندوستان نے سری لنکاکی ہر ممکن مدد کی ہے جس کے خلاف ہندوستانی عوام نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔اگر سری لنکا مستقبل میں بھی ہندوستان کے اعتراضات کو اسی طرح نظر انداز کرے گا تو ہندوستانی حکومت کو اس کی مدد کو لیکر رائے عامہ کو اس کے حق میں تیار کرنا مشکل ہوجائے گا۔سری لنکاکے چین کی طرف جھکاؤ کے باوجود اگر ہندوستان کی مدد جاری رہے گی تو یہ گھریلو سطح پر اس کی سیاسی مشکلیں بڑھا سکتاہے کیونکہ تب عوام ایسی مددپر سوال اٹھائیں گی۔سری لنکا کو سمجھنا ہوگا کہ اگر اس نے توازن برقرار نہیں رکھاتو اس کا خمیازہ اسی کو بھگتنا پڑے گا۔
[email protected]